اب وہ کہتے ہیں کہ ”راہنما نہیں، منزل چاہیے“۔۔۔


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3\"اگر آج تسلیم فاضلی زندہ ہوتے تو فاروق ستار صاحب کے بیانات پر ایم کیو ایم کی پوری تاریخ کو بیان کر دینے والا ان کا تبصرہ کچھ یوں ہوتا :۔

رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے
پہلے جاں ، پھر جانِ جاں ، پھر جانِ جاناں ہو گئے

دن بدن گھٹنے لگیں اُس حسن کی رعنائیاں
پہلے بھائی ، پھر بانی، پھر صاحب ہو گئے

ایم کیو ایم کی تاریخ ناکام ”اشاراتی تقسیم“ سے عبارت رہی ہے۔ کبھی اس سے حقیقی ابھری اور کبھی پاک سر زمین۔ لیکن یہ مصنوعی تقسیمیں تھیں۔ ان منحرفین کو کبھی کراچی والوں نے سند قبولیت نہیں بخشی۔ جب بھی ان کو ووٹ ڈالنے کے لیے پکارا گیا تو انہوں نے ہمیشہ یہی نعرہ لگایا کہ ”منزل نہیں، راہنما چاہیے“ اور بلا کھٹکے الطاف پر ٹھپہ لگا دیا۔ حلقہ 246 کا گزشتہ ضمنی انتخاب بھی آپ کو یاد ہو گا جب الطاف حسین کی ایک گستاخانہ تقریر کے بعد ایم کیو ایم پر سختی کی نگاہ ہوئی تھی اور بغیر کسی خاص انتخابی مہم کے بھی الطاف حسین اپنے مخالفین کو عبرت کا نشان بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ پاکستانی ووٹر کسی کو غدار کہنے پر بھی اسے وطن کے لیے اچھا ہی جانتا ہے۔ فاطمہ جناح، عوامی لیگ، نیپ، پیپلز پارٹی وغیرہ سے لے کر ایم کیو ایم تک کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ووٹر اور حکومت کے مفاد میں فرق ہوتا ہے۔

\"farooq-sattar-2\"

لیکن ایم کیو ایم کی تاریخ میں کبھی بھی نائن زیرو نے قائد سے بغاوت نہیں کی تھی۔ فاروق ستار کے بارے میں دو باتیں کہی جا رہی ہیں۔ پہلی یہ کہ وہ الطاف حسین کی پے در پے تقریروں کے بعد اب الطاف حسین کے حکم پر ہی ان سے دوری اختیار کر رہے ہیں تاکہ پارٹی سلامت رہے اور جلد ہی الطاف حسین کی بیٹی قیادت کے منصب پر ویسے ہی فائز دکھائی دیں گی جیسا کہ پیپلز پارٹی میں بلاول زرداری ہیں۔ سامنے کوئی اور پتلی ہو گی اور ڈوریاں کوئی اور ہلا رہا ہو گا۔

دوسرا نقطہ نظر یہ کہتا ہے کہ نہیں صاحب، اب تخت یا تختہ کا معاملہ ہے۔ اب نائن زیرو نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ یا تو ایم کیو ایم باقی رہے گی یا الطاف حسین لیڈر رہیں گے۔ سو اب پیر صاحب کا وہ مقدس نام جو کہ وضو کیے بغیر اور بھائی کا لاحقہ لگائے بغیر ادا نہیں ہوا کرتا تھا، چند منٹوں کے اندر اندر ہی بھائی سے بانی، اور بانی سے صاحب تک پہنچ گیا۔ ساتھ واشگاف انداز میں اعلان بھی کر دیا گیا کہ ”لندن سے اور الطاف حسین صاحب سے ہمارا مکمل قطع تعلق ہے“۔

بہرحال فاروق ستار کا سب سے پہلا امتحان ایم کیو ایم کے دستور میں تبدیلی ہے جس میں الطاف حسین کا نام کچھ ایسے جگمگا رہا ہے کہ دستور میں تبدیلی کیے بغیر ”لندن سے اور الطاف حسین صاحب سے ہمارا مکمل قطع تعلق ہے“ جیسے نعرے یکسر بے معنی ہیں۔ اگر فاروق ستار دستور میں تبدیلی کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو ان کو ہی نیا بادشاہ سمجھا جائے، ورنہ پھر انہیں ناکام یا کٹھ پتلی سمجھا جائے گا۔

ایم کیو ایم کے پاکستانی حلقوں سے فاروق ستار کے اس بیان کے خلاف کوئی توانا آواز نہیں اٹھی ہے۔ یا تو الطاف حسین کے حامی اس وقت زیر زمین جا چکے ہیں اور سامنے آنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتے ہیں، یا پھر اب ایم کیو ایم پاکستان واقعی فاروق ستار کی مکمل گرفت میں ہے۔ دوسری بات کا امکان زیادہ ہے کیونکہ پہلی صورت میں کراچی میں کچھ ہنگامے تو پھوٹتے، کچھ قتل و غارت تو ہوتی۔ لگ یہی رہا ہے کہ لندن کی رابطہ کمیٹی اور کراچی کی رابطہ کمیٹی میں طویل عرصے سے چلنے والی جنگ کا اب فیصلہ ہو چکا ہے۔ جو زمین پر کھڑے ہیں، وہ سمندر پار والوں سے جیت چکے ہیں۔

\"altaf-hussain-4\"

فرض کرتے ہیں کہ فاروق ستار نے الطاف حسین کے حکم پر ہی اظہار لاتعلقی کیا ہے۔ لیکن جب ایک بادشاہ کسی سردار کو دور دراز صوبے کی حکومت اور لشکر بخش دیتا ہے اور کچھ خود مختاری دیتا ہے، تو بادشاہ کے کمزور پڑتے ہی یہ سردار مکمل خود مختاری کا اعلان کر دیتا ہے۔ اس صورت میں بھی ہمیں یہی دیکھنا ہو گا کہ کتنے دن کے بعد حقیقتاً مکمل خود مختاری کا اعلان ہوتا ہے۔ یہ صرف وقت کی بات ہی ہے لیکن بات پھر بھی خود مختاری ہی پر ٹلے گی۔

اس بغاوت میں اب ایم کیو ایم پاکستان پوری کی پوری ہی الطاف حسین کی گرفت سے نکلتی دکھائی دے رہی ہے اور ماضی کے برخلاف یہ چند محدود علاقوں پر ایم کیو ایم حقیقی کے قبضے جیسا معاملہ نہیں ہے۔

لیکن ایک فیصلہ کن فیکٹر باقی ہے۔ اگلے انتخابات، خواہ وہ ضمنی ہوں یا قومی، میں متحدہ ووٹر ابھی سامنے آ کر یہ فیصلہ کرے گا کہ وہ باغیوں کے ساتھ ہے یا الطاف حسین کے ساتھ۔ کیا وہ ابھی بھی یہی کہتا ہے کہ راہنما چاہیے، منزل نہیں، یا پھر وہ منزل کو ترجیح دے گا۔

اور بہتر یہی ہے کہ فیصلہ ووٹر پر ہی چھوڑ دیا جائے اور ”بہترین قومی مفاد“ میں فیصلہ کرنے سے احتراز کیا جائے۔ ووٹر سے بہتر قومی مفاد کا منصف کوئی دوسرا نہیں ہے۔

ہاں لاقانونیت ختم ہونی چاہیے۔ پاکستان کے خلاف بات کرنے پر قانون کی گرفت ہونی چاہیے۔ لیکن یہ گرفت صرف ایم کیو ایم پر ہی نہ ہو، بلکہ تمام قانون شکنوں پر ہو۔ خواہ کوئی گلی میں پستول دکھا کر موبائل اور بٹوا چھین رہا ہو یا بم دھماکے کر رہا ہو یا بوریوں میں لاشیں بند کر رہا ہو، سب قانون شکنوں پر گرفت ہونی چاہیے اور ان کو سزا ملنی چاہیے۔ لیکن گرفت صرف اور صرف قانون شکنوں پر ہی ہونی چاہیے، ان کے ساتھ کھڑے معصوموں پر نہیں۔ ایف سی آر کا اجتماعی ذمہ داری کا قانون تو اب فاٹا سے بھی ختم کیا جا رہا ہے، کیا ہی خوب ہو کہ باقی ملک سے بھی ختم کر دیا جائے اور فرد کے جرم کی سزا گروہ کو دینے کا سلسلہ ترک کیا جائے۔

کچھ خوش فہم یہ سوچ رہے ہیں کہ ایم کیو ایم کے عروج سے قبل وہ کراچی کے مالک تھے اور ایم کیو ایم کے منظر عام سے ہٹتے ہی خود بخود دوبارہ مالک بن جائیں گے، تو وہ عظیم مفکر سید مودودی کے الفاظ میں ”جنت الحمقا“ یعنی احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایم کیو ایم نہ ہو گی تو ان کی مقبولیت ان کو کراچی کا بادشاہ بنا دے گی، تو وہ یہ سوچ لیں کہ ان کے قدیمی حامی بھی دھرنوں کے بعد ان کے ساتھ نہیں کھڑے ہیں تو نئے کہاں سے آن ملیں گے۔ اگر کسی وجہ سے ناممکن امر ہو گیا اور اچانک ہی ایم کیو ایم کا ووٹر اسے چھوڑ گیا تو پھر جوڑ توڑ کا بادشاہ نواز شریف ہی وہاں راج کرتا دکھائی دے گا، کوئی دوسرا نہیں۔

طاقت کا خلا اگر پیدا کر دیا جائے اور ریاست اسے خود پُر نہ کرے تو پھر یہ خلا نجی ملیشیا پر کرتی ہیں۔ خدارا کراچی کو بیروت مت بنائیے کہ ایک حصہ فلسطینیوں کے قبضے میں ہو، ایک سنی ملیشیا کے، ایک پر دروز قابض ہوں، ایک پر فلانجی اور ایک پر حزب اللہ۔


اسی سلسلے سے

جب ایم کیو ایم نہ ہوگی تو پھر کیا ہو گا؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments