دو عورتوں اور چار لاکھ روپے کی کہانی


\"husnain

یہ کہانی لکشمی اگروال کی کہانی ہے۔ لکشمی کتابوں کی ایک دکان میں کچھ خریداری کر رہی تھی، باہر نکلی تو اس پر ایک لڑکے نے تیزاب پھینک دیا اور وہ لڑکا اس کے بھائی کا دوست تھا۔ لکشمی کو لگا جیسے اس کے چہرے پر کوئی انتہائی ٹھنڈی گیس پھینک دی گئی ہے جو اسے برے طریقے سے جلا رہی ہے، وہ وہیں سڑک پر گر پڑی اور بہت برے طریقے سے لوٹ پوٹ ہونے لگی، تکلیف ناقابل برداشت تھی، کسی بھی طرح درد ختم نہیں ہو رہا تھا، یہ تکلیف تمام عمر کے کرب میں بدلنے والی تھی۔ دو ماہ وہ ہسپتال میں رہی جہاں اس کے بہت طویل آپریشن ہوئے، اس کا منہ، ناک، گردن سب کچھ برے طریقے سے پگھل چکا تھا، حالت اس قدر تکلیف دہ تھی کہ اگلے چار برس میں اسے نو آپریشن کروانے پڑے۔

الوک ڈکشٹ سے لکشمی کی ملاقات 2013 میں ہوئی۔ وہ اس وقت اٹھائیس سال کا تھا اور ایک تنظیم چلاتا تھا جس کا نام سٹاپ ایسڈ اٹیکس ہے۔ یہ تنظیم تیزاب سے جھلسنے والوں کی مدد کرتی ہے اور پورے ہندوستان کی سطح پر کام کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ الوک نے اسے اپنے ادارے میں کام کرنے کی پیشکش کی اور یوں وہ دونوں کئی ماہ اکٹھے کام کرتے رہے۔ لکشمی کو لگتا تھا کہ الوک بہت اچھا انسان ہے، پھر اچھا دوست لگنے لگا، پھر اچانک احساس ہوا کہ وہ باقاعدہ الوک کو پسند کرتی ہے۔ لیکن تیزاب سے جھلسنے کے بعد کسی نارمل انسان سے محبت کی توقع رکھنا اس کے لیے ناممکن تھا، اس کا چہرہ خوفناک حد تک بگڑ چکا تھا۔

\"lakshmi-1\"وقت گزرتا گیا اور الوک نے اسے ایک دن یہ کہہ کر حیران کر دیا کہ وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ وہ لکشمی کی ہمت اور جذبے سے بہت متاثر تھا، اسے لکشمی انتھک لگتی تھی، کبھی ہار نہ ماننے والی۔ انہوں نے بہت جلد شادی کر لی۔

اب ایک نیا مسئلہ تھا۔ لکشمی کا ذہن کبھی یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتا تھا کہ وہ ایک نارمل بچے کو جنم دے سکتی ہے، اس کا خیال تھا کہ اس کا بچہ بھی کٹی پھٹی شکل کا مالک ہو گا۔ کبھی یہ سوچ آتی تو کبھی وہ یہ سوچتی کہ وہ اپنے بچے کو اپنے چہرے کے بارے میں کیا بتائے گی، ننھا سا بچہ کیسے سمجھ پائے گا کہ اس کی ماں کا چہرہ دوسرے انسانوں جیسا کیوں نہیں ہے۔ کہیں وہ اپنی ماں سے خوف زدہ ہی نہ رہنے لگے، یا شاید اپنی ماں سے وہ رشتہ قائم ہی نہ کر سکے جو پیار کا رشتہ دوسرے بچے اپنی ماؤں سے رکھتے ہیں۔

یہ سب سوچتے سوچتے دوپہریں شاموں کا روپ دھار لیتیں اور راتیں دن میں بدل جاتیں لیکن کوئی حل سمجھ نہ آتا، آ بھی نہیں سکتا تھا۔ پھر پیہو پیدا ہوئی۔ اگلے سال اپریل میں پیہو کا جنم ہوا جو الوک اور لکشمی کی بیٹی تھی۔ دونوں مسئلے حل ہو گئے۔ ایک تو یہ کہ پیہو بہت خوب صورت بچی تھی اور دوسرا یہ کہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہی لکشمی نے سوچ لیا کہ وہ مناسب وقت پر پیہو کو تمام کہانی سنا دے گی اور اس کی بیٹی یقیناً اپنی ماں سے ہمیشہ پیار ہی کرے گی چاہے اس کی شکل جیسی بھی ہو۔

\"lakshmi-2\"

تو اس کہانی کا انجام ابھی تک تو ایسا اچھا ہو گیا، خدا آگے بھی اچھا رکھے، سوال یہ ہے کہ تیزاب گردی کا شکار ہونے والی آخر جائیں کہاں۔ آج تک، اپنی پوری زندگی میں صرف ایک لڑکی لکشمی ہی کی خبر پڑھی کہ وہ خوش ہے اور پرجوش ہے، تو وہ خبر الگ قصہ تھا۔ پاکستان میں نذیراں کے ساتھ کیا ہوا، ڈان میں چھپا یہ واقعہ دیکھیے۔

جنوبی پنجاب کے علاقے بہاولپور میں پیدا ہونے والی نذیراں بی بی کو تیرہ سال کی عمر میں شادی کے لیے فروخت کر دیا گیا تھا۔ شوہر کے انتقال کے بعد دو کم سن بچیوں کی کفالت نذیراں بی بی پر آن پڑی تھی۔ نذیراں کے سسرال نے اسے اپنے دوسرے بیٹے سے شادی پر مجبور کیا جو پہلے ہی شادی شدہ تھا۔ اس کی پہلی بیوی کو اس شادی پر بہت زیادہ غصہ تھا۔

\’وہ میری توہین کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی تھی اور مجھے دھمکاتی تھی کہ وہ مجھ پر تیزاب پھینک دے گی، مجھے برباد کر دے گی، شادی کے تین مہینے بعد ایک رات جب میں سو رہی تھی،اس نے میرے چہرے، گردن، سینے، پیٹ اور اور بائین بازو پر تیزاب پھینک دیا\’۔

اس واقعہ میں چھبیس سالہ نذیراں بی بی اپنی بینائی سے محروم ہو گئی اور ساتھ ہی اس کا چہرہ بھی مسخ ہوگیا۔ اس کے شوہر نے اپنی پہلی بیوی کو عدالت میں مرکزی ملزم نامزد کرنے سے انکار کر دیا جبکہ سسرال والے اور خود اس کا اپنا بھائی عدالت سے باہر معاملے کو سلجھانے پر زور دیتے رہے، جس کے بعد نذیراں مجبور ہو گئی۔

نذیراں نے کہا کہ \’وہ ایسا نہیں چاہتی تھی لیکن اس کی ایک اور بہن بھی اس کے سسرال میں شادہ شدہ تھی اور اس کے سسرال والوں نے بہن کی ذندگی بھی خراب کرنے کی دھمکی دی تھی، لہذا اپنی ذندگی برباد ہونے کے بعد وہ اپنی بہن کی ذندگی بچانا چاہتی تھی، مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ اصل مجرم کو کبھی سزا نہیں ملے گی لہذا میں نے اس مقدمے کو زیادہ طول نہیں دیا۔ میں نے چار لاکھ روپے لیے اور ایک پلاٹ خرید کر اس پر ایک کریانے کی دکان کھول لی\’۔

آج نذیراں اپنی بیٹیوں کو سکول بھیجتی ہے اور اپنے شوہر کے ساتھ بھی رابطے میں ہے، نذیراں کہتی ہے، \’اگر میں دیکھ سکتی تو اپنے شوہر سے تعلق ہی نہ رکھتی لیکن میری بچیوں کو باپ کی ضرورت ہے اور گھر میں ایک آدمی کا آنا جانا ہونا چاہیے، میرے نذدیک مجرم کے لیے سب سے بہترین سزا یہی ہے کہ اس پر بھی تیزاب پھینکا جائے\’۔

تیزاب پھینکنے والو
تم تک ہدایت پہنچے
خدا تمہارے نشانے یا تو خطا کر دے
یا بالکل ٹھیک رکھے
دکان دار تمہیں تھوڑا سا زیادہ تیزاب عطا کر دیں
یا بالکل مت دیں
وقت تمہیں موقع دے
یا تم ایسا کام کرنے سے پہلے مر جاؤ
کچھ بھی ہو
تم جس پر بھی تیزاب پھینکو
یا تو وہ پوری مر جائے
یا وہ پوری بچ جائے
یا خدا اگر مناسب سمجھے
تو وہ سسک کر زندہ رہنے والی زندگی تمہیں عطا کر دے
اور ان لڑکیوں کو صاف چہرے دوبارہ لگا دے
جن کو تم نہ زندہ چھوڑتے ہو
اور نہ ہی پورا مارتے ہو
خدا تو قادر ہے
کاش وہ تمہیں پیدا ہوتے ہی موت نصیب کر دے
یا ان بچیوں کو مردہ پیدا کرے
کہ جن کے نصیب اس قدر بھیانک ہیں
خدا ایسا نہیں کرتا
چار لاکھ روپے کا جرمانہ بھرو
آسمان اور زمین پر کھل کھیلتے رہو
تیزاب پھینکنے والو
تم تک ہدایت پہنچے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments