منٹو کا افسانہ بنام\”الو کا پٹھا\”


\"Rashidکچھ حرکات اس لائق ہوتی ہیں کہ بے ساختہ کہا جائے الو کا پٹھا۔۔۔ بے شک نہ کہا جائے مگر کہا جاتا ہے۔ اب ہماری زبان میں ان الفاظ کا استعمال کیسے اور کیوں ہوتا ہے اس کا جواب کچھ پیچیدہ نہیں ہم سب کے ہر دل عزیز سعادت حسن منٹو کے افسانے کا ایک کردار اس قلبی خواہش کے ساتھ نمودار ہوتا ہے کہ وہ کسی کو لازماََ الو کا پٹھا کہ دے اور جو مواقع میسر آئے کہ وہ اپنی اس خواہش کو پورا کرے ان میں سے ایک آدھ موقع تو عین اس قول کے لئے ہی تخلیق ہوا۔

الو کا پٹھا، عمومی اور جلد برآمد ہونے والے وہ غیر مناسب مگر رائج الفاظ جو گفتگو میں کسی ناگوار حرکت کے رد عمل کے طور پہ کہے سنے جاتے ہیں۔ کبھی یہ گالی ہوں گے مگر اس کا بکثرت استعمال تقریباََ اس پرندے کے لئے گالی بن گیا ہے۔ کسی حماقت کے سرزد ہونے پہ بھی اس قول سے واسطہ پڑ سکتا ہے۔ اردو ادب میں اس قول کا اگرچہ اتنا وافر استعمال نہیں ہوا یہ مصنفین کی احتیاط تھی جو برتی گئی ورنہ ایسا نہیں کہ کبھی محل نہ میسر آیا ہو۔ کئی کہانیوں میں منفی کرداروں کی حرکتوں پہ گنجائش موجود تھی کہ \”الو کا پٹھا\” کہہ دیا جائے۔ کھیل کے میدان میں جب مقابلہ روائتی حریف سے ہو تو اس وقت اگر اپنا کوئی کھلاڑی کارکردگی کی بجائے صرف آنکھیں دکھائے تو بھی تقاضا وقت یہی ہے اور رسم دنیا بھی اجازت دیتی ہے۔ غرض اس سے گریز نیت میں ضرور شامل ہے اور کہیں شعوری جبر کر کے اپنے دانتوں سے زبان کاٹ کر اس کلام کے شدت اظہار کو روکا جاتا ہے مگر پھر بھی بعض اوقات جزبات کے رستے وارد ہو جاتا ہے۔ لہٰذا جتنی بھی جان بچائی جائے گفتگو سے مکمل طور پہ اس کا اخراج ممکن نہیں کیونکہ الو کے ساتھ ہم اردو والوں کی دشمنی تاریخی معلوم ہوتی ہے۔ کسی کو احمق کہنا ہو، سمجھنا یا سمجھانا ہو تو حماقت کی تشبیہ ہمیشہ اس پرندے کے ساتھ دی جاتی ہے کہ فلاں نے الو کا گوشت کھایا ہے۔ جہاں کوئی نہ بولے وہاں الو بولتا ہے ویسے یہ خاموش رہ کر خود پہ برستے غضب کو سہتا ہے شاید اسی لئے رات سے منسوب ہے۔ کبھی چمن کی ہر شاخ پہ مہرباں انساں بٹھا دیتے ہیں اور الو کی دم فاختہ جھٹ میں بنتی ہے۔ اگر کسی بالغ الو کا رتبہ کسی کو نہ بھی دیا جائے پھر بھی حس لطافت سے مجبور \”الو کے پٹھے\” کا استعمال اب تو کافی مقبول ہو چکا ہے۔ صورت حال کے جنم لینے کی دیر ہے آغاز اسی پرندے کی پھڑ پھڑاہٹ سے ہوتا ہے، اس کے بعد پھر حسب تو فیق جو لغت اجازت دے اتنی تیزی اور تنوؑع کے ساتھ لغویات کے دائرے کو وسیع کر دیا جاتا ہےکہ مزید علاقائی اور مقامی زبان کے تعاون سے جہاں تک رسائی ممکن ہو وہاں تک کا سفر کر لیا جاتا ہے۔ اس بات کی فکر کم ہوتی ہے کہ جتنا کہا جائے گا اس سے کچھ کم، زیادہ یا برابر سنا بھی جائے گا۔ مکاملہ اس وقت زبان سے زبان کا، کان سے کان کا ہوتا ہے، ہاتھ اور گریبان کا جیسے ہی ملاپ ہوتا ہے تو اس کے بعد وارفتگی اپنے عروج پہ ہوتی ہے۔

منٹو کے ایک کردار قاسم کو بھی اس خواہش نے آن گھیرا کہ وہ کسی کو الو کا پٹھا کہ دے۔ یہ تمنا بڑی شریر تھی اور پھر کردار بھی منٹو کی تحریر کا تھا چنانچہ شدت حدت پکڑتی گئی یہاں تک کہ بے چینی کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ دن بھر قاسم صاحب اسی موقع کی تلاش میں رہے مگر پھر شعور کا پہرہ بڑا سخت تھا کہتے کہتے رہ گئے لیکن کب تک۔۔۔

غلام محمد یعنی قاسم کے ملازم نے حقہ دروازے کے بیچ رکھ دیا گویا کیا یہ کام کسی الو کے پٹھے کا ہے مگر نہیں۔۔۔ قاسم روز حقہ ادھر بیٹھ کے پیتا ہے اب اس ملازم کو دوش دینا مناسب نہیں۔ موقع ملا مگر تہذیبی کیفیت پیدا ہو گئی۔ اس نے سوچا کہ خواہش کے متعلق بیوی کو خبردار کر دے مگر پھر خیال آیا کہ بے سروپا سی اس حسرت کو بیان کر کے اپنے ذوق کی توہیں کرنا تو کہیں بڑی حماقت ہے اس طرح قاسم صاحب خود الو بننے سے بال بال بچ گئے۔ کیا وہ اس کی تکمیل کر سکا؟ ذرا منٹو کے کی زبانی واردات کا آخری حصہ ملاحظہ ہو۔

کشمیری گیٹ سے نکل کر جب وہ(قاسم) نکلسن پارک کے پاس سے گزر رہا تھا تو اسے ایک آدمی نظر آیا۔ ایک ہاتھ میں کُھلی ہوئی شلوار تھامے وہ دوسرے ہاتھ سے استنجا کر رہا تھا۔ اس کو دیکھ کر قاسم کے دل میں پھر اُلو کا پٹھا کہنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ لو بھئی، یہ آدمی ہے جس کو اُلو کا پٹھا کہہ دینا چاہیے یعنی جو صحیح معنوں میں اُلو کا پٹھا ہے۔ ذرا انداز ملاحظہ ہو۔ کس انہماک سے ڈرائی کلین کیے جارہا ہے۔ جیسے کوئی بہت اہم کام سرانجام پا رہا ہے۔ لعنت ہے۔ لیکن قاسم صحیح الدماغ آدمی تھا۔ اس نے تعجیل سے کام نہ لیا اور تھوڑی دیر غور کیا۔ میں اس فٹ پاتھ پر جارہا ہوں اور وہ دوسرے فٹ پاتھ پر، اگر میں نے بلند آواز میں بھی اس کو اُلو کا پٹھا کہا تو وہ چونکے گا نہیں۔ اس لیے کہ کم بخت اپنے کام میں بہت بُری طرح مصروف ہے۔ چاہیے تو یہ کہ اس کے کان کے پاس زور سے نعرہ بلند کیا جائے اور جب وہ چونک اٹھے تو اسے بڑے شریفانہ طور پر سمجھایا جائے، قبلہ آپ اُلو کے پٹھے ہیں۔ لیکن اس طرح بھی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہو گا۔ چنانچہ قاسم نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔ اسی اثنا میں اس کے پیچھے سے ایک سائیکل نمودار ہُوئی۔ کالج کی ایک لڑکی اس پر سوار تھی۔ اس لیے کہ پیچھے بستہ بندھا تھا۔ آنا فاناً اس لڑکی کی ساڑھی فری وہیل کے دانتوں میں پھنسی، لڑکی نے گھبرا کر اگلے پہیے کا بریک دبایا۔ ایک دم سائیکل بے قابو ہُوئی اور ایک جھٹکے کے ساتھ لڑکی سائیکل سمیت سڑک پر گر پڑی۔ قاسم نے آگے بڑھ کر لڑکی کو اٹھانے میں عجلت سے کام نہ لیا۔ اس لیے کہ اس نے حادثہ کے ردّ عمل پر غور کرنا شروع کردیا تھا مگر جب اس نے دیکھا کہ لڑکی کی ساڑھی فری وہیل کے دانتوں نے چبا ڈالی ہے اور اس کا بارڈر بہت بری طرح ان میں الجھ گیا ہے تو وہ تیزی سے آگے بڑھا۔ لڑکی کی طرف دیکھے بغیر اس نے سائیکل کا پچھلا پہیہ ذرا اونچا اُٹھایا تاکہ اسے گھما کر ساڑی کو وہیل کے دانتوں میں سے نکال لے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ پہیہ گھمانے سے ساڑھی کچھ اس طرح تاروں کی لپیٹ میں آئی کہ ادھر پیٹی کوٹ کی گرفت سے باہر نکل آئی۔ قاسم بوکھلا گیا۔ اس کی اس بوکھلاہٹ نے لڑکی کو بہت زیادہ پریشان کردیا۔ زور سے اس نے ساڑھی کو اپنی طرف کھینچا۔ فری وہیل کے دانتوں میں ایک ٹکڑا اڑا رہ گیا اور ساڑھی باہر نکل آئی۔ لڑکی کا رنگ لال ہو گیا۔ قاسم کی طرف اس نے غضبناک نگاہوں سے دیکھا اور بھنچے ہوئے لہجہ میں کہا۔

\’\’اُلو کا پٹھا۔ \’\’

ممکن ہے کچھ دیر لگی ہو مگر قاسم نے ایسا محسوس کیا کہ لڑکی نے جھٹ پٹ نہ جانے اپنی ساڑھی کو کیا کیا۔ اور ایک دم سائیکل پر سوار ہو کریہ جا وہ جا، نظروں سے غائب ہو گئی۔ قاسم کو لڑکی کی گالی سُن کر بہت دکھ ہُوا خاص کر اس لیے کہ وہ یہی گالی خود کسی کو دینا چاہتا تھا۔ مگر وہ بہت صحیح الدماغ آدمی تھا۔ ٹھنڈے دل سے اس نے حادثہ پر غور کیا اور اس لڑکی کو معاف کر دیا۔ اس کو معاف ہی کرنا پڑے گا۔ اس لیے کہ اس کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں۔ عورتوں کو سمجھنا بہت مشکل کام ہے اور ان عورتوں کو سمجھنا تو اور بھی مشکل ہو جاتا ہے جو سائیکل پر سے گری ہُوئی ہوں۔ لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اس نے اپنی لمبی جُراب میں اُوپر ران کے پاس تین چار کاغذ کیوں اڑس رکھے تھے

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments