طوائف، مقدس مجرا اور رشتہ


میں آپ کی بات سے سو فیصد متفق ہوں کہ ہمارے معاشرے میں رشتے بنائے نہیں بلکہ خریدے یا بیچے جاتے ہیں، لیکن یہ معاملہ صرف لڑکیوں کے ساتھ ہوتا ہے یہاں آپ یک طرفہ بات کر رہی ہیں۔ لڑکی کے لئے تو صرف سلم سمارٹ اور گوری رنگت کا ہونا ہی فلٹر ہے کہ وہ پرفیکٹ ہے۔ لڑکے کے لئے کیا کیا فلٹرز ہیں کبھی سوچا ہے؟ لڑکا ڈرائیور نہیں ہو سکتا۔ لڑکیا موچی، نائی، تیلی کی اولاد نہیں ہو سکتا۔ اگر کسی چھوٹی ذات سے بھی ہو تو کم سے کم ڈاکٹر، انجنئیر، جج یا آرمی افسر ہونا چاہیے۔ لڑکا غریب ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ اپاہج ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لڑکا چھوٹے قد کا نہیں ہونا چاہیے۔ لڑکا بھی کالا نہیں ہونا چاہیے۔ لڑکے کا اپنا کاروبار ہو، ذاتی گھر ہو، گاڑی ہو اور فیملی چھوٹی ہو۔

لڑکی والوں کی اکثر یہ ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ لڑکے کی فیملی چھوٹی ہو اور لڑکا مکمل طور پر خودمختار ہو، شادی کے بعد ان والدین اور بہن بھائیوں کو کار بے کار کی طرح اٹھا کر باہر پھینک دینے والا ہو جن کے ساتھ وہ ساری زندگی رہا ہے۔ جنہوں نے اس کو سپورٹ کیا، پالا پوسا اور ہر دکھ سکھ میں ساتھ نبھایا ہو۔ جب آپ یہ ساری خوبیاں مانگتی ہیں تو حقیقت میں آپ اپنی ایک قیمت طے کرتی ہیں اور قیمت طے کرنے کے بعد اس بات کا واویلا کرنا کہ مجھے خریدا جا رہا ہے چہ معنی دار، لڑکا ہینڈسم تھا، آپ نے کہا واہ کیا بات ہے، لڑکا ائیر فورس میں ہے، واہ کیا بات ہے۔ اس لڑکے نے آپ کو پسند کیا تھا۔ شادی کے لئے ہاں کی تھی، اس نے نہیں کہا تھا آپ اپنا وزن کم کرو، آپ نے شادی اس کی ماں کے ساتھ نہیں کرنا تھی۔ اس کی ماں نے وہ کہا جو ممکن ہو سکتا ہے۔ وزن کم کیا جا سکتا ہے۔ آپ نے وہ کہا جو ممکن نہیں ہے۔ بڑھا وزن کم ہو سکتا ہے لیکن بڑھا ہوا قد چھوٹا نہیں ہوتا محترمہ۔

بچپن میں صحت مند ہونا یا نہ ہونا آپ کے اختیار میں نہیں تھا لیکن جب آپ جوان ہو چکی تھیں، آپ کو علم تھا کہ میرا صحت مند ہونا مسائل کا باعث بن رہا ہے تو آپ نے اس کو کم کرنے کی چنداں کوشش نہیں کی۔ موٹا ہونا حقیقت میں آپ کی ذاتی پسند بنی، لاکھوں میں کسی ایک موٹے انسان کا موٹاپا بیماری کی وجہ سے ہوتا ہے، باقی کا موٹاپا اس کی کاہلی کی وجہ سے ہوتا ہے، دنیا میں لاکھوں لوگوں نے اپنا وزن کم کر کے ایک صحت مند اور بھر پوزندگی کا آغاز کیا آپ کیوں نہ کر سکیں؟ اپنی کاہلی، ہٹ دھرمی کو آپ اک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کیسے پورے معاشرے کو مورد الزام ٹھہرا سکتی ہیں؟

آپ نے اسلام آباد جاکر اکیلے رہ کر ملازمت کی جس کا مطلب ہے کہ آپ اپنی زندگی میں مکمل طور پر با اختیار تھیں۔ تو موٹاپا کم یا ختم کرنے کے لئے یہ حق کیوں استعمال نہ کیا؟ سلم ہوکر کیا آپ کی تذلیل ہوتی؟ یا آپ اپنی زندگی بہت سی بیماریوں سے بچاتے ہوئے بہتر گزار پاتی؟ آپ فرماتی ہیں کہ آپ ایک غیر مرد کے ساتھ، فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر روزانہ چار گھنٹے گزارتی ہیں، وہ آپ کی ضرورت ہے، جب تک وہ ضرورت اور مفاد خاموش رہا آپ کو اس میں سے پسینے کی بدبو نہیں آئی، اس کا پان کی پیک سے بھرا ہوا غلیظ منہ کبھی ناگوار نہیں گزرا لیکن جیسے یہ اس نے آپ سے اک مقدس رشتے کی بات کی وہ قابل نفرت، بدصورت اور بدبودار ہوگیا؟

کیا یہاں بھی آپ مفاد پرست اور منافق کا کردار نہیں ادا کر رہیں؟ آپ اسے اک بہتر طریقے سے انکار کرتے ہوئے خوداری کو قائم رکھتے ہوئے انکار کر کے اپنے لئے الگ سواری کا بندوبست کر سکتیں تھیں۔ یہاں بھی لڑکے کی ماں صرف اس لئے رشتہ مانگنے آئی تھی کہ اس کے بیٹے کی پسند اور ضد تھی، مائیں اپنے بیٹوں کی پسند بیاہتی ہیں، اس میں اعلی ظرفی کہاں سے آگئی؟ بیٹے نے صاف کہا ہوگا کہ مجھے یہی لڑکی درکار ہے، اگر وہ مرد اپنی ماں کو دھمکاتے ہوئے اپنی پسند کا فیصلہ نہ سناتا تو کیا تب بھی وہ عورت آپ کو غیر مشروط پسند کرتی؟

آپ کے شوہر نے بھی آپ کو پسند کیا تھا۔ آپ نے اس کو بھی خوب ذلیل کیا۔ اس نے صرف ایک ہی ڈیمانڈ کی تھی کہ بھلے شادی کے لئے ہاں مت کیجئے گا۔ بس میری والدہ کو ذلیل مت کیجئے گا کہ جیسے مجھے کیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے آپ نے ائیر فورس والے لڑکے کی والدہ کو ذلیل کیا تھا۔ اس کے بیٹے کے سامنے۔ جس کی وجہ سے وہ لڑکا خاموشی سے چلا گیا تھا۔ بالکل اسی طرح آپ اپنے شوہر کے سامنے اس کی ماں کو بھی ذلیل کرتیں تو وہ بھی پیچھے ہٹ جاتا کہ والدین کی عزت ہمیشہ ہونے والے رشتے سے بڑی ہوتی ہے۔ یہاں وہ لڑکا ڈھیٹ نکلا اور شادی صرف اس کے ڈھیٹ ہونے کی وجہ سے ہی نہیں ہوئی بلکہ آپ نے اس کی ماں کو عزت بھی دی۔

ہمارا معاشرہ اس طرح کی یک طرفہ کروڑوں کہانیوں سے بھرا پڑا ہے جہاں ہم اپنے حصے کی محنت کیے بنا خود کو دنیا کا سب سے معصوم، قابل رحم اور مظلوم انسان مان لیتے ہیں، خود کو نہیں سنوارتے بلکہ ہر اس انسان سے اپنی کاہلی اور ناکامی کا بدلہ لیتے ہیں جو ہمارے ساتھ جڑنے کے لئے تیار ہو، ہم کو کسی نے ٹھکرایا تھا اس لئے ہم اپنی انا کو تسکین پہنچانے کے لئے کسی اور کو ٹھکرائیں گے، اس کو کہ جو ہم کو بنا کوئی شرط رکھے قبول کرنے کو تیار ہے۔

آخر میں جب کوئی ڈھیٹ انسان ہمیں مل جاتا ہے اور ہم اس کو چار و ناچار اپنا بھی لیتے ہیں تب ہمارے اندر کا سقراط جاگتا ہے اور ہم اپنی اس کہانی کو دنیا کے لئے اک مثال بنانے میں جت جاتے ہیں، خود کو عقل کل ثابت کرتے ہوئے معاشرے کو مفاد پرستی کے لیبل میں لپیٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ معاشرہ صرف دیگر افراد سے نہیں بنتا۔ معاشرہ آپ سے بھی بنتا ہے۔ اک طرف عورت کو بے لوث محبت درکار ہے لیکن دوسری طرف اسے ہر وہ خوبی بھی درکار ہے جو کسی شہزادے میں ہونی چاہیے۔

ہمارے معاشرے میں لڑکی بھلے ہی کسی نائی، موچی یا تیلی کی ہو لیکن اسے لڑکا کوئی شہزادہ ہی درکار ہے۔ لڑکا ہو یا لڑکی، اپاہج ہو لیکن پارٹنر اسے بہترین رقص کرنے والا چاہیے، لڑکی یا لڑکا موٹا ہو لیکن پارٹنر اسے وجیہ اور نزاکت سے بھرپور درکار ہے۔ خود بھلے ایزی لوڈ کروانے کے پیسے بھی دستیاب نہ ہوں لیکن لڑکا یا لڑکی لاکھوں، کروڑوں پتی ہی چاہیے۔ ہم سب منافق ہیں۔ ہم سب مقدس مجرا کرنے میں مگن ہیں اور پھر مجرا کرتے ہوئے خود کو طوائف ماننے پر تیار نہیں بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے اس مجرے کو تقدیس میں لپٹے ہوئے دنیا کے سب سے بہترین سجدے کا مقام دیا جائے۔
اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیر کر جیو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2