میں‌ نے مریضوں‌ سے کیا سیکھا؟


\"lubnaنئے ڈاکٹر اور پرانے ڈاکٹر میں‌ کیا فرق ہوتا ہے؟ جب نئے ٹریننگ سے نکلتے ہیں تو سر میں‌ بہت ساری انفارمیشن ہوتی ہے، نمبر، اسٹیٹسٹکس، سائنس وغیرہ۔ وقت کے ساتھ کافی انفارمیشن دھندلی ہوجاتی ہے اور اس کی جگہ کہانیاں، اصلی مریض اور تجربے لے لیتے ہیں۔

جب نارمن ہسپتال میں‌ کام کرنا شروع کیا تو ایک ویک اینڈ پر میں‌ کال پر تھی۔ ہسپتال سے فون آیا کہ فلاں‌ مریضہ کو دیکھ لیں۔ چھٹی والے دن مجھے جانا بالکل اچھا نہیں‌ لگا لیکن کیا کرسکتے ہیں، بیماری چھٹی دیکھ کر چھٹی نہیں‌ کرتی۔ ایک خاتون تھیں، ان کو فریکچر کے بعد ہسپتال میں‌ داخل کیا گیا تھا۔ ان کی زندگی کی کہانی کافی دلچسپ تھی کہ کس طرح‌ پچوٹری کے ٹیومر کی وجہ سے ان کے اپنے بچے نہیں ہوسکتے تھے تو انہوں‌ نے تین بچے گود لیے۔ ایک وہاں‌ پر تھا بھی اپنے بچے کے ساتھ۔ وہ بڑا ہوکر قانون دان بن گیا تھا۔ ان سے مل کر مجھے بہت اچھا لگا۔ بہرحال انہیں‌ میں‌ نے یہی بتایا کہ ہڈیاں بھربھری ہیں‌ اور ان کو ڈسچارج ہونے کے بعد دوا باقاعدگی سے لینی چاہئیے تاکہ دوبارہ فریکچر ہونے سے بچا جا سکے۔ نمبر جاننے کے لحاظ سے مجھے معلوم تھا کہ کولہے کی ہڈی کا فریکچر ہونے کے بعد 50 سال سے زیادہ عمر کے افراد میں‌ موت کا چانس 20% ہے لیکن اس کا مطلب کیا ہے وہ اس کو دیکھنے کے بعد اچھی طرح‌ سمجھ آتا ہے۔

پیر والے دن میں‌ اپنے آفس میں‌ کام کررہی تھی تو میرے پارٹنر ڈاکٹر فیم نے آکر دروازہ بجایا۔ انہوں‌ نے کہا کہ آپ نے کسی مریضہ کو ویک اینڈ پر دیکھا تھا، آج میں‌ کال پر ہوں، ابھی ابھی فون آیا کہ وہ مر گئی ہیں۔

خون کو پتلا کرنے والی دوا پر ہونے کے باوجود فریکچر کی وجہ سے لیٹے رہنے سے ٹانگ میں ‌بلڈ کلاٹ بن گیا اور پھیپھڑوں‌ کی نالیوں‌ میں‌ جا کر اٹک گیا، ساری مشینیں‌ اور دوائیں‌ ہونے کے باوجود کچھ ہو نہیں ‌سکا۔

اوسٹیوپوروسس، ذیابیطس، بلڈ پریشر وغیرہ خاص طور پر شروع کی سطوحات میں‌ دکھائی نہیں‌ دیتے، ان کو سوچنا پڑتا ہے۔ اینڈوکرنالوجی سنجیدہ بیماریوں‌ اور ان کی پیچیدگیوں‌ کا نہ صرف علاج کرنے بلکہ ان کو ہونے سے پہلے روکنے کے بارے میں ہے۔ بری خبر دینا کسی بھی ڈاکٹر کی جاب کا سب سے مشکل حصہ ہے۔ جو بھی میڈیکل اسٹوڈنٹس ہیں‌ ان کو کتاب \”ہاؤ ٹو بریک بیڈ نیوز\” ضرور پڑھنی چاہئیے تاکہ انسانی ہمدردی کے ساتھ مریضوں‌ کو واضح طور پر انکی بیماری، اس کے علاج اور متوقع نتائج سے آگاہ کیا جاسکے۔ آپ کو ذیابیطس ہے، یہ دوا لیں ورنہ آپ کو یہ اور یہ پیچیدگیاں‌ ہوں ‌گی، آپ کو پچوٹری میں‌ ٹیومر ہے اس کو نیوروسرجن ناک کے راستے سے سرجری سے نکالے گا، آپ کی اووری فیل ہوچکی ہیں اب آپ کے بچے نہیں‌ ہوسکتے یا زخم بہت گہرا ہے اب پیر کاٹنا پڑے گا، یہ سب کچھ بتانا ہوتا ہے اور وہ بھی کئی بار تاکہ ابتدائی صدمے کے بعد مریض کو بات سمجھ آجائے۔

مریضوں‌ نے یہ سکھایا کہ ہم چاہیں‌ یا نہیں‌ لیکن سینا چیر کر آپریشن کرانے کا حوصلہ کرنا پڑتا ہے۔ انہوں‌ نے سکھایا کہ مشکل وقت میں‌ بھی ہنسا جا سکتا ہے۔ ایک خاتون کا ہارٹ کا کیتھ ہو رہا تھا۔ کارڈیالوجسٹ نے ان کو کنسنٹ فارم دیا کہ اس پر سائن کردیں‌ تو وہ کہتی ہیں، اگر یہ شادی کا فارم ہے تو میں‌ اس پر سائن کرنے سے انکار کرتی ہوں۔ اتنے ٹینشن کے لمحے میں‌ بھی ان میں‌ حس مزاح ‌باقی تھی۔

تالی دونوں‌ ہاتھوں‌ سے بجتی ہے۔ معلومات اور مشورہ صرف دیا جاسکتا ہے لیکن اس پر عمل درآمد کرنا مریض کے اپنے ہاتھ میں‌ ہوتا ہے۔ ہر ڈاکٹر کے کچھ مریض مشکل ہوتے ہیں جو کچھ نہیں‌ سنتے اور اس بارے میں‌ اپنا خون جلا کر کچھ نہیں‌ کیا جا سکتا۔ ان مریضوں‌ نے مجھے اپنی حدود بھی سکھائیں اور برداشت کا حوصلہ بھی دیا۔ انگریزی زبان میں‌ ایک کہاوت ہے کہ آپ صرف گھوڑے کو نہر کے کنارے تک ہی لاسکتے ہیں، اس کو پانی پینے پر مجبور نہیں‌ کرسکتے۔

دو طرح‌ کے مریضوں‌ کا خیال کرنا نہایت مشکل کام ہے۔ ایک وہ جو بالکل سیدھے سادے ہوں، پڑھے لکھے نہ ہوں اور ہر چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوں۔ دوسرے وہ مریض جنہوں‌ نے پی ایچ ڈی کررکھی ہو اور ہر بات کی بال کی اتنی کھال اتاریں کہ اوور انالسس کی بھول بھلیوں‌ میں‌ گم ہی ہوجائیں اور باہر نکل ہی نہ پائیں۔ ان لوگوں‌ کو دیکھ کر سو پاؤں‌ والے کیڑے کی کہانی یاد آتی ہے جس سے کسی نے پوچھا کہ تم کیسے فیصلہ کرتے ہو کہ پہلے کون سا پیر آگے کرنا ہے تو وہ اس بات کی سوچ میں‌ اتنا فکر مند ہوا کہ مفلوج ہو گیا۔

ہر انسان دوسرے انسان سے کافی مختلف سوچتا ہے۔ اور ان کی سوچ اور سمجھ کا تعلق نہ صرف ان کی معلومات پر منحصر ہے بلکہ ان کے پس منظر اور انفرادی حالات پر بھی۔ اس بات کا اندازہ مجھے روزانہ مریضوں‌سے بات چیت سے ہوتا ہے۔ ایک خاتون واپس آئیں‌ تو میں‌ نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ اپنی دوا اسپائرونولیکٹون چہرے پر بال زیادہ اگنے کے لئیے باقاعدگی سے لے رہی ہیں؟ تو انہوں‌ نے کہا نہیں‌ میرے شوہر کو دل فیل ہونے کی وجہ سے یہی دوا اس کے کارڈیالوجسٹ نے لکھ کر دی تو میں‌ نے اسے لینا بند کردیا۔ وہ سمجھ رہی تھیں‌ کہ اس دوا سے شائد ان کا دل بھی فیل ہوجائے گا۔ میں‌ نے ان سے کہا کہ ایک دوا کئی مختلف بیماریوں‌ میں‌دی جا سکتی ہے۔ مثلاً پروپرانولول آپ مائگرین سے بچاؤ کے لئیے، ہائپر تھائرائڈ میں، بلڈ پریشر یا دل کی رفتار تیز ہونے میں‌ یا پھر اسٹیج فرائٹ کے لئیے دے سکتے ہیں۔ یہ سن کر ان کو بات سمجھ آگئی اور انہوں‌ نے پھر سے اپنی دوا لینا شروع کردی۔

جب میں‌نے نارمن میں‌ جاب کرنا شروع کی تو انسولین کے لئیے ایک اسٹینڈنگ آرڈر بنایا جس میں‌ مناسب دواؤں کے نام کے گرد دائرہ بنا کر مریضوں‌کو دیتی کہ آپ یہ لیں‌ اور اس طرح‌ ڈوز بڑھائیں‌ یا گھٹائیں۔ یہ سسٹم کچھ عرصہ تک چلا لیکن وہ فیل ہوگیا۔ کیونکہ مجھے یہ پتا چلا کہ ایک ہی ہدایات ہر کوئی مختلف طرح‌ سے پڑھتا ہے۔ اس لئیے اب ہر مریض کے لئیے علیحدہ ان کی سمجھ کے مطابق ہدایات لکھتے ہیں تو اس کے نتائج کچھ بہتر ہوگئے۔ مثلاً اس میں‌ لکھا تھاکہ سونے سے پہلے یہ دوا لیں تو ایسا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ رات میں‌ یہ دوا لینی ہے لیکن ایک خاتون کا سونے کا شیڈول ہر روز مختلف تھا اور جب تک وہ سونے نہ جارہی ہوں دوا نہیں لیتی تھیں۔ اس لئیے کبھی انہوں نے شام چار بجے دوا کھائی اور کبھی رات کو دو بچے۔ ان کی شوگر کبھی زیادہ اور کبھی کم ہوجاتی کیونکہ دوا کا شیڈول بگڑا ہوا تھا۔ ان کو یہ بتانا زیادہ مناسب تھا کہ اتنے بجے روزانہ یہ دوا لیں۔

دنیا کے بھانت بھانت کے ملکوں‌ کے مریضوں‌ سے بات کرکے ان کی زندگی کے بارے میں‌ اور ان کے شعبوں‌ کے بارے میں‌ سیکھنے کا موقع ملا۔ کافی سارے اچھے دوست بھی بن گئے۔ ایک صاحب سائنس کی ہسٹری کے پروفیسر تھے انہوں‌ نے گیلیلیو کے بارے میں‌ پھیلی ہوئی کئی کہانیوں‌کے بارے میں‌ بتایا کہ وہ بعد میں‌ گھڑی ہوئی ہیں۔ ایک کیتھولک پریسٹ تھے۔ جس دن ان کی اپوائنٹمنٹ تھی اسی دن وہ نیلسن منڈیلا پر لیکچر دے کر آرہے تھے تو میں‌ نے ان سے کہا کہ اپنا لیکچر مجھے ای میل کردیں کیونکہ میں‌ دیکھنا چاہ رہی تھی کہ وہ کیا اور کیسے پڑھاتے ہیں اور نیلسن منڈیلا کے بارے میں‌ کیا بتایا؟

ایک صاحب نئے مریض تھے، میں‌ نے پوچھا آپ کہاں‌ رہتے ہیں‌ اور کیا کرتے ہیں تو یہ بولتے ہیں‌ میں ‌وہ آدمی ہوں ‌جس کو ہر کوئی گالی دیتا ہے۔ یہ سن کر میں‌ چونک گئی، وہ کیوں؟ تو کہنے لگے میں‌ ایک ٹرک ڈرائیور ہوں اور میں‌ نے پچھلے تیس سال سارے ملک میں‌ ٹرک چلایا، سامان ٹرانسپورٹ کیا اور اپنی فیملی کو سپورٹ کیا۔ سڑک پر باقی لوگ ہمیں‌ بری نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کو پتا نہیں‌ چلتا کہ ٹرک ایکدم سے آہستہ نہیں‌ کیا جاسکتا اور وہ عجیب و غریب طریقے سے ہمارے گرد ڈرائیونگ کرتے ہیں۔ پھر بتانے لگے کہ ایک چھوٹی سی گاڑی والا بے قابو ہوگیا اور میرے ٹرک نے اس کو ٹکر ماری اور جب تک فل بریک لگی گاڑی پچک گئی تھی۔ اس کو دیکھ کر مجھے سکتا ہوگیا۔ پولیس والا مجھ سے پوچھتا ہے کہ تم کیسا محسوس کر رہے ہو تو میں‌ نے کہا کہ ایسا جیسے میں‌ نے کسی کو قتل کردیا ہو۔ وہ آدمی بچ گیا تھا لیکن میں‌ چھ مہینے ٹرک نہیں‌ چلا سکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments