علماءومشائخ اور مفتیان کی احوال پرسی


\"atiqقوم کا سب سے زیادہ محترم طبقہ علماءومشائخ اور مفتیان کرام کا ہے مگر اس جماعت کا حال یہ ہے کہ اسے مسلمانوں کی موت وحیات سے کوئی واسطہ نہیں۔ قوم کا جاہل سے جاہل اور ادنیٰ سے ادنیٰ طبقہ بھی دنیا کے حالات اور مسلمانوں کی کے قومی زوالوں کی جتنی خبر رکھتا ہے اتنی بھی ہمارے دین ودنیا کے پیشواؤں کی اکثریت کومعلوم نہیں۔ دنیا میں کیا انقلابات رونما ہو رہے ہیں، مسلمانان عالم پر کیا بیت رہی ہے، کیسے ان کی نسل کشی کی جا رہی ہے، خود پاکستان میں روز بروز ان کا کیا حال ہو رہا ہے، یہ تمام باتیں اس مقدس گروہ کے نزدیک دنیا داری کی باتیں ہیں جن کا وہم کرنا بھی گناہ کبیرہ سے کم نہ ہے۔

مسلمانوں کی قومی وملکی اور ملی حالت کی فکر کرنا اور اس کے لئے لوگوں میں تحرک پیدا کرنا، علماءو مشائخ ا ورمفتیان عظام میں سے بہت سوں کے ہاں نیچریت میں داخل ہے جس پر انہی کی طرف سے تلقین شدید ہے کہ ہر متقی اور پرہیز گار شخص کو کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اس سے پناہ مانگنی چاہیئے۔ عام طور پر اس محترم ترین جماعت کا خیال عظیم یہ ہوتا ہے کہ ہمارا کام صرف دین کی خدمت ہے، اور دین کا مطلب ہے صرف نماز، روزے کے مسائل بتلا دیئے جائیں اور معیار اسلام داڑھی کو قرار دے کر باقیوں کو جہنم پہنچادیا جائے یااگر کوئی مسلمان ہو اسے باجماعت کافر کہہ کر دائرہ اسلام سے نکالنے کا عظیم کارنامہ سر انجام دیا جائے، یا شاگردوں کو چند کتابیں پڑھا دی جائیں بس اس دنیا میں اسی پر اکتفا کافی ہے۔ باقی رہی مسلمانوں کی قومی زندگی تو یہ سوچنا دنیا داری ہے، اس لئے محترم علماءومشائخ اور مفتیان عظام کا اس سے کیا واسطہ، اگر کوئی غلطی سے اس طرف آ نکلے تو وہ بھی یہ کہہ کر اپنے معتقدین کے دلوں کو تسکین دیتا نظر آتا ہے کہ اب ہماری تمہاری کوشش سے کیا ہوسکتا ہے، اب قیامت قریب ہے اور یہ سب اسی کی نشانیاں۔

قابل احترام گروہ کی زبانوں سے اکثر سنا جا تا ہے کہ دین اور دنیا کی کوئی خوبی ایسی نہیں جو قرآن شریف اور نبی کریم ﷺ میں موجود نہ ہو، واقعتا یہ حقیقت ہے مگر ان کے عمل سے لگتا یوں ہے کہ یہ محض خوش اعتقادی ہے جو رسماً زبان سے ادا کر دی جاتی ہے اور حقیقت میں نہ تو کسی کا اس پر یقین ہے اور نہ کسی میں اس کی طاقت ہے کہ وہ اسے عملاً ثابت کرکے دکھا دے۔ کچھ لوگ واقعتا سچے دل سے ایسا جانتے بھی ہیں مگر وہ بھی اس خیال باطل سے اپنے دل کو بہلا تے ہیں کہ گو قرآن اور نبی کریمﷺ کے فرمان میں سب کچھ ہے مگر اسے بڑے بڑے اماموں کی امامت اور ولیوں کی کرامت کے بغیر جانا نہیں جا سکتا اور اس کے بغیر اگر کوئی مسلمان غور کا کشٹ کرے گا تو وہ صرف قرآن اور نبی کریم ﷺ کے فرمان سے گمراہی لے گا ہدایت نہیں۔نعوذ باللہ من ذلک

استغراقی معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ یہ سب باتیں کینہ وحسد اور بغض کے پیرائے میں نہیں لکھی گئیں بلکہ اصلاح کی غرض سے کہی گئی ہیں۔ اس تحریر میں انداز مفتیاں ومشائخ میں مکروہات کی نشاندہی میںیک گونہ تشدد نمایاں نظر آئے گا۔جس کا مقصد طلب علم ونظر میں جدت کا تحرک اور عمل میں تسلسل کی ہلچل پیدا کرنا ہے اورخیال خاکسار کی جسارت یہ بھی ہے کہ برائی کا منظر نامہ جس قدر بھیانک اور مکروہ دکھایا جا سکے عین مطلوب اور اچھائی اور کا سراپا جس قدر بھی دل فریب کھینچا جا سکے عین مقصود ہوتا ہے، لہذایہاں ارباب بحث ونظر کی طرح مقیاس ومیزان کو ہاتھ میں نہیں رکھا ہے اورصرف حسن پرست دل پہلو میں ہے اگر غلو اغراق اسی حسن پرستی کا نام ہے تو اس سے نہ انکار ہے اور نہ گریز۔واللہ اعلم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments