انکل جوش کی لائبریری


گزشتہ رات طبیعت خراب تھی۔ گلے میں تکلیف تھی، بخار ہوا اور آنکھوں میں درد۔ صبح کو ڈاکٹر کے پاس گیا۔ اُس نے بخار کی دوا تو دی لیکن کہا کہ آنکھوں کے درد کا علاج آنکھوں کا ڈاکٹر کرے گا۔
آئی اسپیشلسٹ نے کہا، ’’تمھاری آنکھیں خشک ہیں۔ تھوڑی بہت نہیں، بے حساب خشک۔ میاں، کیا پتھر دل ہو؟ اِس قوم کا حال دیکھ کر رونا نہیں آتا؟ کبھی جھوٹ موٹ ہی رولیا کرو۔‘‘
پھر اُس نے مصنوعی آنسوؤں کا نسخہ لکھ کے میرے ہاتھ میں دیا اور چلایا، ’’نیکسٹ پلیز!‘‘
میں واپسی میں ٹریفک جام میں پھنس کر قوم کے حال پر روتا جارہا تھا کہ ایک کتابوں کا ٹھیلا نظر آیا۔
جیسے ہمارے پیارے عثمان بھائی جس شہر میں قیام کرتے ہیں، اُس کے تمام فائیو اسٹار ریسٹورنٹس اور نہاری، حلیم، کڑاہی اور ماش کی دال کے لیے مشہور ڈھابوں اور مزے دار چاٹ کی دکانوں اور کچا گُلا، بالوشاہی اور گاجر کے حلوے والی مٹھائی کی دکانوں اور لسی اور گنے کے شربت کے ٹھیلوں کا سراغ لگالیتے ہیں، ویسے ہی میں نے کم از کم کراچی میں انگریزی، اردو، نصابی، غیر نصابی، نئی اور پرانی کتابوں کی بیش تر فروش گاہوں کا پتا لگالیا ہے۔
چناں چہ ایک نئے مقام پر کتابوں کے ٹھیلے کو دیکھ کر میں بے قرار ہوگیا اور پھنسے ہوئے ٹریفک میں دو درجن گالیوں، چار درجن کوسنوں اور چھ درجن فحش اشاروں کو نظر انداز کرکے گاڑی ٹھیلے کے قریب لے گیا۔
ٹھیلے والے کو کتابوں کی بھی پہچان تھی اور کتابیں خریدنے والے کی بھی۔ اُس نے مجھے دیکھتے ہی دانت نکوسے جس سے اندازہ ہوا کہ میں کسی اور مقام پر اُس سے کچھ کتابیں خرید چکا ہوں۔

میں وہی سسپنس اور ریڈرز ڈائجسٹ اور نسیم حجازی اور عمیرہ احمد کے ناول دیکھ کر بدمزہ ہوا تو اُس نے کئی کتابیں اٹھائیں اور ہٹائیں، پھر ایک نسخہ مجھے پیش کیا۔ یہ جوش صاحب کی آپ بیتی یادوں کی برات کا تیسرا یا چوتھا ایڈیشن تھا اور اُس پر 1977 کی تاریخ درج تھی۔
مجھے انکل یاد آگئے اور میں وہیں کھڑا کھڑا پچیس سال پیچھے پہنچ گیا۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں انچولی میں رہتا تھا۔ انکل کی لائبریری دوسرے بلاک میں کرکٹ کے میدان کے سامنے تھی۔ مجھے وہ لائبریری بچپن کے دوست زاہد نے دکھائی تھی۔ اُس لائبریری کی خاص بات یہ تھی وہ رات کے 9 بجے کھلتی تھی اور ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد بند ہوجاتی تھی۔ پہلی بار کس وقت پہنچا، یاد نہیں۔ اُس کے بعد برسوں وہ لائبریری روزانہ میری آنکھوں کے سامنے کھلی۔
انکل دن میں اپنا بزنس چلاتے تھے۔ انھیں پیسوں کی کوئی کمی نہ تھی۔ وہ رات کو صرف کتابوں اور کتابیں پڑھنے والوں سے محبت کی وجہ سے لائبریری کھول کر بیٹھ جاتے تھے۔
وہ لائبریری کیا تھی، ایک دُکنیا تھی۔ چھوٹی سی دکان جسے کوئی انجان آدمی دیکھتا تو کباڑ خانہ قرار دیتا۔ لائبریریوں میں کتابیں سلیقے سے سجائی جاتی ہیں۔ اُن کے شیلف اور ریک ہوتے ہیں۔ اُن کے کیٹلاگ بنائے جاتے ہیں۔ انکل کی لائبریری میں کتابیں ایک دوسرے کے اوپر فرش سے چھت تک ٹھنسی رہتی تھیں۔ وہاں صرف ایک اسٹول تھا جس پر انکل براجمان رہتے تھے۔ ایک چھوٹی سی بینچ تھی تو لیکن اُس پر کتابیں جمی رہتی تھیں۔ لوگ آتے اور انکل سے کسی رسالے، کسی کتاب کی فرمائش کرتے۔ انکل دیکھے بغیر کبھی دایاں ہاتھ کتابوں میں گھساتے، کبھی بائیں ہاتھ کو پھیلاتے اور مطلوبہ شے شاید خود اچھل کے اُن کے قابو میں آجاتی۔ اُن کی یادداشت مجھے حیران کردیتی تھی۔
اشتیاق احمد، ابنِ صفی، جیمز ہیڈلے چیز، کارٹر براؤن، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، واجدہ تبسم، قرۃ العین حیدر، جوش ملیح آبادی۔
جی ہاں۔ میں اِسی ترتیب سے اِن لوگوں سے واقف ہوا۔ جوش صاحب کی یادوں کی برات پہلی بار انکل ہی سے لے کر پڑھی۔ ایک عجیب بات بتاؤں۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا لیکن انکل کی لائبریری کے ممبرز تصدیق کریں گے کہ انکل کی صورت جوش صاحب سے بہت ملتی تھی۔ یادوں کی برات پر بنی شبیہہ دیکھ کر مجھے پہلا خیال یہی آیا تھا کہ یہ انکل کی آپ بیتی ہے۔

کبھی کبھی یوں ہوتا کہ کوئی رسالہ مجھے پسند آجاتا تھا۔ مثلاً اخبارِ وطن۔ کبھی کوئی کتاب بہت اچھی لگتی تھی۔ مثلاً منٹو کی گنجے فرشتے۔ میں وہ رکھ لیتا اور انکل کو کرائے کے بجائے قیمت ادا کردیتا تھا۔ انکل دوسری کتاب منگوالیتے تھے۔
لیکن مجھے یاد ہے، یادوں کی برات دیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا، ’’یہ کتاب پڑھ کر واپس ضرور کرنا۔ یہ پہلا ایڈیشن ہے، دوبارہ نہیں ملے گا۔ سنا ہے کہ بعد کے ایڈیشنوں میں کچھ کمی بیشی کی گئی ہے۔ مجھے یہی کتاب واپس چاہیے۔‘‘
میں نے چند دن میں یادوں کی برات پڑھ ڈالی۔ پھر اپنے لیے بازار سے نیا ایڈیشن خرید لایا۔ یہ 90 یا 91 کی بات ہے۔ لیکن اُس پر لکھا تھا، مئی 1975 تیسرا ایڈیشن۔ میرا خیال ہے کہ یہ کتاب کئی بار چھپ چکی تھی لیکن شاید پرانی فلموں کی وجہ سے ہر بار اُس پر تیسرا ایڈیشن لکھا رہ جاتا ہے۔
تو جناب آج ٹھیلے پر جو ایڈیشن نظر آیا، اُس پر لکھا تھا، 1977 اور وہ لگ بھی اتنا ہی پرانا رہا تھا۔ میں نے اُس کے ورق پلٹ کر دیکھے اور واپس رکھ دیا۔ ٹھیلے والا میری مایوسی بھانپ گیا۔ اب اُس نے ایک اور کتاب برآمد کی۔ یہ کسی لائبریری کی کتاب تھی کیونکہ اُس کی جلد مضبوط بندھی ہوئی تھی۔
میں نے بے زاری سے اُسے کھولا لیکن پھر اچھل پڑا۔ یادوں کی برات۔ کتابت اظہر عباس جعفری۔ طابع مشہور آفسٹ پریس کراچی۔ اشاعت 1970۔
میں نے اِن چوبیس پچیس برسوں میں کیا کیا جمع کیا؟ جوش ملیح آبادی کے مرثیے از علامہ ضمیر اختر نقوی، عرفانیاتِ جوش از ڈاکٹر ہلال نقوی، جوش کے انقلابی مرثیے از ڈاکٹر ہلال نقوی، جوش کے خطوط، ہمارے جوش صاحب از خورشید حسن خان، شعلہ و شبنم سال اشاعت 1936، محراب و مضراب، سموم و صبا، عرش و فرش اور یادوں کی برات کے گم شدہ اوراق از ڈاکٹر ہلال نقوی۔
یادوں کی برات کا پہلا ایڈیشن مجھے مل گیا۔ گم شدہ اوراق کی اشاعت سے یہ دائرہ مکمل ہوا۔
آخر میں ایک بار پھر انکل کا ذکر۔ میں برسوں اُن سے کتابیں لے کر پڑھتا رہا۔ ملازمت شروع کی تو لائبریری جانا چھوٹ گیا۔ اخبار کی نوکری سورج چُھپنے کے بعد شروع ہوتی ہے۔ انکل کی لائبریری دن میں نہیں کھلتی تھی۔ چھٹی والے دن کبھی جاتا، کبھی نہ جاتا۔ پھر جیو نے دبئی بھیج دیا۔ چار پانچ سال بعد واپسی ہوئی تو انکل کو بھول چکا تھا۔
آج یادوں کی برات کا پہلا ایڈیشن لے کر رات ٹھیک 9 بجے اُسی کرکٹ کے میدان کے دروازے پر جا کھڑا ہوگیا۔ ساڑھے 9 تک لائبریری نہیں کھلی۔ انکل کا گھر قریب تھا۔ میں نے دیکھا ہوا تھا۔ وہاں جاکر دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک ادھیڑ عمر، بلکہ سچ کہوں؟ میری عمر کا آدمی باہر نکلا۔
’’انکل سے ملنا ہے۔‘‘
’’انکل کا انتقال ہوئے زمانہ ہوا۔ کتنے سال بعد آئے ہو بھائی؟‘‘
’’اُن کی کتابیں کیا ہوئیں؟‘‘
’’ابا کے انتقال کے بعد تین ماہ لائبریری بند رہی۔ دکان کا کرایہ چڑھ گیا۔ ایک کباڑیے کو کتابیں بیچ کر کرایہ چکایا۔ خدا حافظ!‘‘

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments