گنگا جمنا تہذیب اور سندھ کی دھرتی


\"zeffer05\"جب ہم کہتے ہیں، کہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق فیصلہ کیا جائے کہ وہ پاکستان، ہندستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، یا وہ الگ وطن کی بات کرتے ہیں؛ تو یہ مطالبہ ایسا ہی ہے، جیسے ہند کی تقسیم عمل میں آئی؛ پاکستان نامی ملک معرض وجود میں آیا۔ اسی طرح اگر کوئی سیاسی جماعت سمجھتی ہے کہ اس کے حامی الگ صوبے کے خواہش مند ہیں تو عوام کے ووٹ کے ذریعے اپنی حمایت حاصل کر سکتی ہے۔ یہ تو ٹھہرا اصول۔

اس مطالبے تک آتے آتے جن کھٹنائیوں سے گزرنا پڑتا ہے، وہ سہے بغیر اصول محض کتابوں کی زینت ہوتے ہیں۔

گزشتہ دِنوں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے \’پاکستان مردہ باد\’ کا نعرہ لگایا؛ ماضی میں وہ پاکستان کے لیے کیا کچھ کہتے رہے، اسے بھول جاتے ہیں؛ حالیہ بیان ہی میں انھوں نے پاکستان کو ایک ناسور کہا۔ ایک محب وطن پاکستانی کے لیے یہ تکلیف دہ صورت احوال تھی؛ ایم کیو ایم کے قائد ایک سیاسی جماعت ہی کے سربراہ نہیں ہیں، بلکہ مہاجر کہلانے والی اکثریت کی نمایندگی کرتے ہیں؛ انھوں نے اپنے بیان سے کیا حاصل کِیا، یہ وہ جانیں، لیکن مہاجر طبقے کو رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مہاجروں کا ایک حلقہ وہ بھی ہے، جسے ایم کیو ایم کا ہم درد نہیں کہا جاتا، وہ بھی شرم سار ہوا۔ لسانی سیاست کا یہ نتیجہ تو نکلتا ہے۔

ایم کیو ایم کے حامی طبقے نے الطاف حسین کے بیان کی حمایت کچھ یوں بھی کی کہ \’مہاجر\’ کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے۔۔ ایم کیو ایم اسی شکوے کو لے کر بنی تھی؛ اس کے بعد دیکھیے، تو معلوم ہوتا ہے، کہ جب سے ایم کیو ایم بنی ہر حکومت کا حصہ رہی؛ وہ مہاجر جو ایم کیو ایم کے ووٹر ہیں، انھیں اپنے قائدین سے یہ سوال ضرور کرنا چاہیے، کہ مڈل کلاس طبقے کی نمایندگی کرنے والے، مڈل کلاس امیدوار۔۔۔ اپر کلاس میں تو چلے گئے، لیکن انھوں نے اپنے ووٹر کو کیا دیا؟ پلٹ کے یہ کہہ دینا، کہ کسی دوسری قوم نے ان کا حق مارا، سراسر ظلم ہو گا۔

آئین پاکستان میں ایسی کوئی شق نہیں، جس کے تحت \’مہاجر\’ کسی سرکاری عہدے کا اہل نہیں؛ حالانکہ مسلم اور غیر مسلم کی تخصیص ہے۔ اب شواہد دیکھیے تو وہ یہ کہتے ہیں، کہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے آج تک کئی نمایاں عہدوں پہ مہاجر ہی براجمان رہے ہیں؛ کس کس کا نام گنوایا جاے، کہ ایک طویل فہرست ہے۔ دو مہاجر چیف آف آرمی اسٹاف نے تو ملک پہ مارشل لا تک لگایا۔ موجودہ صدر مملکت جناب ممنون حسین بھی مہاجر ہی ہیں۔ فوج ہو، یا کرکٹ بورڈ؛ کہاں مہاجر نہیں؟

یہ بھی دل چسپ بات ہے، کہ اسے \’مہاجر\’ تسلیم نہیں کیا جاتا، جس نے گنگا جمنا تہذیب سے وادی سندھ کی تہذیب میں ہجرت نہ کی ہو۔ اس لیے کشمیری، اور پنجابی مہاجر، ان کی نظر میں مہاجر نہ ہوئے۔ واقعہ یوں ہے، کہ گنگا جمنا تہذیب نے انڈس ویلی سولائزیشن میں ضم ہونے سے انکار کر دیا۔ اب کیا ہو؟ اگر مہاجر کہتے ہیں، کہ ان کی تہذیب الگ ہے، انھیں الگ صوبہ دیا جاے، حتیٰ کہ ملک۔۔۔ تو اوپر ایک اصول بیان کیا ہے۔ راے عامہ کا حصول۔ کیا عوام ایسا چاہتے ہیں؟۔۔۔ لیکن ٹھیرئیے؛ یہاں ایک اڑچن ہے۔۔۔ کشمیری تہذیب کے وارث اپنی دھرتی پہ اپنا راج چاہتے ہیں؛ گنگا جمنا تہذیب کے ورثا، گنگا جمنا میں الگ وطن، یا صوبے کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ وادی سندھ کی تقسیم چاہیں گے۔ یہ ایسی ہی مثال ہے، جیسی کہ کشمیری مہاجر سیال کوٹ، گجراں والا، وزیر آباد کو پنجاب سے الگ کر کے کشمیری صوبہ یا وطن بنانے کا مطالبہ کریں۔ کہیں کہ یہاں‌ ان کی اکثریت ہے۔۔۔ مہاجر کو ایسا مطالبہ کر کے ریاست سے بھی پہلے کس کی مخالفت کا سامنا ہوگا؟۔۔۔ سندھی کی مخالفت کا۔

پاکستان مردہ باد کہنے والا مہاجر؛ پاکستان مردہ باد کہنے والے بلوچی سے بڑی مشکل میں گھِر جائے گا۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments