غالب بنام فاروق ستار


 \"mustafaبرخوردار سعادت آثار فاروق ستار

تم مجھے نہ جانتے ہو شاید، لیکن میں تمہارے نام اور مقام سے اچھی طرح واقف ہوں۔ اب تم کہو گے کہ کیسے تو میاں تم سے واقفیت کا سارا سہرا ہمارے نواب لوہارو علاو الدین احمد خان کے پوتے عالی میاں کے سر جاتا ہے۔ وہ اگلے سال یہاں مستقل سکونت کے واسطے بھیجے گئے تھے. انہیں الن فقیر نامی ایک مغنی کے ساتھ ہی بہت بڑی جاگیر عطا ہوئی ہے کہ اتنی تو ان کے باپ دادا کو لوہارو میں بھی نہ ملی ہو گی. بس اسی فقیر کے ساتھ ہوتے اور اتنے بڑے جیو ن ساگر میں \”تو نے پاکستان دیا\” گاتے رہتے ہیں. آج کل یہاں انگریزی مہینہ اگست کا چل رہا ہے اس لئے پہلے تمہارے اور اب ہمارے عالی میاں ہر صبح اپنی حوروں کو جلوس کی شکل میں لے کر نکل پڑتے ہیں اور جنت کی گلی گلی میں جیوے جیوے پاکستان گاتے پھرتے ہیں. 14 اگست کی شام بھی ایک محفل کا انتظام کیا حضرت نے جس میں پہلے تمہاری آج کل ہماری نور جہاں کہ ملکہ ترنم کے نام سے یہاں بھی جانی جاتی ہیں عالی کا نغمہ اے وطن کے سجیلے جوانو گا کے محفل لوٹ لے گئیں لیکن یقین جانو اس محفل میں سجیلے نہیں مجھ ایسے ڈھیلے ہی تھے سب \’جو عمر کے اس درجے میں ہیں کہ جن سے بنا سہارا اٹھا ہی نہیں جاتا اتنی دیر میں اٹھتے ہیں کہ جتنی میں ایک قد آدم دیوار اٹھے. مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسی پر جمال محفل سے اٹھنے کا یارا کس کافر کو تھا بس بیٹھے ساری رات سنتے رہے سر دھنتے رہے. آخر میں ظالما کوکا کولا پلا دے پر دھمال ڈال کر آزادی کا یہ جشن اختتام کو پہنچا. ارے وہی عالی جسے تمہاری جماعت نے دربار بالا کہ تمہاری مملکت میں سینٹ کہلاتا ہے میں شہ بالا جو زبان انگریزی میں سینیٹر کے نام سے جانا جاتا ہے\’ بنا کے بھیجا تھا کہ خلعت پاویں اور مجرے بجا لاویں. اب بھی نہ پہچانو انہیں تو تف ہے.

تو میاں انہی عالی کے توسط سے آج تمہارا مشاعرہ کہ جو تمہارے ہاں پریس کانفرس کہلاتا ہے اسلم اظہر کی جنت میں ان کی 70 میل لمبی ٹیلی ویژن سکرین پر ملاحظہ کیا اب تم پوچھو گے یہ اسلم میاں کون .. ارے بھئ اب خود بھی تھوڑی تحقیق کر لو کیوں مجھ بوڑھے کے اعصاب کا امتحاں مقصود ہے. بس میں تو اتنا جانتا ہوں کہ تمہاری مملکت میں باباۓ ٹیلی ویژن کہلاتے تھے. جنت پہنچے تو 70 حوروں کے بدلے 70 فٹ کا ٹیلی ویژن مانگ بیٹھے. داور محشر نے فرمایا انچ اور فٹ تمہاری دنیا میں چلتے ہوں گے یہاں میلوں کا سلسلہ ہے. رحمت بھی میلوں میں محبت بھی. بس وہ دن اور آج کا دن ہم سب انہی کے ہاں پائے جاتے ہیں. جہاں رنگ رنگ کے سیاسی ڈرامے دکھائے جاتے ہیں.

آج کل ہر جگہ ہر محفل میں تمہارا نام گونجتا  ہے۔

برخوردار فاروق آفریں ہے تم پر کہ تم نے 30 سال جس صبر استقامت کا دامن تھامے رکھا آج تمہیں اس صبر کا اجر مل گیا. ملا کیا تم نے اپنی لیاقت سے حاصل کیا ہے عامر لیاقت سے نہیں. یہاں کبھی کبھی عظیم احمد طارق سے سرراہ سلام دعا ہوتی ہے تو وہ سلام کا جواب بعد میں عنایت کرتے ہیں پہلے صرف یہی فرماتے ہیں. حیرت ہے وہ ابھی تک زندہ ہے. اب خدا جانے یہ \’ وہ \’ کون ہے لیکن برخوردار رئیس امروہوی اور جون ایلیا کا خیال ہے کہ تمہاری جانب اشارہ ہوتا ہے. خدا تمہیں لمبی زندگی دے جو کام تمہیں سونپا گیا ہے اسے اچھی طرح سے پورا کر کے نام کماؤ، آتے جاتے کا سلام کماؤ. ایک بات تو ماننی ہی پڑے گی کہ جس طرح تم نےآگرہ والے مولوی رمضان کے پوتے الطاف حسین کو قائد \’ بانی \’ بھائی اور اب صاحب کا چوغہ پہنایا ہے ….لو بھائی میرے شاگرد خاص پانی پت والے الطاف حسین اٹھ کے بیٹھ گئے کہ شاید میں نے انہیں آواز دی ہے. ارے الطاف سو جاؤ دوبارہ .. میں تمہارا یعنی الطاف حسین حالی کا نہیں الطاف حسین گالی کا ذکر کر رہا ہوں.

ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ جو تم نے اپنے قائد کے ساتھ کیا ہے ایسا تو اورنگ زیب عالمگیر نے شاہجہان کے ساتھ بھی نہیں کیا تھا خدا گواہ ہے ایسا شغل تو مغل ہندوستان کی غلام گردشوں میں نہیں ہوا جیسا تم نے پچھلے ایک ہفتے میں برپا کئے رکھا. کتنی صفائی سے اپنے سب سے بڑے کو ہی دہی بڑے بنا ڈالا۔ کاش عالمگیر بھی اسی صفائی سے کام لیتا تو یوں تاریخ میں بدنام نہ ہوتا۔ ارے بھئی میں تو تمہارا مداح ہو گیا لیکن میاں احتیاط لازم ہے کہیں تمہاری اس بغاوت کا انجام بھی 1857 والے غدر کا نہ ہو جب فرنگی کی بجاۓ اپنے ہی بادشاہ کو گھیر بیٹھے تھے باغی. ہائے کیا یار بادشاہ تھا ظفر. اپنوں کی غداری کھا گئی شاعر بادشاہ کو. میں غدر کے دودھ کا جلا ہوں تمہارےانقلاب کی چاچھ پھونک پھونک کے پیوں گا اور تم کو بھی مشورہ دوں گا کہ یہ جو تم نے اپنے دفتروں کے گرنے کا رانڈ رونا لگا رکھا ہے اسے بند کرو میاں. بڑی مصیبت میں ہوں، دفتر گر گئے، پاخانہ ڈھ گیا، ہائے دبا، ہائے مرا، کی گردان چھوڑو اور اصل مسئلے کو گردن سے پکڑو. اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے تو دفتر بھی کھڑے کر لو گے. زبانی تیر اندازی سے کچھ حاصل نہیں۔ اس سے دراندازی کی راہیں کھلتی ہیں. زبان سے نہیں اپنے کام سے یقین دلاؤ تو جانیں.

اس طلاق کے بعد اب نہ تمہارے پاس رجوع کی کوئی گنجائش باقی ہے نہ غلطی کی. لہٰذا اہل محلہ کو کو بار بار یہ بتانے کی حاجت ہی نہیں کہ تم طلاق لے دے چکے ہو ایک بار کا کہا کافی جانو. بس اب دوبارہ اس گلی میں نہ جائیو ورنہ لوگ ظالم ہیں ہر اک بات کا طعنہ دیں گے. تم کسی کی باتوں کا اثر مت لینا. جیسے پچھلے 30 سال خاموشی سے اپنے بڑے کا کہا مانتے رہے ہو اب اگلے 30 سال اسی خاموشی سے کراچی بندر کا کہا مانو. تم پر کسی بڑے کا حق ہو نہ ہو لیکن اس بڑے شہر کا حق ضرور ہے. جیتے رہو اچھا چلتا ہوں\’ آج پہلے تمہارے آج کل ہمارے عبدالستار ایدھی کے ہاں جانا ہے. وہاں جانے میں ایک عجیب سا لطف ملتا ہے نہ وہ کوئی بات کرتے ہیں نہ میں۔ بس ان کے گھر کے باہر رکھے جھولے پر ہم دونوں بوڑھے بیٹھے جھولتے رہتے ہیں. وہ کبھی کبھی میری طرف نظریں اٹھاتے ہیں اور میں ان کی حسین آنکھوں کو دیکھ دیکھ کے صرف مسکراتا رہتا ہوں

تمہارا

مرزا اسد اللہ الغالب

مصطفیٰ آفریدی
Latest posts by مصطفیٰ آفریدی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مصطفیٰ آفریدی

ناپا میں ایک سال پڑھنے کے بعد ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھنا شروع کیے جو آج تک لکھ رہا ہوں جس سے مجھے پیسے ملتے ہیں۔ اور کبھی کبھی افسانے لکھتا ہوں، جس سے مجھے خوشی ملتی ہے۔

mustafa-afridi has 22 posts and counting.See all posts by mustafa-afridi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments