طوائفوں کی بچیاں خوبصورت کیوں ہوتی ہیں؟


میں نے درخواست پکڑی جیرے، فضل دین کو ساتھ لیا اور مطلوبہ کوٹھے پر پہنچ گئے۔ واقعی کوٹھے کے عین دروازے کے سامنے ایک بڑی بڑی مونچھوں والا تندورچی موٹی موٹی آنکھوں میں سرمہ لگائے تندور میں روٹیاں لگانے میں مصروف تھا۔ میں نے صرف تندورچی کا نام پوچھا اور جیرے اور فضل دین کو اشارہ کیا کہ شابا، دونوں نے تندورچی کو مارنا شروع کردیا سامنے کوٹھے سے بھاگ کر ایک بندہ آیا اور بولا سر جی باجی کرن کہتی ہیں پہلے میری بات سنیں۔

جب میں نے غور سے دیکھا تو یہ وہی دلال تھا جو تھانے میں مجھے کرن کا سندیسہ دینے آیا تھا۔ میں نے جیرے اور فضل دین کو کہا بس بس چھوڑ دو اسے، وہ تندورچی بیچارہ پوچھتا ہی رہ گیا کہ میرا قصور کیا ہے سر جی میر ا قصور کیا ہے۔ میں نیا نیا تھانیدار تھا اس لیے موقعہ پر انصاف دینا مجھے بڑا پسند تھا۔ ویسے بھی آج والا دور نہیں تھا۔ ایک سپاہی جس بازار میں گھس جاتا دلال کنجر اور تماش بین سہم جایا کرتے تھے۔

ہم تینوں کوٹھے پر پہنچے تو ہنستی مسکراتی بیس بائیس سال کی ایک بہت خوبصورت حسینہ نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا۔ خوشبوؤں سے لبریز کمرے کی فضا ء کو سارنگی کی مدھم مدھم آواز کے ساتھ کسی ماہر طبلچی کی انگلیوں کی طبلے پر پڑتی چوٹ ماحول کو دلفریب کیے ہوئے تھی۔ فوری طور پر جیرے اور فضل دین کو مرنڈا کی ایک ایک بوتل کے ساتھ پانچ پانچ سو روپے کے کڑکنے نوٹ پکڑا دیے گئے۔
میں۔ جی تو آپ کرن ہیں؟

کرن۔ (گاؤ تکیے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) حضور! تشریف رکھیے، میں ہی کرن ہوں اور میرے سامنے قالین پہ بیٹھتے ہوئے مخصوص ادا سے بولی حضور! آپ نے تو پوری بات سنے بغیر ہی بیچارے جانے کو مار مار کے بدو بنا دیا۔ (تندورچی کا نام جاناں تھا) خیر کوئی بات نہیں میں اسے سمجھا دوں گی۔

میں۔ لیکن آپ نے تو اس کے خلاف درخواست دی تھی۔
کرن۔ حضور! وہ تو آپ کو اپنے دفتر بلانے کا ایک بہانہ تھا۔
میں۔ آپ مجھے اپنے دفتر کیوں بلانا چاہتی تھیں؟

کرن۔ حضور روز شام کو اپنی اس کھڑکی سے ( سامنے کھلی کھڑکی کی طرف اشارہ کرکے ) آپ کو اپنے دو سپاہیوں کے ساتھ گزرتا دیکھتی ہوں۔ اور کوئی قسمت جلا ہی ہوگا جو چاند دیکھ کر عید نہ کرنا چاہے۔

کرن کے پتلے پتلے ہونٹ جنبش کرتے تو پتہ نہیں کیوں میرے بدن میں سرسراہٹ پیدا ہوتی۔ پہلی بار کسی خوبرو حسینہ کو اپنے اتنا قریب اور بے تکلف دیکھا تھا۔ اس کے کاغذی نتھنوں میں باریک سی نتھلی میرے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ایک تسلسل کے ساتھ ختم کیے جا رہی تھی۔ سلمے ستارے کے کام والا سرخ لہنگا۔ ہلکی ہلکی سرخ لپ اسٹک سے مزیں کچنار کی پتیوں جیسے ہونٹ۔ ہاتھوں میں موتیے کے پھولوں کے تازہ گجرے پاؤں میں گھنگرو باندھے کسی قیامت کا پیش خیمہ کرن میرے لڑکپن کو مکمل طور پہ ورغلاء چکی تھی۔ ناجانے میں کن خیالوں میں گم تھا کہ کرن نے اچانک پوچھا حضور کیا سنیے گا؟

میں۔ جی کچھ نہیں کچھ نہیں۔ میں نے جلدی جلدی جواب دیا۔

جیرا اور فضل دین اب تک نان اور چرغہ اڑا چکے تھے۔ میں نے اجازت لے کر اٹھنا چاہا تو کرن نے اپنے مخملی ہاتھوں سے میرا ہاتھ پکڑ لیا ”اجی کچھ دیر تو تشریف رکھیے“ لیکن میں نہ چاہتے ہوئے بھی وہاں سے اٹھ کر چلا آیا۔ پوری رات گلیوں میں گشت کرتے وقت اپنے ذہن سے جھٹکنے کے باوجود میں کرن کی اداؤں، باتوں، جادوئی شباب کے سحر سے نہ نکل پایا۔ طلوع فجر کے وقت ہم نے گشت ختم کی میں سونے کے لیے چارپائی پر لیٹا تو ایسا لگا کرن کے کوٹھے سے اٹھنے والی مہک۔ سازوں کی آواز اس کے پیروں میں بندھے گھنگروؤں کی چھن چھن۔ کرن کی ناک کی نتھلی کی جنبش اس کے ہاتھ کا لمس میں اپنے ساتھ لے آیا ہوں۔ وہ سب میرے کمرے میں موجود تھا جو میں کرن کے کوٹھے پر دیکھ کر آیا تھا۔

اگلی شام میں نہا کر وردی پہن رہا تھا جب منشی نے مجھے آکر بتایا کہ بندو خان اسی خاتون کا فون ہے کہہ رہی ہے بندو خان سے بات کروا دیں، میں بھاگ کر فون کی طرف لپکا جیسے شاید پہلے ہی میں کرن کے فون کا انتظار کر رہا تھا۔

کرن۔ حضور! بندی منتظر ہے۔
میں۔ ( بنا کچھ سوچے سمجھے ) آتا ہوں۔

اب میرا معمول بن گیا ہر رات گشت کرن کے کوٹھے سے شروع ہوتی اور کرن کو الوداعی سلام کے ساتھ خٹم ہوتی۔ مجھے رشوت کے کمائے وہ پیسے، جو میرے سرکاری صندوق میں رکھے تھے خرچ کرنے کا مصارف مل گیا۔ شروع شروع میں کرن مجھے منع کرتی رہی مگر پھر وہ بھی کبھی کبھار تھانے بندہ بھیج کر پیسے منگوانے لگی۔

میں تھانہ ساندہ سے ٹرانسفر ہوکے تھانہ ٹبی سٹی آیا تھا۔ تھانہ ساندہ کے علاقے میں میں نے منوں کے حساب سے چرس افیون پکڑی کلوؤں کے حساب سے ہیروئن پکڑی۔ جعلی دواؤں کی فیکٹریاں پکڑیں میں نے اتنا پیسہ کمایا کہ اس کے بعد پوری سروس میں کمایا ہوا پیسہ صرف تھانہ ساندہ کی کمائی کے برابر نہ ہوسکا۔ لیکن اب وہ سارا پیسہ ہاتھوں سے اترتی میل کچیل کی طرح صاف ہونے لگا۔ ایک ایک رات میں دس دس بیس بیس ہزار روپے میں کرن کی اداؤں پہ لٹانے لگا۔ کرن کا کوٹھا باقی تماش بینوں کے لیے علاقہ غیر تصور کیا جانے لگا۔

کرن کے کوٹھے کے دلال جب کبھی مجھے گلی محلے میں کہیں مل جاتے تو سو دوسو پانچ سو تک خرچ لینا ان کا معمول بن گیا۔ بے شک کرن آج بھی میرا اسی طرح خیال کرتی جس طرح پہلے دن سے کرتی آئی تھی میرے آنے پر باقی تمام تماش بینوں کو کمرے سے باہر نکال دیا کرتی۔ مگر جس کالے دھوش دلال کو میں نے بے عزت کر کے تھانے سے نکال دیا تھا اب وہ مجھ پر حکم چلانے لگا۔ فضل دین اور جیرا بھی جان گئے کہ کرن میری مجبوری بن چکی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments