دجالی میڈیا کا خاتمہ کرو، سچ چھاپو


\"wisi-baba\"

صاحب کے ساتھ ہم نے نہ کرنے والی کر دی تھی۔ کارنامہ سرانجام دے کر مکمل اطمینان کے ساتھ سوئے تھے۔ یہ تو پتہ تھا کہ اب صاحب ہمیشہ کے لئے ٹھیک ہو جائیں گے۔ انتظام بھی پورا کیا تھا کہ ان کی ایسی مناسب سی لتریشن ہو کہ وہ دنیا داری سیکھ جائیں۔ یہ امید ہر گز نہ تھی چند گھنٹوں میں ہی وہ اپنی بلے بلے کرانے سے لتریشن کرانے تک کے تمام مراحل کامیابی سے طے کر لیں گے۔

آدھی رات کو فون آیا سنا تو صاحب نے ایک روندو سی چیک (چیخ) ماری او مینوں بچا لا۔

پتہ تو تھا کہ کیا ہوا ہو گا اس لئے نہیں پوچھا۔ آپ کو بتاتا ہوں صاحب ہمارے دوست ہیں۔ دن رات ہمیں حق سچ بیان کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ انہیں ہزار بار سمجھایا تھا کہ میڈیا سے ہمارا کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے۔ لیکن وہ سمجھ کر بھی نہیں سمجھتے تھے۔ ہمیں اور ہمارے دوستوں سے کہا کرتے کہ تمہارا دجالی میڈیا سچ نہیں لکھتا ہے۔ پورا سچ لکھا کرو۔

صاحب کو بتاتے تھے کہ سچ اہم ہے دنیا داری بھی کرنی ہوتی ہے۔ ہر سچ نہیں بولا جاتا۔ سچ کو بھی بیان کرنے کے طریقے ہوتے ہیں۔ صاحب نعرہ لگاتا کہ بھاڑ میں گئی دنیا داری سچ اور صرف سچ۔ ہم دوست بہت عجیب الخلقت سا محسوس کرتے خود کو۔ صاحب کو دنیا داری سکھانے کا فیصلہ کیا۔

ہم لوگ ان سے عاجز بھی تو آ چکے تھے۔ تنگ آ کر باقاعدہ بری نیت رکھ کر انہیں مشورہ دیا کہ دجالی میڈیا کا خاتمہ کرنے کے لیے اپنا اخبار شروع کریں، لوگ آپ کا سچ دیکھ کر دجالی میڈیا کو چھوڑ دیں گے۔ صاحب نے مالی مشکلات کا زکر کیا سٹاٖف کا رونا رویا۔ انہیں کہا صاحب سیدھی بات ہے اگر کام کرنا ہو تو راستے نکل آتے ہیں۔ نہ کرنے کے بہانے ہزار۔ صاحب بولے کہ میں راضی تم مجھے راستہ نکال کر دکھاؤ۔

صاحب کو بولا تمھارے اتنے بڑا شہرہے ، یہ بڑا شہر اصل میں ایک چوک ہے جہاں دو ڈھائی سو دکانیں ہیں،اس شہر میں کیا کوئی تمھیں سو روپیہ دے سکتا ہے۔ صاحب نے فوری کہا بہت لوگ دے سکتے ہیں۔ اس نے ایک دکاندار کا بتایا کہ اس سے لے سو روپیہ۔ جو حق سچ تم نے بیان کرنا ہے اس کو خبر کی صورت لکھ ۔ پرنٹ آؤٹ لے فوٹو کاپیاں کرا مفت تقسیم کر دے۔ بیس روپئے میں اخبار چھپ کر تقسیم ہو جائے گا۔ اسی روپئے تمھیں منافع ہو گا سچ کا بول بالا ہو جائے گا تمھارے شہر میں۔

بھائی صاحب نے ترنت اپنے ایک چوھدری صاحب کے کردہ گناہوں کے ایک انتخاب کی خبر بنائی۔ اس کا پرنٹ آؤٹ لیا دکاندار دوست سے پانچ سو روپے اپنے اخبار میں اس کی دکان کی مشہوری کے لئے۔ اس کی فوٹو کاپیاں کرا کے تقسیم کرائیں۔ اپنے بڑے شہر میں جو صرف ایک چوک پر مشتمل تھا وہاں صاحب اور اس کے اخبار کو وائرل ہونے میں بھلا کتنی دیر لگتی۔ دکاندار تک صاحب کے بیان کردہ حق سچ کی کاپی بھی جلدی پہنچ گئی ۔

وہ خبر دیکھ کر اوپر اپنی دکان کا بڑا بڑا نام دیکھ کر سمجھ گیا۔ چوھدری صاحب اب یہی سمجھیں گے کہ دکاندار نے پیسے دے کر ان کے خلاف یہ شر پھیلایا ہے۔ یہ چوھدری صاحب ہیں بھی زیادہ ہارس پاور کے چوھدری۔ ہتھ چلاکی دھول دھپہ ڈانگ سوٹا یہ سب ان کے شوق ہیں۔ دکاندار تو سمجھ گیا کہ اب کیا ہونی ہے اس کے ساتھ۔ اس نے ہمت کی سارے شہر میں دوڑتا پھرا ۔ قسمت نے جلدی یاوری کی صاحب اس کوبس سٹاپ کے پاس قلفیاں کھاتے مل گیا ۔ وہیں لٹا کر صاحب کو یہ کہتے ہوئے داد دی کہ چوھدری کے ہاتھوں مرنے سے پہلے تمھیں مار کر مروں گا تو ہی اگلے جہان میں سکھ سے رہوں گا۔

لوگوں نے صاحب کو اس کی اشتہاری پارٹی سے چھڑا کر سائیکل پر اس کے پنڈ دوڑا دیا۔ شاید یہ سوچ کر اپنے پنڈ جا کر مرے یا جان بچا سکتا تو بچا لے ۔ صاحب کے پنڈ کے راستے میں بھی کئی چھوٹے بڑے پنڈ تھے۔ وہاں صاحب کے اخبار کی ایک آدھ کاپی پہنچ چکی تھی۔ پنڈ والے باجماعت اخبار پڑھ رہے ہوتے تھے یا اس پر بات کر رہے ہوتے تھے۔ اسی دوران صاحب سائیکل پر اڑتا ہوا ان کے پاس سے گزرتا۔ ان پنڈوں میں چوھدری صاحب کے جو مداح تھے وہ بھاگتے صاحب کی جتنی خدمت کر سکتے کر گزرتے۔ کسی نے گوبر مارا کسی نے کتے چھوڑے ، جس طرح ممکن تھا صاحب کو اس کی کاوش کی داد دی۔ پر صاحب مشرف سے بڑا کمانڈو ہے، نکل ہی گیا ۔

صاحب گھر والوں سے پٹنے کے بعد ایک امرود کے درخت پر چھپ کے اب روداد سنا رہا تھا۔ صاحب بولا یار میں چھ سات گھنٹوں میں تین بار پٹ چکا ہوں۔ دکاندار نے چوھدری صاحب کے پیر پکڑ کر معافی مانگ لی ہے، بک گیا تاجر پیشہ انسان۔ اب چوھدری صاحب اس کو لے کر میرے پنڈ پہنچے ہوئے ہیں۔ مجھے بتا کہ کیا اب میں دنیا داری اتنی جلدی سیکھ سکتا ہوں جتنی جلدی میں میڈیا کی ساری انڈسٹری سمجھ گیا ہوں۔

وسی بابا ہرگز ظالم نہیں ہے ۔ صاحب سے یہ کہہ کر فون بند کر دیا کہ جلدی کیا ہے۔ دنیا داری بھی سیکھ جائے گا۔ تمھارے اخبار کی دوسری کاپی چھپنے کا ٹائم نکلتا جا رہا پہلے اس کا کچھ کر۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments