کاغذ کے کونے پر لکھا آخری لفظ


\"zafar

دسمبر کی اس یخ بستہ بھیگی رات کو کیسے فراموش کیا جائے جب جلیل نے زندگی کا سچ سمجھایا تھا۔ ٹرین آٹھ گھنٹے لیٹ تھی۔ رات کسی پہر آب گم سٹیشن پر پہنچے تو اطلاع ملی کہ ٹرین مزید تین گھنٹے یہیں کھڑی رہے گی۔ ہم چھٹیاں منانے گھر جا رہے تھے۔ ڈبے میں ہم کوئی سات طلباء تھے جو اسلام آباد سے کوئٹہ جا رہے تھے۔ تاش اور لڈو سے تھک کر ارسطوگان ملت نے ”سچ“ کو تختہ مشق بنا لیا۔ Correspondence Theory پر بحث جاری تھی۔ تھوڑی دیر بعد ڈبے میں ایک سترہ ، اٹھارہ برس کا لڑکا داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ایک تھالی جس میں کچھ باسی کلچے تھے۔ رات کے اس پہر پانچ روپے کا باسی کلچہ بھی غنیمت تھا۔ حسب عادت غیر ضروری طور پر میں نے لڑکے کا نام پوچھا۔ ج ج جلیل۔ اس کی زبان میں لکنت تھی۔ اس کی توجہ میرے بجائے دوستوں کی جانب تھی جو سچ کو سچ ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ ایک خالی خالی سی نگاہ اس نے مجھ پر ڈالی اور منہ قریب لا کر آہستہ سے بولا۔ س س سچ کو کو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ س سچ یہ ہے کہ کہ میں میں اور آپ زندہ ہیں ہیں۔ (سچ کچھ نہیں ہوتا۔ سچ یہ ہے کہ میں اور آپ زندہ ہیں)۔

برسوں پہلے کسی کہانی میں پڑھا تھا۔ بھکشو نے لامہ سے پوچھا ، سچ کیا ہے مہاراج؟
لامہ تھوڑی دیر خاموش رہا۔ پھر گویا ہوا۔ سچ لمحہ موجود میں جینے کا نام ہے۔

مکرر عرض ہے کہ زندگی موت کے بطن میں پلتی ہے۔ کوئٹہ دھماکے میں شہید ہونے والے دوست کے بھائی کا ٹیلی فون آیا۔ ہم دونوں نے مل کر شاید کچھ آنسو بہائے ہوں گے۔ کہنے لگا بھائی کی ڈائری سے کچھ کاغذ نکلے۔ ایک درزی کی رسید تھی جس کے کونے پر بھائی نے اپنے قلم سے “Very Impo” لکھا تھا۔ مجھے کچھ تشویش ہوئی تو درزی کے پاس گیا۔ اسے رسید دی۔ اس نے ایک نیا جوڑا نکالا۔ کہنے لگا۔ صاحب دھماکے سے ایک دن پہلے آئے تھے۔ مجھے کپڑا دے کر کہنے لگے۔ اختربھائی۔ یہ جوڑا کل شام کو لازمی چاہیے۔ مجھے کچہری کے بعد شام کو کسی سے ملنا ہے۔

وہ شام مگر نہ آسکی۔ وہ شام اب کبھی نہیں آنی۔ میں اس علاقے کا باسی ہوں۔ جانتا ہوں کہ جب وہ پیدا ہوا ہو گا تواس کے باپ نے خوشی میں گاﺅں والوں کی دعوت کی ہو گی۔ جب وہ چند دن کا ہوا ہو گا تو اس کی ماں نے اس کی سنزلی ( بچے کو کپڑے میں لپیٹ کر اوپر سے کسنے والی پٹی) پر نیلا فیروزہ ٹانکا ہو گا۔ اس کے گلے میں نیلا دھاگہ کات کر پہنایا ہو گا۔ وہ جب راتوں کو روتا ہو گا تو ماں نے اٹھ کر پرانے ڈبوں میں سے پھٹکڑی کا ایک ٹکڑا نکال کر اس کے جسم پر پھیرا ہو گا۔ آگ جلا کر اس پر توا رکھا ہو گا اور اس پر پھٹکڑی کا ٹکرا رکھ کر اسے پگهلایا ہو گا تاکہ نظر اتر سکے۔ جب وہ بیمار ہوتا ہو گا تو اس کا باپ اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا ہو گا ۔ شام کو اس کی ماں نے ہمسائے سے ایک بچے کو بلوا کر اس کے ہاتھ پر بیس روپے اور ایک گلاس پانی گاﺅں کے مولوی کو بھجوا دیا ہو گا کہ اس پر دم کر دے۔ اس کی ماں جب کسی شادی بیاہ کی تقریب میں جاتی ہو گی تو پرس میں ضروری سامان کے ساتھ ایک چھوٹی سی پوٹلی میں ہرمل بھی ساتھ لے جاتی ہو گی۔ پھر وہاں رات کو چپکے سے اٹھ کر اپنے لال پر ہرمل پھیر کر اس کی دھونی دی ہو گی۔ جس دن وہ سات سال کا ہوا ہو گا اس دن صبح سویرے اسے سفید جوڑا پہنایا گیا ہو گا۔ وہ یقینا اس میں کسی معصوم فرشتے جیسا لگتا ہو گا۔ مہانوں کے آنے سے پیشتر اس کی بہن دوڑ کر باروچی خانے میں گئی ہو گی اور توے سے کالک لے کر ایک انگلی سے اس کے گلے پر نشان لگایا ہو گا۔ اس کے باپ نے دس سال مسلسل روز صبح گرمی سردی میں اسے موٹر سائیکل پر سکول چھوڑا ہو گا۔ وہ کالج گیا ہو گا۔ اس نے امتحانوں کی پریشانیاں اٹھائی ہوں گی۔ وہ راتوں کو بیٹھ کر پڑھا ہو گا۔ کتنے سالوں کی محبت تھی جو ایک پل میں مٹی ہوئی۔ کتنی آنکھوں کی امید تھی جو اب نہ رہی۔ غالب کا مصرعہ یاد آتا ہے کہ ، سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لئے۔

ایک دن گھر سے نکلا۔ درزی کو کپڑے دئیے۔ اس سے درخواست کی کہ کل شام کو کسی سے ملنا ہے اس لئے جلدی بنا دو۔ درزی نے وعدہ کیا۔ اسے رسید تھمائی۔ اس نے رسید کے کونے پر “Very Impo” لکھا۔ اگلے دن صبح کچہری پہنچا۔ اسے خبر ملی کہ بار کے صدر پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ اس نے اپنی ڈائری اور فائل اپنی ٹیبل پر رکھے اور ہسپتال کی جانب روانہ ہوا۔ مگر پلٹ نہ سکا۔ بیس دن بعد جب اس کا نیا جوڑا گھر آیا ہو گا تو ماں نے جانے کتنی بار اسے آنکھوں سے لگایا ہو گا۔ بہن کی جانے کتنی بار ہچکی بندھی ہو گی۔

ایک درد یہ تھا۔ ایک ملال مگر جینے میں بھی ہے۔ زندگی کی بہاروں میں پل پل کچھ دکھوں کے خسارے پوشیدہ ہیں۔ ایسا عام ہوتا ہے کہ کوئی دوست ناراض ہو جائے تو سوچتے ہیں ٹھیک ہے منا لیں گے۔ کبھی خیال آتا ہے میں کیوں بار بار مناﺅں۔ اس بار غلطی اس کی ہے۔ وہ منائے تو ٹھیک ورنہ میں نہیں منانے لگا۔ ماں کبھی غصہ کرتی ہے تو ہم ہاتھ جھاڑ کر کہتے ہیں ماں تم بھی ناں۔ بہن کوئی فرمائش کرتی ہے تو کہتے ہیں ایک تو تمہاری فرمائشیں ختم نہیں ہوتیں۔ چھوٹا بھائی پیسے مانگتا ہے تو کہتے ہیں میں درختوں سے نہیں اتارتا۔ ایسی بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن سے ہم روز کچھ رشتوں، کچھ محبتوں، کچھ امنگوں کے ڈور الجھا دیتے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ زندگی کی خوبصورتی انہی رشتوں میں تو ہے۔ گھر ریت بجری کی آمیزش سے تیار ڈھانچے کو نہیں کہتے۔ ان رشتوں سے گوندھے محبت کو گھر کہا جاتا ہے۔ ہم بہت کچھ مستقبل کی نظر کر دیتے ہیں۔ کل منا لیں گے۔ کل بات کر لیں گے۔ کل دیکھا جائے گا۔ کبھی کبھی یہ کل نہیں آتا۔ زندگی کے ورق پر آخری لفظ ’ بہت ضروری‘ لکھا رہ جاتا ہے۔

جلیل نے کہا تھا ، سچ یہ ہے کہ میں اور آپ زندہ ہیں۔ لامہ نے کہا تھا سچ لمحہ موجود میں جینے کا نام ہے۔ میں نہ لامہ ہوں اور نہ جلیل۔ گیان بانٹنا ان جیسے آشفتہ سروں کا کام ہے۔ میں تو ایک عام انسان ہوں۔ یہ سوال خود سے کر رہا ہوں کہ کیا میں نے کبھی لمحہ موجود میں جینے کو اہم سمجھا ہے؟ میرا جواب نفی میں زیادہ ہے۔ آپ اپنے دل سے پوچھ کر اپنا جواب خود ڈھونڈیں۔ لمحہ موجود کا سچ مگر جان لینا چاہیے۔ سچ یہ ہے کہ میں اور آپ ابھی زندہ ہیں۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments