دس تصویریں نہیں، صرف ایک تصویر


\"Rashidمیرے پاس دس تصویریں نہیں مگر ایک تصویر اس ملک کی ہے جس کے ساتھ میری نسل کا مستقبل جڑا ہوا ہے۔ اس تصویر کے حقیقی رنگ کسی نے چرائے ہیں اور پھر مفلسی، ظلم اور اقربا پروری کے رنگ بھر دیئے ہیں۔ اس تصویر مین ایک بڑا سا سیاہ رنگ کا دھبا ہے جس کے نیچے باقی رنگ معدوم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ میں اس کی سیاہی میں اتنا فرق ہی دیکھ سکتا ہوں کہ یہ بدلتے بدلتے گہرا سرمئی تو بن جاتا ہے مگر پھر سیاہ کالا ہو جا تا ہے۔ یہی نشان حکمران ہے میری اس تصویر کا، ہم آمریت اور جمہوریت کے اتنے پکے راگ سننے کو بالکل تیار نہیں اور مجھے پتہ ہے کہ \”ہم\” کے صیغے کے پتہ نہیں کس کس طرح مطلب تراشیں جائیں گے مگر یہ ان کا حق ہے۔ رہا مسئلہ یہ کہ جمہوریت کے دفاع والے ہوں یا آمریت کو پکارنے والے، انہیں اس ناچیز کا پیغام موصول ہو کہ \”آپ کے فلسفے کی ہم نے بہت بڑی قیمت ادا کی ہے۔ آپ کی چاپلوس زبانوں اور دلربا داستانوں کے مزے ہم نے ڈھیر لوٹے ہیں۔ ہمیں خدارا اب اپنی اس تنقید اعلیٰ سے بچائیے آپ کی اصطلاحاتی اور واقعاتی بحث کی جیت ہم بلا مقابلہ آپ کے نام کرتے ہیں۔ ہم آمر اور نام نہاد جمہوریت پسندوں دونوں فریقین کی فہم و فراست کے قائل ہیں ہم مانتے ہیں کہ آپ کی سوچ اور آپ کے تجزیوں کی دنیا معترف ہے لیکں براہ مہربانی ہم مغلوں کے دربار سے نکلنا چاہتے ہیں۔ ہم محمود غزنوی کی فوج سے بھی ڈرے ہوئے ہیں، ہم عوام دوستی کے نعروں سے اپنی سماعتیں کھو چکے ہیں۔ ہم خون کی ہولی سے عاجز آگئے ہیں۔ ہم نے ان سیاہ اور سرخ رنگوں کی چمک سے اپنے آپ کو اندھا کر لیا ہے۔ یہ سرخ رنگ اضافی ہے جو میری نسل کے لوگوں کے نا حق خون کی علامت ہے۔ ہمیں ان وکالتی لہجوں سے بھی رخصتی چاہئے ہمارے ذہن میں آپ کچھ عرصہ \”الجھن\” سی رہنے دیں کیونکہ یہ کشمکش اور اضطراب سے آگے سوچ کا در وا ہوتا ہے۔ ہمیں اس سوچنے کے راستے سے مت بھٹکائیں۔ ہم آپ کو شکریئے کے ساتھ یہ دس تصویریں لو ٹانے کی رسم تو ادا نہیں کر سکتے مگر ہم ان موازنوں کی ٹھوکروں کے بھی متحمل نہیں ہیں۔ ہمیں تقسیم کار نہیں چاہئے خیر ہے ہم اپنی دانش اور اپنے تجربے سے کچھ اخذ کر لیں گے اگر تاریخ کو جاننا ہوا تو ہم تلاش کریں گے۔

اگر حکمرانوں کی تصویریں دیکھ کر ہم نے موازنے کرنے ہیں تو چلیں ایک سادہ سی تصویر بناتے ہیں۔ اس ملک کی بڑی آبادی اسلامی افکار کی دعویدار ہے۔ حضرت محمدﷺ کے نام لیوا ہیں۔ ان کی ذات پہ درود و سلام بھیجتے ہیں۔ ہمارے ہاں حکمران ٹولہ جو اصطلاحاتی طور پہ کبھی آمر بن جاتا ہے اور کبھی جمہوری کہلاتا ہے۔ یا تو ان ہستیوں کا نام لینا چھوڑ دے یا پھر دیکھے کہ ان کا سلوک لوگوں کے ساتھ کیا تھا۔ یہ جب عدل کی مثالیں دیتے ہیں اور حکمت کا اظہار کرتے ہیں تو آپﷺ کے اصحاب اور آل کے معاملات کو دیکھیں کہ انہوں نے کون سے ایسے اصول اپنائے جس بنا پہ لوگوں نے نہ صرف اس نقطئہ نظر سے اتفاق کیا بلکہ اپنی جان و مال کی قربانیاں دینے پہ آمادہ تھے۔ خدا کا پیغام تو اب بھی وہی ہے، اس میں تو قیامت تک بدل نہیں ہو سکتا۔ حکمران کے پاس عدل کا پیمانہ اور اس کی تشریح اپنی اصل روح کے ساتھ موجود ہے۔ اگر یورپی ممالک کے سربراہ اتنے متاثر کن قدامات کے حامل نہیں ہیں تو ان کی مثالیں نہیں قبول کرتے مگر صاحب یہ محکوم بیس کروڑ تو اپنے فاضل حکمران قائدین اور جمہوریت و آمریت کے علمبرداروں کے نقش قسم پہ چلتے ہوئے یورپ پہنچ جاتے ہیں اور اس کو مثالی معاشرت سمجھنے کی وجہ ان حکمرانوں کی مغربی دلچسپی ہے کیونکہ ان کے رہنما سارے کے سارے اپنی بریکیں یورپی ملکوں میں لگاتے ہیں۔ چاہے وہ خاندانی سیر و تفریح ہو یا پھر سرکاری صحت کے دورے ان کی منزل اکثر مغربی ممالک خصوصا برطانیہ ہی قرار پائی ہے۔

\"photo\"دوسرے ممالک کے سربراہان اگر شاندار معیار زندگی کے تحت زندہ ہیں تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس بات کو کسی طور بھی یہ جواز نہیں بنایا جا سکتا کہ ہمارے بالادست جمہور پسند یا با اختیار آمریت پسند ایسی پروقار شاہانہ انداز زندگی کے لیئے آزاد ہیں۔ عوامی نمائندے کا مطلب کیا سادہ زبان میں یہ نہیں ہے \” وہ منتخب لوگ جو عوامی حقوق کے حصول میں ان کی نمائندگی کریں، ان کے مسائل کو اپنی آواز دیں اور مزید یہ کہ ان کے حل کے لیئے قانونی راستہ تلاش کریں\”۔ جس جمہوری شان کے ساتھ یہ خدمت میں مصروف ہیں اس کی حقیقت یہ ہے کہ ہر دور میں محکمانہ بے ضابطگیوں کو نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ انہیں اتنا کھلم کھلا استعمال کیا گیا کہ جس کی حد نہیں۔ ان عوامی ہمدردوں کو اس ملک کے اداروں کی بس اتنی مضبوطی سے مطلب ہے کہ ان سب کی باریاں لگی رہیں تا کہ کاروباری مواقع اور عالمگیر شہرت ان کے مقدر کا مستقل حصہ بنی رہے۔ یہ \”لولی لنگڑی\” جمہوریت کو عام آدمی کی تقدیر بنانے کی تلقین کا بیڑہ تو صدیوں سے حلقہء یاراں نے اٹھا رکھا ہے یہ تاریخ زبان کو قلم کی سہولت ملنے سے پہلے بھی کافی پرانی ہو چکی تھی یہ تو سقراط کے زمانے میں اسے بھی ایسی ہی تلقین پیش کی گئی۔ اور یہ فریضہ بڑے تواتر سے سرانجام دیا گیا۔ اس طرح کی کاوشیں ان کے لئے آکسیجن کا کام کرتی ہیں۔ یہ مطمئن رہتے ہیں کہ عوام اگر براہ راست الو نہ بھی بن رہے ہوں تو کوئی سریلا نغمہ انہین اتنا محو کرے گا کہ وہ اپنے رستے زخم کی ہر ٹیس کو رفع ہوتے محسوس کریں گے۔مگر حقیقت یہی ہے کہ قدرت نے احتساب کا اپنا نطام تشکیل دے رکھا ہیے اور ان محکوم انسانوں کی مظلومیت کا خاتمہ یقینی ہے اور یہ قدرت کا عہد بھی ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ ظالم اپنے انجام سے بے خبر ہی رہیں گے۔

(ہر اس شخص سے معذرت جس نے اس اختلاف رائے کو محض ایک وار سے تشبیہ دی )

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments