فیمینزم کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے جائیں


\"roshمشرقی معاشروں نے ترقی یافتہ قوموں سے بہت سے نظریات لیے ہیں۔ انہیں نہ صرف اپنایا ہے بلکہ ان کی اہمیت کو بھی محسوس کیا ہے۔ مثلاً جمہوریت، مزدوروں کے حقوق، بچوں کے حقوق، بنیادی انسانی حقوق وغیرہ مگر بات جب خواتین کے حقوق کی باری آتی ہے اور فیمینزم کا نام لیا جاتا ہے تو بڑے پڑھے لکھے اور دانشور لوگ بھی اس کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ لوگ بھی جو اپنے آپ کو روشن خیال اور لبرل کہتے ہیں اس تحریک کو عورتوں کی بے جا آزادی سے منسوب کرتے ہیں۔ لہٰذا بہت ضروری ہے کہ اس بات کو سمجھا جائے کہ فیمینزم کیا ہے، کس بلا کا نام ہے، اس کی تعریف کیا ہے اور اس میں ایسا کیا ہے کہ اس کا نام سنتے ہی لوگ چوکنے ہو جاتے ہیں۔

انیس ہارون کا کہنا ہے کہ’ ہمارے ہاں آج کل اکثریت خواتین کے حقوق کی بات کرتی نظر آتی ہے جب ان سے کہا جائے کہ آپ فیمینسٹ ہیں تو وہ انکار کر دیتے ہیں‘۔ غالباً اس کی وجہ وہ خیال ہے جو ذہنوں میں راسخ ہو چکا ہے جس کے مطابق ایک فیمینسٹ وہ ہوتا یا ہوتی ہے جو خواتین کی بے لگام آزادی کے حق میں ہو یا ایسی خواتین مراد لی جاتی ہیں جو اپنا گھر تو تباہ کرتی ہی ہیں اور ساتھ ساتھ دوسری عورتوں کو اکسا کر ان کا گھر بھی پھونک دیتی ہیں حالانکہ یہ ہر گز حقیقت نہیں ہے۔

ہمارے جیسے ترقی پذیر معاشروں میں عورتوں کی جدوجہد ابھی ابتدائی مراحل میں ہے انہیں تعلیم کے لیے، مرضی کا پیشہ اختیار کرنے کے لیے، پسند کی شادی کے لیے اور بطور انسان برابر کے حقوق مانگنے کے لیے بھی کڑی منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایسے سماجوں میں جہاں کاری، ونی اور سوارہ جیسی رسمیں ہوں، قران سے نکاح پڑھا دیا جاتا ہو، غیرت کے نام پر قتل کیے جاتے ہوں اور پورا معاشرہ ایسے لوگوں کو سپورٹ کرتا ہو وہاں حقوق کی آواز بلند کرنا آسان کام نہیں۔

فیمینزم دراصل اسی نسائی شعور کی بیداری کا نام ہے۔ وہ شعور جو عورت کے بحیثیت انسان کمتر درجے کو رد کرتا ہے، پدر سری نظام کو بدلنے کی خواہش کرتا ہے اور ایک غیر استحصالی معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے۔

اس میں مرد اور عورت کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ بہت سے مرد بھی بہت بڑے فیمینسٹ رہے ہیں۔ کیا ہم منٹو کو فیمینسٹ نہیں کہیں گے! اگر اردو ادب کی تاریخ کو ہی دیکھیں تو مولانا الطاف حسین حالی پہلے فیمینسٹ دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے اپنے وقت میں خواتین خصوصاً بیوائوں کی حالت زار کا مشاہدہ کیا اور ’ چپ کی داد اور مناجاتِ بیوہ ‘ جیسی نظمیں لکھیں۔ سر سید کے ساتھیوں نے کسی حد تک اس سلسلے میں شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ یہ اور بات ہے کہ ایک بلیک اینڈ وائٹ نظریہ پیش کیا گیا اور اکبری یا اصغری بننے کے علاوہ تیسرا کوئی راستہ نہیں چھوڑا گیا۔

حقیقت یہی ہے کہ صرف زبان سے خواتین کے حقوق کا نام لینے سے آپ فیمینسٹ نہیں بن جاتے بلکہ ضروری ہے کہ اس سلسلے میں اپنی حد تک ایک فعال کردار ادا کیا جائے۔ عورتوں کی سماجی حیثیت میں بہتری لائی جائے اور اگر آپ یہ سب کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم جو لوگ یہ ہمت کر رہے ہیں ان کے رستے میں روڑے نہ اٹکائے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments