اردو بولنے والوں کا سیاسی مستقبل۔۔


\"usmanکیا اردو بولنے والے مظلوم ہیں؟ یہ سوال ہمیشہ سے میرے لیے تجسس کی ایک وجہ رہا ہے، اس سلسلے میں ٹھوس دلائل کا ایک انبار ہے تاہم عوام دلائل نہیں بلکہ شاید مشاہدات کو اہمیت دیتے ہیں

ایک اردو بولنے والے کی حیثیت سے مجھے بھی ان گنت مشاہدات ہوئے

ذوالفقارمرزا کے متنازع بیان کے بعد کراچی میں شام سے رات تک 100 سے زائد ہلاکتیں ہوگئیں، میں ان دنوں روزنامہ قومی اخبار میں سب ایڈیٹر تھا

رات ساڑھے تین بجے واپس آتے ہوئے ہو کا عالم تھا، تمام ہلاکتوں کا منظر میرے ذہن میں گھوم رہا تھا، بسوں سے اتاراتار کر لوگوں کو مارا جارہا تھا، گرومندر کے قریب مجھے کسی دوسری قومیت کا ایک مشکوک آدمی نظر آیا، مجھے لگا کہ کچھ گڑبڑ ہے

میرے پاس موٹرسائیکل تھی، میں نے رفتار تیز کردی، میرے عقب میں بھی موٹرسائیکل سوار نے رفتار تیز کردی

اس وقت سڑک پر بس ہم دونوں تھے، میں انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ ناظم آباد دونمبر تک آیا، وہاں ایم کیوایم یونٹ سے تھوڑا پہلے پارٹی کے لڑکے بیٹھے تھے، میں نے موٹرسائیکل روکی، ان کو بتایا کہ کوئی میرے پیچھے لگا ہے، ان لڑکوں نے فوراً اسلحہ نکالا، اپنی موٹرسائیکلیں اسٹارٹ کیں اور آدھے اس راستے پر چلے گئے، جہاں سے میں آیا تھا اور آدھے مجھے گھر تک چھوڑنے آئے

ایم کیوایم کے ان لڑکوں کو میں نہیں جانتا تھا، وہ مجھ سے واقف نہیں تھے، بس اردو بولنے کی ایک پہچان کے تحت انہوں نے میری مدد کی اور یقینا میں نے بھی اسی وجہ سے ان سے مدد مانگی

یہ غلط ہے یا صحیح ۔۔ اس کو بعد میں طے کیا جائے گا، ان حالات میں میرے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھا، اس وقت مجھے تحفط کا جو احساس ہوا، کوئی مانے یا نہ مانے ایم کیوایم کراچی والوں کے لیے اسی تحفظ کا ایک احساس ہے اور کراچی والوں کے پاس بھی ایم کیوایم کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے

اب بات آجاتی ہے اس خوف کی، جس سے اردو بولنے والے دوچار ہیں، یہ خوف دراصل ان خدشات کا احاطہ کرتا ہے کہ اردوبولنےوالوں کے حقوق کو غصب کیا جارہا ہے، ملک کی سیکیورٹی اسٹبلشمنٹ اردو بولنےوالوں سے نفرت کرتی ہے، نوکریوں اور تعلیم کے معاملات میں انہیں پیچھے رکھا جاتا ہے

ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ کیا یہ خوف اصلی ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ اس خوف کو ہم پرمسلط کردیا گیا ہو، کہیں ایسا تو نہیں کہ ایم کیوایم اپنی ضرورت برقرار رکھنے کے لیے اردو بولنےوالوں میں محرومی اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کرتی ہو

رینجرز اہل کار شہر قائد کے چپے چپے پر تعینات ہیں، جب جب یہ اپنی سخت گیری کے ساتھ تلاشی کا عمل کرتے ہیں تو اسے بھی اردو بولنےوالوں سے تعصب کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے، پاکستان کی کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں جسے جبر کا سامنا نہ کرنا پڑا ہوتاہم ایم کیوایم کو جب جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اسے اردو بولنےوالوں کےساتھ زیادتی قراردے دیا جاتا ہے

ابھی کچھ دنوں پہلے سندھ اسمبلی میں ایم کیوایم کے اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار سندھ پبلک سروس کمیشن آئے، انہوں نے کہا کہ اردو بولنے والے سرکاری نوکری کو پسند نہیں کرتے کہ کہیں ان کا تبادلہ کراچی سے باہر نہ ہو جائے اور اس وجہ سے اردواسپیکنگ کوٹے کی نوکریوں پر برسوں تقرریاں نہیں ہوتیں اور اگر تقرریاں ہوبھی جائیں تو کراچی کے ڈومیسائل کے ساتھ دوسری قومیتوں کے لوگ یہ نوکریاں حاصل کرلیتے ہیں، اس کی وجہ بظاہر کوئی تعصب نہیں بلکہ اردو بولنے والوں کا رجحان ہے

ابھی الطاف حسین کے بیانات کے خلاف حکومت کی جانب سے ایکشن ہوا، دو دن نہیں لگے، ایم کیوایم کا صفایا کر دیا گیا

ایم کیوایم کا اتنی آسانی سے صفایا ہونا اس بات کی بھی دلیل ہے کہ پہلے اس پارٹی کو تحفظ دیا جارہا تھا ورنہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ نظریاتی جماعتوں کا صفایا کبھی نہیں کیا جا سکا

یہ بھی ایک دلچسپ بات ہے کہ ایم کیوایم کاصفایا کرکے اردو بولنے والوں کو دوسرا آپشن بھی ایم کیوایم کی صورت میں پاک سرزمین پارٹی یا فاروق ستارگروپ کی شکل میں دیا جارہا ہےیعنی کسی کو غرض نہیں کہ اردو بولنےوالوں پر مسلط اس انجانے خوف کا خاتمہ ہو، جس کی حقیقت میں بہرحال شبہ ہے

جنرل ضیاءالحق کے دورمیں بننے والی ایم کیوایم جمہوری ادوار میں ختم ہوچکی تھی مگر پھر ایک اور آمر جنرل پرویز مشرف نے اسے طاقت ور بنادیا، اب پھر جمہوریت آئی ہے تو ایم کیوایم کاصفایا ہوگیا ہے، یہ میثاق جمہوریت کا بھی حصہ ہے کہ کوئی سیاسی جماعت آمروں کی سپورٹ کرنےوالی ایم کیوایم کا ساتھ نہیں دے گی

ایم کیوایم کے خلاف آپریشن میں انسانی حقوق کی حق تلفی عروج پر ہے، ایم کیوایم کارکنان کا لاپتہ ہونا، ان کی لاشیں ملنا اور جیلوں میں ڈال دینا سب کے سامنے ہے، ایم کیوایم کے دفاتر مسمار کرنے سے لے کر الطاف حسین کی تصاویر کو پھاڑدینے تک کے عوامل دیگر قومیتوں سے اس مشکوک خوف کو ختم نہیں کر سکتے جو تین دہائیوں تک پروان چڑھایا گیا ہےاور ابھی بھی اس خوف کا خاتمہ کرنے کے بجائے ایک فرد کو مائنس کیا جا رہا ہے، ایم کیوایم الطاف حسین کا دوسرا نام ہےاور الطاف حسین کی ذات ایم کیوایم ہے، فاروق ستار گروپ اور مصطفیٰ کمال پارٹی کو اردوبولنےوالے نہیں جانتے، صرف الطاف حسین کو مائنس کرکے اس کی طرز سیاست کو قائم رکھنا کراچی کے لیے کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہےاگر تبدیلی لانا ہے تو اس طرز سیاست کو دفن کرکے وفاقی سیاسی جماعتوں کو کراچی میں کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے

کراچی ایک وفاقی شہر ہے، یہاں چاروں صوبوں کے لوگ رہتے ہیں، یہ منی پاکستان ہے، ابھی بلدیاتی انتخابات میں اس شہر کے چھ اضلاع میں سے دوپرپیپلزپارٹی ، ایک پر مسلم لیگ نون اور تین پر ایم کیوایم کی حکومت قائم ہوئی ہے، شہرقائد میں وفاقی طرز کی سیاست کی ہمیشہ سے گنجائش رہی ہےمگر بظاہر کچھ قوتیں نہیں چاہتیں کہ اس شہر میں وفاقی طرز کی سیاست ہو

پاکستان مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کراچی میں اردو بولنےوالوں سمیت اس شہر میں آباد دیگر قومیتوں کا فطری انتخاب ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments