میں ٹھیک تم غلط، نہ مانو تو بھگتو اب


کچھ کام کے لئے خبر چاہیے تھی تو واٹس ایپ کے وہ گروپس جو بنے تو خبروں کے لئے ہیں لیکن ان میں ایک ہی وقت میں آنے والے بیہودہ لطائف سے ایمان افروز وظائف اور احادیث کے تبادلوں میں خبر کم لوگ اپنی خوبیاں زیادہ بیان کرتے نظر آتے ہیں ٹویٹر کی طرف جانے پر مجبور کردیتے ہیں۔ ایک وقت تھا بلکہ ابھی بھی ہے کہ خبر کم وقت میں آپ کو ٹویٹر سے مل جاتی ہے۔ ایک تاثر یہ بھی تھا کہ اس فورم کو پڑھا لکھا طبقہ استعمال کر رہا ہے لیکن اب یہاں بھی ٹھرکیوں، خاموش تماشائیوں اور آگ میں تیل ڈالنے والی کی کمی نہیں نتیجہ یہ نکلا کہ پڑھے لکھے سفید گینڈوں کی نسل کی طرح اکا دکا رہ گئے اور وینا ملک کو سراہنے والے بازی لے گئے۔

ویسے وینا ملک بھی خوب ہیں مذہب، حب الوطنی سکھانے کے بعد اب وہ آج کل ہدایت دینے کی فری کلاسز نہ صرف دے رہی ہیں بلکہ اب وہ سرٹیفائڈ دفاعی تجزیہ کار بھی بن گئی ہیں۔ میں آج کل دفاعی تجزیہ کاروں کی وہ لسٹ ڈھونڈ رہی ہوں جو آئی ایس پی آر نے جاری کی تھی۔ کیا اس میں وینا ملک کا نام بھی تھا؟ یا نئی لسٹ جلد جاری ہوگی؟ ایک آنٹی جو ٹویٹر کو خبروں تک رسائی کا سب سے بہترین ذریعہ سمجھتی تھیں انھوں نے اپنا اکاونٹ یہ کہہ کر بند کردیا کہ اب ٹویٹر کسی ”کنجر خانے“ سے کم نہیں کبھی سیاسی مجرا لگ جاتا تو کبھی دفاعی۔

یہ لوگ کام کم ٹویٹ پر ہی محاذ جنگ اور اسمبلی لگائے بیٹھے ہیں سو میں نے تو یہ اکاونٹ ہی بند کردیا۔ آنٹی ثریا کی بات نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ کیا کوئی سوشل میڈیا کسی کے بھی ذہن پراتنا برا اثر ڈال سکتا ہے کہ وہ خبر جاننے کے حق سے محروم ہونے کو ہی عافیت سمجھے؟ یہ بات ثابت ہوگئی جب میں نے فیس بک سے ہٹ کر ٹویٹر کو زیادہ وقت دینا شروع کیا۔ علاقائی تعصب، زبان، رنگ، نسل پر بات کر نے کے ساتھ ساتھ ذاتی حملے اور پھر جب دلیل ختم ہوجائے تو شور بڑھنے لگتا ہے۔ جہاں ایک کو لگے کہ اب اس کی بات میں دم نہیں تو وہ ماں بہن کی گالیاں دینے پر اتر آتا ہے۔

پاکستان نے اپنے پہلے میچ میں جس ناکامی کا سامنا کیا وہاں ایک حضرت نے ٹویٹ کیا جو اپنی پروفائل کے مطابق پڑھے لکھے بھی تھے اور فولووزر بھی زیادہ رکھتے تھے، لکھتے ہیں ”ماں بہن کی گالیاں دینے کو جی کر رہا ہے“۔ اب کوئی پوچھے اگر تم جیسا پڑھا لکھا معزز شخص ماں بہن کی گالیوں کو درست عمل سمجھتا ہے تو اوروں سے کیا شکوہ؟ انھیں ایک جواب دیا اور پھر اس کے جوا ب میں گالیاں دینے والی عوا م جو مجھے فیمینسٹ سمجھی مجھے ان مغلظات سے نوازنے لگی۔

ٹو ئیٹر پر ہر صحافی لفافہ سمجھا جاتا ہے، حکومت پر تنقید کرنے والا پٹواری، فوج کو سیاست میں دخل اندازی نہ کرنے کا مشورہ دینے والا غدار اور جنگ کے خلاف بولنے والا مودی کا یار۔ جو بچتا ہے وہ فیمینسٹ اور جو بات امن کی کرے اور کہے کہ بگڑے لوگ سنبھالو روٹھے یار منالو وہ پی ٹی ایم کا سپورٹر۔ خدارا اب یہ حب الوطنی اور غداری کے دو ٹکے کے سرٹیفیکٹس بانٹنا بند کریں۔ اگر اتنا ہی شوق ہے کہ آپ کے علاقے کی سڑک ٹھیک ہوگئی، پانی آگیا، گٹر کھل گیا تو اس کی ستائش کے لئے گن گانے کے کیے دوسروں کی وال کو دیوار سیاست نہ بنائیں اپنا الگ سے پیج بنالیں۔ آپ کو کسی کی رپورٹنگ سے مسئلہ ہے؟ آپ کو بازار سے پسند کی جوتی نہیں ملی، آپ کو برانڈڈ جوڑا اور میک مل گیا تو اس کی تشہیر کہیں اور کر دیں ہر کوئی آپ کے اس عمل کو سراہنے کے لئے نہیں بیٹھا۔ کچھ لوگ اس سوشل میڈیا کو مجبورا اور کام کے وجہ سے بھی استعمال کرتے ہیں۔

کیونکہ انسٹا گرام اور اسنیپ چیٹ تو صرف خوشی اور پاگل پن کے لمحات کے لئے ہے لیکن فیس بک اور ٹویٹر پر خبر کی اہمیت اور حساسیت کو آپ جیسوں نے ایسا ختم کیا ہے جیسے پاکستان سے گھڑیال کی نسل ختم ہوگئی۔ جن ناپسندیدہ رشتے داروں اور زہریلے لہجے رکھنے والوں سے آپ ملنا ترک کر دیتے ہیں، ان کے نمبرز بلاک کردیتے ہیں یا اگر غلطی سے وہ نظر بھی آجائیں تو آپ جگہ تبدیل کرلیتے ہیں یہاں تو ایسا بھی ممکن نہیں۔ کتنوں کو بلاک کریں گے؟

کتنے کو سمجھائیں گے یہاں تو ہر کوئی عالم دین ہے، مہان سیاستدان ہے، دفاعی تجزیہ کار ہے، کھیل کا راجہ اور دوسروں کا بینڈ بجاتا دکھائی دے رہا ہے۔ زندگی کے بہت سے اہم مسائل میں اب یہ سوشل میڈیا جتنا زہریلہ اور غ صیلہ بن چکا ہے اس سے اب لوگوں کے رویوں میں وہ بدلاؤ آیا ہے جو پہلے نہ تھا۔ کل تک کوئی کسی کی ماں بہن کو بھرے بازار آواز لگانے کی جرات نہ کرتا تھا آج اس سوشل میڈیا پر اس کی ردا کو تار تار کرنا اپنا سیاسی اور انفرادی حق سمجھتا ہے۔

کل تک ہر کوئی سمجھتا تھا کہ جو کچھ اس کے باپ، بھائی یا اس نے خریدا ہے وہ ا س پر جتنی شکر گزاری کرے کم ہے آج نمودو نمائش کرنے والوں نے خدا سے اس کے شکر گزار بھی چھیننے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ جن دوستوں کے ساتھ یونیورسٹی، کالج میں آپ سموسہ اور کولڈ ڈرنک بھی شئیر کر کے گزارہ کر لیا کرتے تھے آج محض سیاسی نظریات کے ٹکراؤ نے وہ لازوال تعلق اور دوستیوں کو بھی دو کوڑی کا کردیا ہے۔ خدارا! اس سوشل میڈیا کو استعمال کیجئے پر کسی کا استحصال نہ کیجئے۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar