بچوں کو جلد سو جانے کی عادت ہوتی ہے


خاتون اور صاحب کے مراسم تھے، محبت کا دعوی تھا۔ خاتون امید سے ہو گئیں، اولاد کو جنم دیا اور جھاڑیوں میں پھینک گئیں۔ ڈرائیور نے پولیس کو اطلاع دی، خاتون تھانے میں بیٹھی رو رہی ہیں کہ مجھے جانے دیں، صاحب آل اولاد والے ہیں، آزاد گھوم رہے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحبہ بچے کو نہلا دھلا کر ، کپڑوں اور دودھ کا بندوبست کرنے کے بعد دفتر میں بیٹھی ہیں، یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ غصے میں ہیں یا دکھ کا شکار ہیں، سننے والے حرام کی اولاد کہہ رہے ہیں ، شریکِ جرم کو گالیاں پڑ رہی ہیں۔ اس داستان کو سننے کے بعد سے مجھے ایدھی کا جھولا یاد آ رہا ہے اور بری طرح یاد آ رہا ہے۔

آپ چاہے ایدھی پہ یہ الزام لگائیں کہ وہ ان تعلقات کو فروغ دے رہے تھے یا حرام کی اولاد پال رہے تھے، حقیقت یہ ہے کہ وہ اس اولاد کو اپنا رہے تھے جنہیں اس دنیا میں لانے کے ذمہ دار لوگ پہلی فرصت میں ٹھکرا دیتے ہیں۔ لیکن ایک منٹ رک جائیں کہ اس میں صرف وہی اولاد شامل نہیں جس پہ یہ معاشرہ ناجائز کا ٹھپہ لگا رہا ہے، چوتھی پانچویں بیٹی ہو، شریکِ حیات کے انتقال پر اولاد کی ذمہ داری سے فرار ہو گئی ہو، ان سب بچوں کو بھی ٹھکرایا جاتا ہے اور پھر ان کے لئے آخری امید اس انسان کا جھولا تھا جس نے انہیں سائباں فراہم کیا۔

یہ کسی ایک ہسپتال کی نہیں، ہر ہسپتال کی کہانی ہے، کسی ایک علاقے کا نہیں، ہر علاقے کا مسئلہ ہے اور ہم بس ناجائز اولاد کا ٹھپہ لگا کر فارغ ہو جاتے ہیں۔ جھاڑیوں میں پھینک دیا، کوڑے کے ڈھیر پہ پھینک دیں، گلا دبا کر مار دیں، آخر اپنا نہیں سکتے تو آپ پیدا ہی کیوں کر رہے ہیں؟ آپ کو محبت کا شوق چڑھا ہے، شوق سے پورا کریں، لیکن کوئی مناسب حفاظتی طریقہ کار ہی اختیار فرما لیں۔ منصوبہ بندی سے تو یہاں ایسے کوسوں دور بھاگتے ہیں جیسے اس سے بڑھ کر گناہ کوئی نہیں ہے۔ چھ سات اولادوں کا ڈھیر لگا دیں، خیر ہے۔ جیسے ہی اس خاتون کو منصوبہ بندی کا مشورہ دیں وہ آپ کے سر ہو جائے گی کہ میرے میاں کہتے ہیں یہ حرام ہے۔ جب یہ ڈھیر دس کا ہندسہ عبور کر لے تو آئیں گی کہ بچے بڑے ہو گئے ہیں شرم آتی ہے ایسے میں ایک اور اولاد پیدا کرتے تو آپ کچھ ایسا کریں کہ اسے ضائع کر دیں۔ یہاں ڈاکٹر پھر مشکل میں ہے، اسقاطِ حمل کی طرف جائیں تو کوئی بھی گردن پکڑ سکتا ہے کہ یہ خلاف قانون ہے، آپ کو یہ حق کس نے دیا؟ انکار کر دیں تو خاتون کسی دائی کے پاس تشریف لے جائیں گی اور ہفتے بعد انفیکشنز کا شکار ہو کر انتہائی بری حالت میں ہسپتال پہنچیں گی اور یہاں صلاحیتوں کا امتحان ہو گا کہ چلو اب مریض کی جان بچاؤ تو مانیں، ورنہ ایک خبر ہی ہے، چلوا دیں گے کہ ڈاکٹر کی مبینہ غفلت سے مریض جاں بحق۔

شعور کی پسماندگی ہو تو معلومات کی فراہمی بھی حالات کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔منصوبہ بندی کے تمام تر طریقوں کی ہر ممکن تشہیر اور سہولیات کی فراہمی کے ساتھ اس موضوع پہ بات کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ اگر تعلق جوڑنے کی خواہش رکھتے ہیں تو پھر پہلے ہی کچھ ایسا طریقہ استعمال کر لیں کہ اس نوبت تک بات نہ پہنچے، اور اگر آپ اولاد کو اس دنیا میں لانے کے ذمے دار ہیں تو پھر مہربانی فرمائیں اس اولاد کو اپنانے کا حوصلہ بھی رکھیں۔۔اور پھر ایسی اولاد کا کیا مستقبل ہے اس معاشرے میں جہاں پیدا کرنے والا بھی اپنانے کو تیار نہ ہو؟ وہ بچہ ساری زندگی کسی ایسے جرم کی سزا کیوں بھگتے جو اس نے کیا ہی نہیں، آخر احساسِ ذمہ داری کے بغیر محبت کا دعوی جرم ہی تو ہے۔

یہاں یہ بحث کرنے سے فائدہ نہیں کہ اس سب کی اجازت مذہب میں نہیں یا یہ تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہے۔ یہ زمینی حقائق ہیں، یہ سب ہو رہا ہے، تو بہتر ہے کہ اسے تسلیم کریں۔ ورنہ آپ خود تو کسی احساسِ جرم کا شکار رہیں یا نہ رہیں لیکن وہ لوگ جو ایسے بچوں کو جھاڑیوں یا کوڑے کے ڈھیر سے اٹھاتے ہیں اور ان کی نگہداشت کے انتظامات کرتے ہیں انہیں آپ لاکھ بےحس کہیں لیکن ایسی صورت میں جو ان کے دلوں پہ گزرتی ہے یہ صرف وہی جانتے ہیں آخر وہ ایسے بھی بےحس نہیں ہوتے۔ اور وہ بچے۔۔۔ خیر بچوں کو جلد سو جانے کی عادت ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments