پاکستان کو درپیش خارجی و داخلی خطرات


\"edit\"ایک ایسے وقت میں جبکہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات مسلسل کشیدگی کی طرف بڑھ رہے ہیں، امریکہ بھی پاکستان سے دوری اختیار کرنے اور بھارت کی ساتھ فوجی اور اقتصادی تعلقات استوار کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ پاکستان کے پالیسی ساز ابھی تک یہ جواز فراہم کرتے ہیں کہ افغانستان میں حالات کی وجہ سے امریکہ بہر صورت پاکستان کے تعاون کا محتاج رہے گا۔ واشنگٹن میں بھی بعض سیاستدان اس ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ لیکن یوں لگتا ہے کہ یہ آوازیں مسلسل کمزور ہو رہی ہیں۔ امریکی فوج اور انٹیلی جنس کے ذرائع اور کانگریس امریکی حکومت کے اس موقف کے ساتھ متفق نہیں کہ پاکستان کی اقتصادی اور فوجی امداد جاری رکھ کر اسے ساتھ ملائے رکھنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے لئے امریکی فوجی اور اقتصادی امداد میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ سال رواں کے دوران پاکستان کو امریکہ کی طرف سے مجموعی طور پر ایک ارب ڈالر سے کم امداد ملے گی۔ گزشتہ دس برس کے دوران ملک کو ملنے والی یہ کم ترین امریکی امداد ہو گی۔ اس ماہ کے شروع میں امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر نے 300 ملین ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرنے کے لئے مطلوبہ تصدیق نامہ جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس سرٹیفکیٹ میں وزیر دفاع کانگریس کو یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کے خلاف جنگ میں پیش رفت دکھائی ہے۔

امریکہ کی طرف سے افغانستان میں پاکستان کے کردار پر مسلسل شبہ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ پاکستان نے دو سال قبل آپریشن ضرب عضب کا آغاز کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ اب اچھے اور برے طالبان کی تخصیص نہیں کی جائے گی۔ اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہر قسم کے دہشت گرد گروہوں کا صفایا کرے گا۔ پاکستان اس آپریشن میں 90 فیصد تک کامیابی کا دعویٰ کرتا ہے لیکن امریکہ بدستور یہ شکایت کرتا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں ان عناصر کے خلاف اس شدت سے کارروائی نہیں کی گئی جو افغانستان میں جنگ کر رہے ہیں اور امریکی تنصیبات پر حملوں میں ملوث ہیں۔ اسی طرح افغانستان بھی اب زیادہ شدت سے یہ الزام تراشی کرتا ہے کہ اس کے ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی پاکستان کی سرزمین سے کی جاتی ہے اور دہشت گرد بھی یہاں سے جا کر دھماکے کرتے ہیں۔

بدھ کی رات کو کابل کی امریکی یونیورسٹی میں دھماکہ میں 7 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ صدارتی محل سے جاری ہونے والے ایک بیان میں فوری طور پر اس کا الزام پاکستان سے آنے والے عناصر پر عائد کیا گیا۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اگرچہ فوری طور پر افغان صدر سے ٹیلی فون پر بات کر کے اس سانحہ کی شدید مذمت کی اور ملزموں کا سراغ لگانے میں مدد فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ پاک فوج نے افغان معلومات کی بنیاد پر بعض سرحدی علاقوں میں کومبنگ آپریشن بھی کیا ہے۔ لیکن دونوں ملکوں کے درمیان بداعتمادی کا رشتہ بدستور پروان چڑھ رہا ہے۔ کابل اور واشنگٹن سے مسلسل یہ بات کہی جا رہی ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ پاکستان اس کے جواب میں دہشت گردی کے خلاف اپنی قربانیوں اور شدید مالی نقصان کا حوالہ دیتے ہوئے ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔ لیکن نہ افغانستان، پاکستان پر اعتبار کرتا ہے اور نہ امریکہ پاکستان کی وضاحتوں کو تسلیم کرتا ہے۔

یہ صورتحال یوں بھی سنگین ہوتی جا رہی ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا آغاز شدید مشکلات کا شکار ہے۔ یہ اشارے سامنے آئے ہیں کہ طالبان لیڈر ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد مولوی ہیبت اللہ کی قیادت میں افغان طالبان نے سخت رویہ اختیار کیا ہے اور پاکستان کے ساتھ ان کے تعلقات میں دراڑیں پڑی ہیں۔ امریکہ نے پاکستان کو اطلاع دیئے بغیر اور اس سے مشورہ کی ضرورت محسوس کئے بغیر مئی میں ایک ڈرون حملہ میں بلوچستان کے علاقے نوشکی میں ملا اختر منصور کر ہلاک کر دیا تھا۔ پاکستان کی طرف سے اس حملہ پر شدید ردعمل ظاہر کیا گیا تھا اور یہ بھی واضح کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ ملا اختر منصور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے اہم کردار ادا کر سکتا تھا۔ لیکن امریکہ نے اسے اپنی غلطی ماننے کی بجائے بدستور اس بات پر اصرار کیا ہے کہ ملا منصور کی قیادت میں طالبان افغانستان میں امریکی مفادات کے خلاف کام کر رہے تھے۔ پاکستان نے اس حملہ کو اپنی خود مختاری اور سالمیت پر حملہ قرار دیا تھا لیکن امریکہ نے کسی قسم کی پشیمانی کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی پاکستان بیان جاری کرنے سے آگے بڑھ کر کوئی اقدام کرنے میں کامیاب ہوا۔

افغان طالبان کے ساتھ معاہدہ کے حوالے سے چین بھی بے حد دلچسپی رکھتا ہے۔ چین اس چہار رکنی گروپ کا بھی حصہ ہے جو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لئے کام کا رہا ہے۔ اس گروپ میں پاکستان کے علاوہ چین ، امریکہ اور افغانستان شامل ہیں۔ لیکن طالبان کے ساتھ پاکستان انٹیلی جنس کے روابط کی وجہ سے پاکستان سے ہی ان مذاکرات کے لئے راہ ہموار کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔ اگرچہ چین نے بھی طالبان کے ساتھ براہ راست روابط استوار کئے ہیں اور گزشتہ دنوں طالبان کا ایک وفد بیجنگ کا دورہ بھی کر چکا ہے۔ لیکن ابھی تک مذاکرات کے حوالے سے کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ کیونکہ افغان طالبان امریکہ اور افغانستان کی حکومت پر بھروسہ نہیں کرتے۔ اور ملا اختر منصور کی پاکستانی سرزمین پر ہلاکت کے بعد پاکستان کے ساتھ اعتماد کا رشتہ بھی متاثر ہوا ہے۔ اس صورتحال میں امریکہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اور ساری ذمہ داری پاکستان پر عائد کی جا رہی ہے۔

واقعاتی صورتحال سے قطع نظر واشنگٹن میں بھارتی لابی نے بھی پاکستان کے خلاف فضا ہموار کی ہے۔ امریکہ بھی اس علاقے کی بڑی تصویر میں پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو زیادہ اہم سمجھنے لگا ہے۔ ایک ارب سے زائد آبادی کا ملک معاشی مفادات کے لحافظ سے امریکہ کے لئے اہم تھا ہی لیکن اب چین کے خلاف اقتصادی اور اسٹریٹجک محاذ بنانے میں بھارت کو فرنٹ اسٹیٹ کا درجہ دیا جا رہا ہے۔ بھارت بھی بڑھ چڑھ کر اس رول کو نمایاں کر کے امریکہ اور مغربی ممالک سے زیادہ سے زیادہ مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ بھارت میں نہ صرف سرمایہ کاری میں اضافہ کر رہا ہے بلکہ اہم سفارتی اور اسٹریٹجک شعبوں میں بھی دونوں ملک قریبی تعاون کر رہے ہیں۔ نریندر مودی کے گزشتہ دورہ امریکہ کے دوران دونوں ملک فوجی اور انٹیلی جنس معلومات کے تبادلہ پر بھی متفق ہو گئے تھے۔ اسی طرح امریکہ جوہری ٹیکنالوجی کی تجارت کرنے والے گروپ این ایس جی NSG میں بھارت کی شمولیت کے لئے سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔ جون میں چین کے ویٹو کی وجہ سے امریکہ اور بھارت اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے لیکن واشنگٹن نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اس سال کے آخر تک بھارت کو این ایس جی کا رکن بنوا لیا جائے۔ پاکستان بھی اس گروپ کی رکنیت کا اہل ہے اور اس کے لئے درخواست بھی کر چکا ہے لیکن امریکہ پاکستانی رکنیت کی حمایت کرنے سے گریز کر رہا ہے۔

بھارت مسلسل اپنی فوجی قوت میں اضافہ کر رہا ہے۔ گزشتہ برس وہ سعودی عرب کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والا ملک تھا۔ آئندہ دس برس کے لئے بھارت نے فوجی خریداری کا جو منصوبہ تیار کیا ہے، اس پر 223 ارب ڈالر صرف ہوں گے۔ بھارت اس مدت میں 500 ہیلی کاپٹر ، 220 فائٹر جیٹ اور 12 سب میرین خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ بحر ہند میں مسلسل اپنی بحری قوت میں اضافہ کر رہا ہے۔ بظاہر یہ تیاریاں چین کے توسیع پسندانہ عزائم کی روک تھام کی وجہ سے کی جا رہی ہیں لیکن پاکستان کو بحر ہند میں بھارتی قوت میں اضافہ سے براہ راست خطرہ لاحق ہے۔ اب اس سے بھی زیادہ تشویشناک خبر یہ موصول ہوئی ہے کہ امریکہ کی ایف 16 بنانے والی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن طیارہ سازی کا پورا پلانٹ بھارت منتقل کرنے کے لئے مذاکرات کا آغاز کرنے والی ہے۔ اگر یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے تو امریکہ کے علاوہ بھارت بھی ایف 16 اور اس کے اسپیئر پارٹس کی فراہمی پر کنٹرول کر سکے گا۔ پاکستان کی فضائیہ ان طیاروں کو اہم اثاثہ سمجھتی ہے۔ ان کی مرمت اور اوور ہالنگ پر بھارتی کنٹرول کی صورت میں پاکستان کے لئے شدید مشکل صورتحال پیدا ہو گی۔ مارچ میں امریکہ نے 8 ایف 16 طیارے پاکستان کو فروخت کرنے کا معاہدہ یک طرفہ طور پر منسوخ کر دیا تھا کیوں کہ امریکی کانگریس کی امور خارجہ کمیٹی نے 700 ملین ڈالر کی مجموری قیمت میں سے 430 ملین ڈالر ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

اس دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بدستور خراب ہو رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ مقبوضہ کشمیر میں برہان وانی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد وہاں آزادی کے لئے جو تحریک شروع ہوئی ہے، بھارتی سکیورٹی فورسز سات ہفتے گزرنے کے باوجود اس پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ البتہ اس کا الزام پاکستان پر عائد کر کے دنیا بھر میں پاکستان کو مطعون کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے اس ماہ کے شروع میں بھارت کو صرف کشمیر کے مسئلہ پر بات چیت کرنے کی دعوت دی تھی اور سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے اس بارے میں اپنے بھارتی ہم منصب سبرامنیم جے شنکر کو خط بھی لکھا تھا۔ لیکن بھارت نے اس موضوع پر بات کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ کل اسلام آباد کی وزارت خارجہ کو موصول ہونے والے ایک خط میں بھارت نے واضح کیا ہے کہ وہ صرف دہشتگردی اور سرحد پار سے مداخلت کے موضوع پر بات کرنے پر آمادہ ہے۔ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے بات کرنے سے انکار کے علاوہ دونوں ملکوں کے اس اتفاق رائے سے بھی انحراف کر رہا ہے کہ پاکستان و بھارت مذاکرات کے ذریعے کشمیر سمیت تمام متنازعہ امور طے کریں گے۔

کشمیر میں چلنے والی تحریک اور بھارتی فوج کے ہاتھوں 60 سے زائد کشمیریوں کی شہادت کی وجہ سے اگرچہ عالمی سطح پر پریشانی کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن بھارت اس کی ساری ذمہ داری پاکستان پر ڈال کر خود اپنے ظالمانہ اقدامات کو درست قرار دے رہا ہے۔ اس صورتحال میں اگرچہ پاکستان کے پاس جارحانہ سفارت کاری کے ذریعے بھارت پر دباؤ ڈالنے کا موقع تھا لیکن پاکستان اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس دوران ملک میں برسر اقتدار پارٹی اور اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے تصادم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ فوج اور سویلین حکومت کے تعلقات بھی بہت خوشگوار نہیں ہیں۔ حال ہی میں نئے سیکرٹری دفاع کی تقرری کے حوالے سے یہ کشیدگی اور دوری زیادہ کھل کر سامنے آئی ہے۔ یوں لگتا ہے پاکستان میں حکومت ، فوج اور اپوزیشن اپنے اپنے مقرر کردہ اہداف کے مطابق عواقب پر نظر رکھے بغیر حکمت عملی اختیار کر رہی ہے۔

ان حالات میں نہ صرف یہ کہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد میں مشکلات پیش آ رہی ہیں بلکہ خارجہ پالیسی جیسے اہم معاملہ پر مشاورت اور فیصلہ سازی کا عمل بھی متاثر ہوتا ہے۔ پاکستان خارجہ اور دفاعی لحاظ سے شدید بحرانی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ ان حالات میں متوازن اور موثر حکمت عملی اختیار کرنے کے لئے ریاست کے سب حصوں کو نہ صرف اپنا کردار ادا کرنا ہے بلکہ باہمی ربط اور اعتماد میں بھی اضافہ کرنا ہے۔ تاہم فی الوقت پاکستان بیرونی خطروں کے علاوہ اندرونی کشیدگی کے مسائل سے بھی دوچار ہے۔ اہل پاکستان اس صورتحال میں یا تو بے خبر ہیں یا تصویر کا جزوی حصہ دیکھ کر رائے بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments