حسن نثار اور الطاف حسین کا فلسفۂ محبت


\"mehmudulایک صاحب ہیں، حسن نثار،جنھیں سیاست دانوں کو برا بھلا کہنے کی لت ہے۔ تحریراور تقریرمیں جمہوریت کے لتے لیتے ہیں۔ منتخب نمائندوں کی ایسی تیسی پھیرتے ہیں اور ان سے متعلق بقول، جاوید شاہین

کچھ اس کے مصرف میں رہ گیا ہے تو حرف دشنام رہ گیا ہے

حضرت ’’جنگ ‘‘میں خامہ فرسائی کرتے ہیں تو ’’جیو ‘‘کے لیے پروگرام۔ تحریری خدمات تو صرف ’’جنگ ‘‘ سے مخصوص ہیں مگر بھاشن دینے کے لیے ’’جیو ‘‘کے سوا دوسرے چینلوں کے دروازے کھلے ہیں۔ اس لیے اگرکسی اینکر کا بیچاری جمہوریت کو گالی دلوانے کو دل کرے تو اس کے ذہن میں شیخ رشید کے بعد سب سے پہلے انہی کا نام آتا ہے۔ جس نظام نے انھیں بولنے کی آزادی دی ہے، اسی پر ملامت کرتے ہیں۔گذشتہ برسوں میں البتہ ایک سیاسی شخصیت ایسی ضرور رہی ہے جو ان کے غیظ سے محفوظ رہی اور جس کے حصے میں حسن نثارکی تنقید نہیں تحسین آئی ۔ اور یہ ہیں ون اینڈ اونلی ، الطاف حسین ، جن کی سیاست تشدد سے عبارت ہو تو ہو مگر کتاب انھوں نے ’’فلسفۂ محبت ‘‘کے نام سے لکھی تو محترم حسن نثار نے بڑی محبت سے اس میں شامل اپنی تحریر میں الطاف حسین کو بابائے قوم کے بعد پہلا ایسا شخص قرار دیا ہے جو لیڈر کے ساتھ ساتھ ٹیچر کا کردار بھی بھر پور طریقے سے نبھا رہا ہے۔ کتاب کی تعریف میں موصوف نے کالم بھی لکھا۔ اپنے ایک کالم میں انھوں نے عمران خان کو تجویز کیا تھا کہ وہ الطاف حسین سے رہنمائی لیں کہ لیڈر کے ساتھ ساتھ ٹیچر کیسے بنا جاتا ہے۔ چند سال قبل ایم کیو ایم کے قائد کی جانب سے ’’ایک شام حسن نثار کے نام ‘‘کا اہتمام بھی کیا گیا ،جس پر یہ پامال مصرع دہرایا جاسکتا ہے :

یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔

حسن نثارجن سیاست دانوں پر گرجتے برستے ہیں، ان کے جرائم جو بھی رہے ہوں، الطاف حسین کا پلڑا بہرصورت بھاری رہے گا، ان کے \"index01\"جرائم کی تفصیل میں ہم نہیں جاتے، صرف یہ پوچھ لیتے ہیں کہ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے سابق ایم ڈی شاہد حامد کے قتل کے مجرم صولت مرزا کا تعلق کس جماعت سے تھا؟ مقتول کے بیٹے کو مقدمے کی پیروی کرنے پرکس جماعت کے رہنما ؤں نے دھمکیاں دی تھیں؟ عظیم طارق کے خاندان نے ان کے قتل میں کس جماعت کے ملوث ہونے کا عمران خان کو بتایا تھا؟ عمران فاروق قتل کیس میں کس کے ملوث ہونے کا شبہ ہے؟ منی لانڈرنگ ،بھتہ خوری اوربوری بند لاشوں کی بات بھی جانے دیجیے کہ یہ قصے بڑے طولانی ہیں۔ حسن نثار جس پیشے سے متعلق ہیں،اس سے وابستہ افراد کو جتنا ہراساں ایم کیو ایم نے کیا، کسی دوسری جماعت نے نہ کیا ہوگا۔ الطاف حسین نے جب وہ پاکستان میں تھے، ایک دفعہ بھرے مجمعے میں ممتاز صحافی محترمہ رضیہ بھٹی اور ’’نیوز لائن ‘‘کی پوری ٹیم کے بارے میں گھٹیا زبان استعمال کی تھی۔ ابھی کل تک الطاف حسین پر ہلکی سے تنقید کرنے سے وہ صحافی بھی ڈرتے تھے جن کی دلاوری کے قصے عام ہیں۔

میڈیا سے ایم کیو ایم کے ’’حسن سلوک ‘‘ سے متعلق واقعات کا ایک اجمالی جائزہ دوتین روز پہلے ممتاز صحافی ایم ضیاء الدین نے ایک ٹی وی چینل پر پیش کیا ہے۔ خواجہ آصف نے کچھ عرصہ قبل محترمہ شیریں مزاری کو ٹریکٹر ٹرالی کہہ کراپنے چھوٹے پن کا ثبوت دیا ، تو حسن نثارکا قلم فوراً حرکت میں آیا ،مگر وہ یہ بھول گئے کہ ان کے لیڈر پلس ٹیچر نے شیریں مزاری کو نائیکہ کہا تھا جو ٹریکٹرٹرالی سے بھی گری ہوئی بات تھی۔ حسن نثارکے لیے قابل نفرین سیاستدانوں میں سے کیا کسی نے قیام پاکستان کو بلنڈر قرار دیا؟ کیا ان بیچاروں میں سے کسی نے پاکستان مردہ باد کہا؟ یہ اعزاز صرف اس ٹیچر کے حصے ہی میں آیا ہے۔ حسن نثارسیاسی جماعتوں کو یہ کہہ کرمطعون کرتے ہیں کہ یہ کس منہ سے جمہوریت کی بات کرتے ہیں، ان کے تو اپنے اندر جمہوریت نہیں۔ مان لیا۔ ان کی یہ بات سولہ آنے درست ہے مگر ان کی \"14169646\"پسندیدہ جماعت میں کس قدر جمہوریت ہے، اس کے لیے وسعت اللہ خان کی تحریر سے یہ ٹکڑا ذرا ملاحظہ کرلیں: ۔۔۔

ایم کیو ایم کا تنظیمی ڈھانچہ کچھ یوں ہے کہ ہرشے قائد سے شروع اور قائد پر ختم ہوتی ہے۔ یوں سمجھیے کہ انگریزی ضرب المثل ’’ تمام راستے روم کو جاتے ہیں‘‘الطاف حسین کے لیے ہی بنی ہے۔ یوں سمجھیے کہ اگر فیصل آباد کا گھنٹہ گھر غائب ہوجائے تب بھی تمام سڑکیں وہیں پر ختم ہوں گی ۔۔۔ایم کیو ایم کا تنظیمی حلف ایسا ہے کہ الطاف حسین لاتعلق ہوں نہ ہوں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس حلف کی پہلی لائن ہے کہ میں متحدہ قومی موومنٹ اور الطاف حسین کا تاحیات وفادار رہوں گا۔ اور آخری لائن کا لب لباب ہے کہ میں قسم کھاتا ہوں کہ کسی بھی معاملے میں الطاف حسین کے کئے گئے فیصلے کو حتمی تصور کروں گا بصورت دیگر مجھے غدار سمجھا جائے۔‘‘

’قائد کا جو غدار ہے، موت کا حقدار ہے‘ یا پھر ’منزل نہیں رہنما چاہیے‘ کے نعرے بھی ایم کیوایم کی ایجاد ہیں ۔

’’فلسفۂ محبت ‘‘ میں شامل حسن نثارکی لکھت کا یہ ٹکڑا بھی ملاحظہ کریں :

درد دل کے ساتھ کردار سازی کا ہی کرشمہ ہے کہ قائد تحریک نے زیریں طبقات کے پڑھے لکھے نوجوانوں کی ایک ایسی ٹیم تیار کرکے \"14138390\"سیاسی میدان میں اتار دی جو محنت ، دیانت ، امانت ، ڈسپلن کا قابل رشک کومبی نیشن (combination)تھی۔ پاکستان کی آوارہ اور بد کردار سیاست میں یہ کسی معجزے سے کم نہیں ، اور یہ سب کچھ صرف اس لیے ممکن ہوسکا کہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ الطاف حسین بطور لیڈر زیادہ کامیاب ہیں یا بطور ٹیچر۔‘‘

حسن نثاراب بھلے سے الطاف حسین کے بارے میں کچھ بھی کہیں، کوئی ان کی بات پریقین نہیں کرے گا کیونکہ 23 اگست کی تقریر سے پہلے بھی الطاف حسین کے کارنامے آب زر سے لکھے جانے کے قابل نہیں تھے۔ اور ہاں آخر میں یہ بات کہ محترم غازی صلاح الدین نے کچھ عرصہ پہلے ایک تقریب ،جس میں حیدر عباس رضوی اور وسیم اختر موجود تھے، ایم کیو ایم والوں سے کہا تھا کہ ’شہرتو آپ آدھے گھنٹے میں بند کراسکتے ہیں، لیکن امتحانات میں نقل بیس سالوں میں بند نہیں کراسکے۔‘ ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے غازی صاحب کے اس سوال کا کوئی جواب نہیں بن پایا تھا ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments