سی پیک کی پٹاری سےعوامی توقعات


\"ali

چین کے پاکستان میں زمینی راستوں سے تجارت کے نئے منصوبے کو جب سے پاکستان کے پردھان منتری شری نواز شریف نے سی پیک کہا ہے تب سے یہ نام اب زبان زد عام ہے ۔ گو کہ اس منصوبے کا افتتاح چینی صدر اور پاکستانی وزیر اعظم نے مشترکہ طور پر ایک سال قبل کیا تھامگر اس کے خال و خد ابھی تک واضح نہیں ہوسکے ۔ یہ اس عالمگیر بے خبری کا نتیجہ ہے کہ سی پیک نامی اس منصوبے پر اخبارات، رسائل، جرائد ، برقی ابلاغ اور سوشل میڈیا پر اندازوں، تجزیوں ، توقعات، خدشات اور احساسات کا مسلسل اظہار دیکھنے میں آتا ہے۔ کبھی الزامات تو کبھی جوابی الزامات کا ایک سلسلہ ہے جو تھامے نہیں تھمتا ۔

ایک وزیر باتدبیر اسلام آباد کے پانچ ستارہ ہوٹلز اور ایوانوں میں جب امریکی انگریزی میں اس منصوبے کی شان میں قصیدہ پڑھتے ہیں تو بعض کی بانچھیں کھل جاتی ہیں اور بعض کے منہ میں رال رقص کرنے لگتی ہے ۔ ایک اور بین الاقوامی امور کے نابغہ روزگار اور مشرفی دور کے افلاطون جب چین سے راضی بہ نزول من و سلویٰ کی بشارت دیتے ہیں تو جغرافیائی غلط فہمی لاحق ہوتی ہے کہ کہیں بنی اسرائیل سے مُراد ہمارے چینی بھائی بند تو نہیں ۔ ان پر خدا ئی نوازشات کی بارش ہورہی ہے اور وہ اس میں کپڑے بھگو کر ہم پر نچوڑ رہے ہیں ۔

جب کچھ ندیدے قسم کے لوگ اپنے دل کے سیماب صفت ارمانوں مجبور ہوکر سوال اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں تو سی پیک کے خالقین برا مناتے ہیں اور اس دستاویز کو ایک مقدس قومی راز قرار دےکر عام لوگوں کو اس کی بھنک سے ایسے دور رہنے کی کوشش کی جاتی ہے جیسے اچھوتوں کو ویدک شاستروں سے دُور رکھا جاتا تھا ۔ یوں ڈگڈی بجاکر مجمع لگانے والا مداری دو برس سے چرچا تو کررہا ہے لیکن پٹاری کھول کر کچھ نہیں دکھا رہا ۔

رعایا کو سنہرے خواب دکھانا اور اس امید پر رکھنا کہ اچھے دن آنے ہی والے ہیں ، ترقی پزیر ملکوں خصوصاً پاکستان میں حکمرانوں کی ایک عام روش ہے۔یہ روشن اس قدر بوسیدہ ہوچلی ہے کہ نہ لوگ اسے سنجیدگی سے لیتے ہیں اور نہ ہی ان کی ایفا کو حکمران ۔ اس طرح تو جوش خطابت میں کوئٹہ ، پشاور، سکھر جیسے شہروں کو بھی ماضی میں کئی بار پیرس اور لندن بنایا جا چکا ہے۔ لوگوں کو سی پیک کے ایک قابل عمل منصوبہ ہونے کا شک اس وقت ہوا جب مشرقی اور مغربی روٹ کا شور سب سے پہلے عمران خان کی نئی نویلی خیبر پختونخواہ کی حکومت نے مچایا۔ مشرقی روٹ پہلے اور مغربی بعد میں کا نعرہ بلند ہوا تو پہلی بار کچھ نقشے بھی دنیا کے سامنے لائے گیٔے ورنہ شاید رائے ونڈ کے حقیقی پاکستان سے باہر بسنے والے پردیسی آج تک بے خبر ہی ہوتے ۔

اس کے بعد اس منصوبے کے مبینہ صنعتی زون کی بات چلی معلوم تو ہوا کہ یہ سب مشرقی روٹ پر بنائےجائیں گے اور اہل مغرب کو نہیں ملیں گے۔ اس پر ہاہا کارمچی تو کچھ صنعتی زون مغربی روٹ میں بھی ہونے کی بشارت بھی عام کردی گئی ۔ سندھ اور بلوچستان کے بلوچ شاید مشرقی روٹ پر خوش تھے اس لیے وہاں آوازیں سنائی نہیں دیں لیکن بلوچستان کے پشتون اپنے( شمالی )پشتونخواہ کے بھائیوں کے ہمنوا ہوئے تو قلات ،کوئٹہ چمن کی سڑک کو بھی سی پیک میں شامل کرنے کی خوش خبری سنادی گئی ۔

جو سب سے زیادہ امیدیں سی پیک کی بند پٹاری سے سے بندھوائی گیئں وہ توانائی کے فوری اور دیرپا نوعیت منصوبوں کی ہیں۔ فوری منصوبے کوئلے سے بجلی بنانے کے ہونگے۔ چونکہ تھر سے نکلنے والا کوئلہ بغیر بنا ملاوٹ بجلی بنانے سے قاصر ہے لہٰذا انڈونیشیا سے کوئلے کی درآمد پھر اسکو پنجاب لاکر بجلی میں بدلنے کا منصوبہ ہے۔ کوئلے کی بندرگاہ سے پنجاب ترسیل کے لیے ریلوے کا نظام پٹڑی پر چڑھانے کی بھی نوید ہے ۔ اس دوران یہ بھی پتہ چلا ہے کہ کوئلے سے بجلی بنانے کو عالمی برادری ماحول کے لیے نقصان دہ سمجھتی ہے اس لیے عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے قرض نہیں مل سکتا۔ اس نئے انکشاف کے بعد ان الہامی منصوبوں پر زیادہ شور سنائی نہیں دے رہا۔

دیرپا منصوبوں میں پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے بتائے گئے ہیں ۔ ان منصوبوں میں دریائے جہلم پر آزاد کشمیر اور پنجاب کے منصوبوں کی بازگشت زیادہ سنائی دی ہے ۔ ان منصوبوں کے متعلق یہ بھی پتہ یہ چلا ہے کہ یہ اس لئے منافع بخش ہیں کیونکہ ان سے پیدا کردہ بجلی کی ترسیل پر کوئی لاگت نہیں آئیگی نہ ہی ان کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے تعمیرات کی لاگت زیادہ رہےگی۔

بعض ناقدین کہتے ہیں کہ ان منصوبوں کو قومی سرمایہ کاری سے مکمل کرنے میں زیادہ قومی مفاد تھا نہ کہ ان کو سی پیک کی پٹاری میں رکھ کر چینی سرمایہ کاروں کو بمع مراعات دینے میں۔ ان منصوبوں پر اب چینی سرمایہ کاری کی وجہ سے نہ بیروزگاری سے نمٹنے میں مدد ملے گی اور نہ ہی بجلی کی آمدن یا اس کے منافع میں حصہ ملے گا۔ اب چینی سرمایہ کاری کرینگے ، کام خود ہی کرینگے اور اگلے تیس سالوں تک منافع کمائیں گے۔

خود کو خود ہی ماہر سمجھنے والے بعض ’ماہرین‘ کہتے ہیں کہ اگر سی پیک میں دریائے جہلم پر بننے والے منافع بخش منصوبے چینیوں کو دینے کے بجائے دریاے سندھ پر بننے والے دیامر بھاشا ڈیم اور داسو جیسے بڑے منصوبے دیے جاتے تو سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا اور بجلی کے بحران پر بھی قابو پانے میں مدد ملتی۔ خیر نقار خانے میں طوطی کی آواز سننے کا کشٹ کون اٹھائے ؟
روٹ مغربی ہو کا یا مشرقی اور پھر کہاں سے بھی گزرے گا ۔ اس سب پر بے یقینی کی دھند چھائی ہے ۔ یہ دھند سی پیک کی پٹاری بغل میں دبائے ڈگڈگی بجانے والوں کے ذہنوں پر بھی چھائی ہے کہ کل کو گوادر سے کاشغر جانے والے ٹرک کے سٹیرینگ ویل پر بیٹھے ڈرایئور کونسا روٹ اچھا لگتا ہے۔ اس دھند سے کچھ محفوظ ہے تو یہ حقیقت کہ سی پیک گلگت بلتستان کے پہاڑی سلسلوں سے ہی گذرے گا ۔ اس کے علاوہ چین اور پاکستان کے مابین کوئی اور راستہ تا حال ممکن نہیں۔

گلگت بلتستان کی ایک خاص سیاسی ، قانونی،آئینی اور جغرافیائی حیثیت ہے جو پاکستان کے دوسرے صوبوں اور وفاق کی اکائیوں سے مختلف ہے ۔ اس کی وجہ سے اس خطے کی کسی قسم کی نمائندگی سی پیک سے وابستہ کسی فورم میں نہیں ہے۔ کچھ حضرات نے قراقرم ہائی وے پر اپنے نام کی چاکنگ کروا کر خود کو اس خطے کا وارث ثابت کرنے کی کوشش کی ہے تو کہیں کچھ لوگ سفید گلگتی ٹوپی پر ہمالیائی مرغ زرین کے غیر قانونی پروں کا تاج سجا کر خود کو اس خطے کے شہزادے نہیں تو کم از کم وارث ثابت کرکے اپنی جیب گرم کرنے کی کارگزاریوں میں لگے ہوئے ہیں ۔

اس وقت یہ سب دکھائی دے رہا ہے لیکن گلگت بلتستان کے اصل عوام کی کسی سطح پر کوئی شنوائی اور نمائندگی کہیں نہیں دکھائی دے رہی ۔ ابھی تک سی پیک کے روٹ کی یقینی گزرگاہ گلگت بلتستان کے باشندوں کا مقدر یہی دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں ٹرکوں اور ٹرالروں کے دھوئیں کے علاوہ کچھ نہیں ملنے والا ۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments