آگے سمندر نہیں، وطن سے محبت ہے


\"wajahat\"1989 کا سال تھا۔ اکتوبر کا آخری ہفتہ تھا، حزب اختلاف نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا نوٹس دے دیا۔ اس موقع پر ایم کیو ایم اور اے این پی نے بھی حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی۔ جنرل ضیا الحق کے بعد منصہ شہود پر آنے والی جمہوریت کے خدوخال واضح ہو رہے تھے۔ یہ مڈ نائٹ جیکال کے دن تھے، جنرل اسلم بیگ، جنرل حمید گل، حسین حقانی اور حاجی گل شیر خان کے دن تھے۔ اسلامی جمہوری اتحاد کا ظہور تھا۔ مہران بینک والے یونس حبیب کو ہم نہیں جانتے تھے لیکن یہ معلوم ہوچکا تھا کہ ضیا کے گیارہ سال ختم ہوگئے ہیں، جمہوریت واپس نہیں آئی۔ ایک تمثیل کے سوچے سمجھے مناظر کی طرح خبریں آشکار ہوتی تھیں۔ پردہ اٹھتا تھا، حیدر آباد اور کراچی میں لاشیں گرتی تھیں۔ پنجاب میں بائیں بازو کے کارکنوں کا ایک چھوٹا سا گروہ اے این پی کا حصہ تھا۔ استاذی امتیاز عالم ہمارے رہنما تھے۔ ہم مشت خاک تھے مگر آندھی کے ساتھ تھے۔ شیزان ہوٹل میں پریس کانفرنس کر کے عوامی نیشنل پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ اس طوفان میں ہمارا جوش و جذبہ کسی کا سر دامن بھی تر نہیں کر سکتا تھا۔ مگر یہ کہ ہمارے استاد امتیاز عالم کے دل میں آگ بہت تھی اور ہم، ان کے مقتدی، جوانی کی تنک سی سچائی کے مورچے میں تلوار علم کئے رہتے تھے۔ معلوم ہوا کہ پروفیسر عزیز الدین احمد نے اے این پی چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ لاہور کا ہر سیاسی کارکن عزیز الدین احمد کو جانتا ہے۔ ضیا آمریت کی جو جھلکیاں ذہن پر ہمیشہ مرتسم رہیں گی ان میں لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں برگد کا ایک درخت تھا جس کے نیچے عزیز الدین احمد کھڑے تھے، ہاتھ میں ہتھکڑی تھی اور سگریٹ پی رہے تھے۔ پروفیسر صاحب کا قد دبتا ہوا ہے لیکن قامت بہت بلند ہے۔ ہم چند کارکن امیر علی شاعر روڈ پر پروفیسر صاحب کے گھر حاضر ہوئے۔ شکوہ کرنا تھا لیکن انداز جواب دہی کا تھا۔ عزیز الدین احمد نے سب سنا اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں صرف ایک جملہ کہا، سیاسی فیصلے جلد بازی میں نہیں کئے جاتے۔ بہت وقت گزر گیا، جنوری 2012 تھا۔ میمو گیٹ اسکینڈل تھا، ایک چھوٹے سے کمرے میں استاذی ڈاکٹر مہدی حسن اور یہ درویش دل گرفتہ بیٹھے تھے۔ ربع صدی کی بے بسی نمی بن کر پلکوں پر اتر رہی تھی، اچانک ایک صاحب کمرے میں داخل ہوئے، عالم فاضل اور تازہ اخباری اطلاعات کے عین مطابق محب وطن۔ درویش نے گردن اٹھائی اور تن کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد رخصت ہوئے تو ڈاکٹر مہدی نے لہجے میں یکایک تبدیلی کا سبب پوچھا۔ عرض کی کہ غیر جمہوری ذہن کو یہ خوشی نہیں دینا چاہتا تھا کہ ہمارے حوصلے ٹوٹ رہے ہیں۔ لیجئے اصغر گونڈوی کا ایک شعر پڑھئے۔ پھر آگے بات ہوتی ہے۔

رنج الم اٹھایا، رنگ نشاط دیکھا

آئے نہیں ہیں یونہی انداز بے حسی کے

بھائی یہ بے حسی نہیں، سیاسی شعور اسی کا نام ہے کہ جذبے کے تلاطم میں گہرے پانیوں کے فہم کا لنگر ڈالا جائے۔ 22 اگست کی شام کراچی میں ہونے والے واقعات کا دفاع مقصود نہیں۔ وطن شطرنج کا مہرہ نہیں کہ سیاست کی بساط پر اسے کسی چال کا حصہ بنایا جائے۔ گزشتہ ایک ہفتے میں کراچی کے ساحل پر کچھ نئے منظر کھلے ہیں۔ الطاف حسین اور ان کا رنگ سیاست پس منظر میں جا رہا ہے۔ ایک آوازہ یہ ہے کہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایم کیو ایم کو کچل دیا جائے۔ ایک تجویز فاروق ستار کی ہے۔

آنکھ میں پانی بھر کر لایا جا سکتا ہے

 اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے

1985 سے اب تک کے تیس برس پر ایک نظر ڈالیں۔ تب پاکستانی سیاست میں لسانی تفرقہ، مذہبی فرقہ اور جہاد متعارف کروائے گئے تھے۔ یہ ان کہی دھاندلی، کھلی سازش اور وقفے وقفے سے علانیہ زور آوری کی ثقافت تھی۔ انتقال اقتدار کی بجائے اشتراک اقتدار کی اصطلاح متعارف کروائی گئی۔ کئی برس ہم ٹرائیکا کے ترشول پر مصلوب رہے۔ قوموں کا بیانیہ بٹن دبانے سے تبدیل نہیں ہوتا۔ برادر مکرم کہا کرتے ہیں کہ یہ دس ہزار ٹن کے بحری جہاز پر مچھلی پکڑنے کی ڈور سے کانٹا ڈالنے جیسا تحمل مانگتا ہے۔ معیشت کے ابھرتے ہوئے نمونے میں یہ تصور ہی نہیں کیا جا سکتا کہ شمال میں قبائلی منطقے ریاست کی عملداری سے خالی ہوں۔ جنوب میں گیس کی تنصیبات پر حملے ہورہے ہوں اور کراچی میں ایک ٹیلی فون تقریر کر کے ہڑتال کرا دی جائے۔

گزشتہ تین دہائیوں کے دوران کراچی کی سیاست میں ایک چہرہ الطاف حسین کا ہے۔ الطاف حسین کی سیاست کا قوام تشدد، جرم اور دہشت کے اجزا سے اٹھایا گیا۔ اس کی متوازی سیاسی حقیقت اردو بولنے والے ہم وطن ہیں۔ پختون، بلوچ، سرائیکی، سندھی، اور پنجابی کی طرح اردو بولنے والے ہمارے جسد اجتماعی کا حصہ ہیں۔ یہ دسمبر 1964 نہیں کہ کراچی میں کھڑے ہوکر دھمکی دی جائے کہ \”آپ تو بھاگ کر یہاں آئے ہیں، یہاں سے کہاں جائیں گے؟ آگے سمندر ہے\”۔ پاکستان کے رہنے والوں کو سمندر میں ڈالنے کی دھمکی نہیں دی جا سکتی۔ یہ البتہ سمجھایا جا سکتا ہے کہ ملک سلامت ہو گا، جمہوریت مستحکم ہو گی اور معیشت ترقی کرے گی تو ہم سب فائدہ اٹھا سکیں گے۔ ایم کیو ایم کی سیاسی الجھن کا حل محض مائنس الطاف کا نسخہ نہیں، حقیقی حل یہی ہے کہ اہل اردو کے جائز سیاسی مفادات کو تشدد، جرم اور دہشت کے نمونے سے الگ کر کے جمہوری دھارے کا حصہ بنایا جائے۔ اردو بولنے والے ہم وطنوں کو سیاست، معیشت اور معاشرت میں برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ اہل اردو نے گولی اور بھبھکی کی سیاست کا رضاکارانہ انتخاب نہیں کیا تھا۔ ایک تعلیم یافتہ اور باشعور گروہ پر دھمکی کا جبر مسلط کیا گیا تھا۔ کراچی میں لسانی فسادات اور فرقہ وارانہ حملے ہوئے، بھتے کی ثقافت پھیلی، ناجائز قبضے کا چلن ہوا، تاوان کے لئے اغوا کئے گئے، عقوبت خانے قائم ہوئے، ماورائے عدالت قتل ہوئے۔ سبق یہ ہے کہ جمہوری ارتقا میں مداخلت کی جائے تو جرم، تشدد اور جبر جنم لیتا ہے۔ الطاف حسین کی دور فاصلاتی سیاست تین دھائیوں کی عکسی حاکمیت سے جڑی ہوئی ہے۔ صرف الطاف حسین کو مسترد کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا، درپردہ جادوگری کا کھیل ختم کرنا چاہیے۔ سیاست متنوع گروہی اور طبقاتی مفادات میں مکالمے کے ذریعے سمجھوتہ تلاش کرنے کا نام ہے۔ سیاست دو ٹوک نہیں ہوتی، انگنت پیچیدہ دھاروں میں سے ممکنہ راستہ نکالنے کا نام ہے۔ یہ کراچی میں طالع آزمائی اور اکسیری نسخے آزمانے کا نہیں، ایک تلخ باب کو ختم کر کے نیا صفحہ الٹنے کا وقت ہے۔ فاروق ستار نہایت منجھے ہوئے سیاست دان اور پارلیمنٹرین ہیں۔ وہ بدلے ہوئے حالات میں ایم کیو ایم کے سیاسی اثاثوں کو ریاست کے موقف سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اہل اردو کی سیاست کا شفاف جمہوری دھارے میں شامل ہونا ملک کے لئے نیک شگون ہو گا۔ کراچی پر کسی ایک فریق نے ظلم نہیں کیا۔ ہمارے معاشی قلب پر چاروں طرف سے یورش کی گئی۔ زیادتی سیاسی قوتوں سے بھی ہوئی ہے اور ریاست نے بھی ناانصافیاں کی ہیں۔ الطاف حسین کے ترجیحی سیاسی نمونے کو ایک بڑا دھچکا پہنچا ہے۔ اس موقع پر وسیع تر قومی اور جمہوری مفاہمت کے اشارے سے استحکام، امن اور ترقی کا راستہ کھل سکتا ہے۔ جوشیلی نعرے بازی کو مدہم کرنا چاہئے، جرم کو کٹہرے میں لانا چاہئے۔منتخب بلدیاتی قیادت کو اختیار دینا چاہئے۔ قومی قیادت کو فاروق ستار اور ان کے رفقا کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھانا چاہئے۔ فاروق ستار اور ایم کیو ایم پاکستان کو موقع دینا چاہئے کہ وہ ایم کیو ایم کے شخصی دستور کو معروف جمہوری تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکیں۔ بے شک کراچی سے آگے سمندر ہے مگر یہ نیلا سمندر پاکستان میں رہنے والوں کا ہے اور اس زمیں پر حکمرانی کا حق جمہور کا ہے اور ان فضاؤں میں ہر ممکنہ بلندی تک پہنچنا وطن کے احترام سے بندھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments