جب ایم کیو ایم نہ ہوگی تو پھر کیا ہو گا؟


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3\"اگست 2016 میں الطاف حسین نے جب پاکستان مردہ باد کے نعرے لگوائے تو نیشنل ایکشن پلان کو ایک طرف رکھ کر حکومت نے پوری شدت سے گفتار کے اس غازی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا اور کردار کے ان غازیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جو کہ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے تھے اور کراچی کو فنڈنگ کا مرکز بنا چکے تھے۔

حکومت کو نہایت خفیہ اور غیر خفیہ ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کی بنا پر یہ یقین ہو چکا تھا کہ ایم کیو ایم بھتہ خوری، بوری بند لاشوں اور ٹارچر سیلوں کے علاوہ بھارتی ایجنسی را کے علاقائی مراکز بھی چلاتی ہے۔ اس لیے پوری شدت سے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع کر دیا گیا اور جس عمارت پر ایم کیو ایم کا جھنڈا اور جس شخص کے چہرے پر ایم کیو ایم کا سٹکر دکھائی دیتا، اسے ڈھا دیا جاتا۔ ہر طرف سے صدائیں بلند ہونے لگیں کہ مار دو، مار دو، ایم کیو ایم کو مار دو!  ایک مہینے تک ہیوی مشینری استعمال کیے جانے کے بعد ستمبر کے اواخر سے شہری سندھ سے ایم کیو ایم کا مکمل خاتمہ ہو گیا اور اس کا کوئی نام لیوا باقی نہ رہا۔ لیکن کراچی ویسا ہی باقی رہا جیسا کہ تھا۔

کراچی کے شہری بتاتے تھے کہ دو ڈھائی کروڑ کی آبادی کے شہر کراچی پر صوبائی اور وفاقی حکومت کا کنٹرول تو واجبی سا ہی تھا، اصل حکومت اور نظم و ضبط کو ایم کیو ایم ہی برقرار رکھے ہوئے تھی۔ کسی محلے میں کوئی جھگڑا ہوتا، یا کسی شہری کو تحفظ چاہیے ہوتا، تو تھانے کا رخ کرنے کی بجائے وہ ایم کیو ایم کے مقامی سیکٹر آفس کا ہی رخ کیا کرتا تھا۔ کسی سرکاری دفتر میں کام پھنسا ہوتا یا کوئی بلدیاتی مسئلہ ہوتا تو ایم کیو ایم کے ممبران اسمبلی کا در چوبیس گھنٹے کھلا ہوتا تھا۔

\"altaf\"آپ نے مشہور فلم گاڈ فادر دیکھی ہو تو آپ نے اس میں دیکھا ہو گا کہ معمولی سے نذرانے یا محض اپنے ہاتھ چومنے پر ہی گاڈ فادر ڈان ویٹو کارلیونی اپنی رعایا کے اس فرد کی خاطر پولیس اور عدلیہ سے بھی ٹکرا جایا کرتا تھا اور اس کو وہ انصاف دلاتا تھا جو کہ ریاست اسے دینے سے منکر ہوتی تھی۔۔ ایم کیو ایم کے سپورٹروں کا دعوی ہے کہ ایم کیو ایم بھی محض قربانی کی کھال کے نذرانے پر ہی عوام کو انصاف دلا دیتی تھی۔ لیکن حکومت کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم ڈان ویٹو کارلیونی کی تنظیم ہی کی طرح ایک مافیا ہے۔ بے شمار قتل و غارت اس کے کھاتے میں درج کی جاتی تھی، مگر پاکستان مردہ باد کے نعروں کے بعد ریاست نے ایم کیو ایم کا بوریا بستر گول کر دیا اور اس سے ایک ایک راکٹ لانچر، کلاشنکوف، پستول اور غلیل چھین لی گئی۔

اب اگست 2025 آ چکا ہے۔ شہر میں ایم کیو ایم کا کوئی نام لیوا باقی نہیں بچا ہے۔ سنہ 2016 کے آپریشن کے بعد کچھ عرصے یہ زندہ رہی تھی۔ فاروق ستار اور چند دوسرے لیڈروں نے اس کا معتدل چہرہ بنانے کی کوشش کی تھی مگر الطاف حسین سے علیحدگی کے بعد ووٹر نے انہیں مسترد کر دیا اور وہ مایوس ہو کر ملک چھوڑ گئے۔ اس کے چند سال بعد الطاف حسین بھی ان شدید طبی مسائل کے ہاتھوں جان ہار گئے جن سے وہ ایک طویل عرصے سے نبرد آزما تھے اور یوں ایم کیو ایم کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔

\"al-qaeda-taliban-terrorist-militant-karachi\"

اگست 2016 کے آپریشن کے بعد جب ایم کیو ایم کا عسکری ونگ ختم ہوا تو اس کی جگہ لینے کو شہر میں دوسرے گروہ آ گئے۔ کچھ جگہ پر تھنڈر سکواڈ گرجے تو کچھ جگہوں پر امن کمیٹیوں نے دہشت کا راج قائم کر دیا۔ لیکن شہر کا بیشتر علاقہ اب وزیرستان کے جنگجووں کے قبضے میں جا چکا ہے۔ محض ایک پرچی پر وہ لوگ بھی کروڑوں روپے ہنسی خوشی ادا کر دیتے ہیں جو کہ چند ہزار کا ٹیکس دیا کرتے ہیں۔ قربانی کی کھالیں بھی مذہبی شدت پسند تنظیموں کے حصے میں جا رہی ہیں۔ ہر خوشی غمی کے موقعہ پر وہ مٹھائی کھانے یا دعا کرنے آ جاتے ہیں اور اپنا نذرانہ پاتے ہیں۔ پولیس ابھی بھی جان بچاتی پھرتی ہے۔ لیکن غضب تو یہ ہوا ہے کہ وزیرستانی تنظیموں نے طاقت پکڑنے کے بعد سب سے پہلے رینجرز کو نشانہ بنایا ہے جس سے اب وہ خود کو ہی بچاتے پھرتے ہیں۔ دوسری طرف کراچی پر قبضے کے لیے تحریک طالبان اور داعش کے درمیان ایک شدید جنگ چھڑ چکی ہے اور گلی کوچے اچانک گولیوں سے گونجنے لگتے ہیں۔

کراچی کے شہری اب ویسے ہی محبت و حسرت سے ایم کیو ایم کے دور کو یاد کرتے ہیں جیسا کہ لیبیا کے شہری معمر قذافی اور عراق کے شہری صدام حسین کے بہترین دور کو یاد کیا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کاش حکومت نے صرف ایم کیو ایم کو ٹارگیٹ کرنے کی بجائے لاقانونیت کو ٹارگیٹ کیا ہوتا جس سے شہر پر سرکار کی حکومت قائم ہوتی، گروہوں اور جماعتوں کی نہیں۔


اسی سلسلے سے

اب وہ کہتے ہیں کہ ”راہنما نہیں، منزل چاہیے“۔۔۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments