تحریک انصاف کا جمہوریت دشمن رویہ


\"edit\"پاکستان تحریک انصاف جمہوری نظام کے تسلسل کی بات کرتی ہے لیکن ملک میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی لانے اور حکومت کو ختم کروانے کےلئے وہ کوئی بھی ہتھکنڈہ اختیار کرنے پر تیار ہے۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کراچی کے صدر علی زیدی کا آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو لکھا گیا خط جمہوریت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اس خط میں کراچی کے حالات اور ایم کیو ایم کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے جنرل راحیل شریف سے کہا گیا ہے کہ وہ متحدہ قومی موومنٹ پر پابندی لگانے کا اہتمام کریں۔ ایک جمہوری پارٹی کے لیڈر نے یہ خط اس گمان کی بنیاد پر لکھا ہے کہ پاکستانی جمہوریت میں عوامی حکمرانی کے خواہ جیسے بھی نعرے بلند کئے جائیں، اصل فیصلہ پاک فوج کے سربراہ کا ہی ہوتا ہے۔ اس لئے اپنا کوئی مطالبہ منوانے کےلئے راست اور قانونی طریقہ اختیار کرنے کی بجائے فوج کے سربراہ سے مداخلت کی درخواست کی گئی ہے۔ دوسری طرف پارٹی کے سربراہ عمران خان کی طرف سے آج سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے جس میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی ہے وہ وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے اور ان سے قومی اسمبلی کی نشست بھی واپس لی جائے۔ آرمی چیف کے نام خط میں ایک سیاسی پارٹی پر پابندی اور سپریم کورٹ سے وزیراعظم کی برطرفی کے مطالبے کرنے کی بجائے عمران خان اینڈ کمپنی ان دونوں اداروں سے یہ کیوں نہیں کہتی کہ اقتدار ان کے حوالے کیا جائے!

عمران خان عوام کی حمایت اور ووٹ کی طاقت سے ملک میں تبدیلی لانے کا نعرہ لگاتے ہوئے میدان سیاست میں اترے تھے۔ انہیں ایک دیانتدار اور سچے شخص کی شہرت بھی حاصل رہی ہے۔ اسی لئے لوگوں کی کافی بڑی تعداد نے 2013 کے انتخاب میں انہیں ووٹ بھی دیا تاکہ وہ تبدیلی لانے کے خواب کی تکمیل کےلئے کام کا آغاز کر سکیں۔ لیکن لگتا ہے کہ عمران خان کےلئے جمہوریت اور عوام کی حمایت سے برسر اقتدار آنے کا راستہ طویل اور کٹھن ہو چکا ہے۔ وہ بزعم خویش یہ مان چکے ہیں کہ صرف وہ سچ بولتے ہیں، صرف انہیں حقائق کا علم ہے ، صرف وہ ملک کو چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔۔۔۔ باقی سب سیاستدان یا تو جھوٹے ہیں یا پھر نااہل اور بدعنوان ہیں۔

اس قسم کی غلط فہمی کا شکار کوئی شخص کسی جمہوری نظام میں قائدانہ صلاحیت کا مظاہرہ کرنے کے قابل نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی گمراہی میں سادہ لوح لوگوں کو بھی بدگمان کرنے اور انتشار پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھی مسلسل یہی کام کر رہے ہیں۔ انہیں اس بات سے غرض نہیں ہے کہ ملک نہایت مشکل اور بحرانی دور سے گزر رہا ہے۔ ملک میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے۔ خارجی تعلقات کے حوالے سے دیرینہ حلیف امریکہ نے آنکھیں بدل لی ہیں۔ وہ پاکستان پر افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرنے کا الزام لگاتا ہے لیکن بھارت کے ساتھ شیر و شکر ہو رہا ہے۔ حالانکہ وہاں پر ایک ایسا شخص حکمران ہے جسے وزیراعظم بننے سے پہلے گجرات میں نسل پرستانہ اور فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کی وجہ سے امریکی ویزا بھی نہیں دیا جاتا تھا۔ افغانستان اپنے طور پر پاکستان سے ناراض ہے اور بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف حصار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ملک کے اندر سیاسی چپقلش اور بحران کی وجہ سے تمام اقتصادی منصوبے بے یقینی کا شکار ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے کثیر سرمایہ کاری اور خوشحالی کی امید کی جا رہی ہے ۔۔۔۔۔ لیکن سیاسی بازی جیتنے کے خواہاں سیاستدان سی پیک منصوبے پر بھی اتفاق رائے کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں۔

اس بحرانی صورتحال کے باوجود عمران خان احتجاج کرنے، ریلیاں نکالنے، حکومت پر جھوٹے سچے الزامات عائد کرنے اور ہر قیمت پر نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کےلئے کچھ بھی کرنے پر آمادہ و تیار بیٹھے ہیں۔ جمہوری عمل کے نام پر ان کی ہر بے ادائی کو ان کا سیاسی و جمہوری حق سمجھ کر قبول کیا جاتا ہے۔ حالانکہ عمران خان اور تحریک انصاف نے 2013 کا انتخاب منعقد ہونے کے بعد سے نہ تو منتخب نمائندوں کے طور پر اپنا فرض ادا کیا ہے اور نہ ہی جمہوری عمل کو مستحکم کرنے میں وہ کردار ادا کر سکے ہیں، جس کی توقع ہر ذمہ داری شہری سے بالعموم اور سیاسی لیڈروں سے بالخصوص کی جاتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے 2014 میں انتخابات میں دھاندلی کا نعرہ بلند کرتے ہوئے دھرنے کا ڈرامہ رچایا اور اس دوران پی ٹی وی پر حملہ کے علاوہ وزیراعظم ہاؤس اور پارلیمنٹ کا گھیراؤ کیا گیا۔ عمران خان کی ہر ممکن کوشش تھی کہ فوج اس صورتحال میں مداخلت کرے اور ملک میں جمہوری نظام کا بستر گول کر کے ان کی ’’دیانتدار‘‘ حکومت قائم کروا دی جائے۔

آرمی چیف نے جب ان کی یہ خواہش پوری نہیں کی تو انہیں مجبوراً دسمبر 2014 میں دھرنا ختم کرنا پڑا۔ اور جس اسمبلی کے ارکان کے خلاف وہ دھرنے کے دوران دشنام طرازی کرتے رہے تھے، اسی میں اپنی استعفیٰ زدہ رکنیت بحال کروانے کےلئے وہ مسلم لیگ (ن) کی حمایت لینے پر بھی آمادہ ہو گئے۔ وہ سیاسی حوصلے یا ذاتی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے فیصلے پر قائم نہ رہ سکے۔ کیونکہ یہ استعفے تو اس امید پر دیئے گئے تھے کہ فوج ان کی اسلام آباد پر یلغار کے بعد نواز شریف حکومت کو گھر بھیج کر عمران خان کو تخت نشین کروانے کا اہتمام کرے گی۔ یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا تو رکن اسمبلی کے طور پر تنخواہوں اور مراعات سے محروم ہونا بھی گوارا نہ کیا گیا۔ حالانکہ تحریک انصاف نے بطور جماعت اور عمران خان نے بطور منتخب رکن قومی اسمبلی کوئی سیاسی کردار ادا نہیں کیا۔ وہ الزام لگانے اور بہر صورت ملک میں ہیجان اور انتشار کی کیفیت برقرار رکھنے کےلئے سرگرم عمل ہیں۔

جمہوری نظام ہر قسم کے رویہ کو قبول کرنے کا نام ہے۔ اس لئے سیاسی لحاظ سے بداخلاقی پر مبنی طرزعمل کے باوجود ان لوگوں کو قبول کر لیا گیا۔ اتفاق یا اختلاف کے باوجود ہر شخص اور سیاستدان یہ حق رکھتا ہے کہ وہ مختلف معاملات پر اپنے خیالات کا اظہار کرے اور مقاصد کے حصول کےلئے طریقہ کار طے کرے۔ اگرچہ سپریم کورٹ سے ایک منتخب وزیراعظم کو ناہل قرار دینے کی درخواست کرنا بھی جمہوری سیاسی رویہ نہیں ہے لیکن یہ طریقہ بہرحال آئین کی ان حدود میں شامل ہے جو معاشرہ میں سیاست کرنے کےلئے مقرر کی گئی ہیں۔ تاہم جب پاکستان تحریک انصاف کراچی کے صدر آرمی چیف سے متحدہ قومی موومنٹ پر پابندی لگانے اور اس کی قیادت کو غدار قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ سارے مسلمہ جمہوری و اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔

کراچی کی صورتحال اور الطاف حسین کی پاکستان دشمن تقریروں سے ملک کا ہر شہری پریشان اور ناراض ہے۔ سیاسی پارٹیاں اس بات پر متفق ہیں کہ کسی بھی شخص کو پاکستان کے خلاف نعرے بازی کرنے اور اپنے حامیوں کے ذریعے میڈیا ہاؤسز پر حملے کروانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ 22 اگست کو الطاف حسین کی مغلظات سے پر پاکستان دشمن تقریر کے بعد پاکستان میں اس پارٹی کے لیڈر بھی لندن میں موجود قیادت سے فاصلہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار ایک سے زیادہ بار میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے الطاف حسین کے بیان کی مذمت کر چکے ہیں۔ عوامی ناپسندیدگی کے دباؤ کو محسوس کرتے ہوئے بالآخر انہوں نے الطاف حسین کو بھائی یا قائد تحریک کہنے سے بھی گریز کیا ہے۔

امور سیاست میں کوئی دلوں کا حال نہیں جانتا۔ اس لئے کسی الزام کی بنیاد پر کسی سیاسی لیڈر یا جماعت کو نہ تو مسترد کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے کام کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔ اگر الطاف حسین کو اپنی بدکلامی کی سزا ملنی چاہئے یا ان کے اشارے پر جرائم میں ملوث لوگوں کو قانون کے مطابق عواقب کا سامنا کرنا پڑے گا تو یہ بھی اسی نظام کا حصہ ہے کہ جس شخص پر کوئی جرم ثابت نہیں ہے، اسے نہ تو قید کیا جا سکتا ہے اور نہ اسے جمہوری طریقے سے سیاسی کام کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار اپنے ساتھیوں کے ہمراہ وہی حق استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام نے ایم کیو ایم کو جو مینڈیٹ دیا ہے، اس کا احترام کیا جائے اور جو نمائندے کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں ہیں، انہیں اپنے فرائض ادا کرنے کا موقع ملے۔ ملک میں متوازن سوچ رکھنے والے مبصر اس بات سے متفق ہیں کہ کسی مقبول سیاسی پارٹی پر پابندی لگا کر نہ تو جمہوریت کی خدمت کی جا سکتی ہے اور نہ ہی کراچی ، حیدر آباد وغیرہ کی صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے۔ اس کے برعکس اگر ڈاکٹر فاروق ستار ایم کیو ایم پاکستان کو واقعی الطاف حسین سے علیحدہ کرتے ہوئے فعال بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ملک کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومت کے نمائندے وزیر اطلاعات پرویز رشید نے ایم کیو ایم پر پابندی لگانے کو غیر ضروری فعل قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف یہ کوشش کی جائے گی کہ ملک میں الطاف حسین کےلئے سیاسی امکانات ختم کر دیئے جائیں تو دوسری طرف یہ بھی ذہن میں رکھنا ہو گا کہ ماضی میں سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر کے کبھی کوئی خوشگوار صورتحال سامنے نہیں آئی۔ کسی سیاسی لیڈر کو مسترد کرنے کا سب سے بہتر طریقہ سیاسی میدان میں اس کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔

حقیقت حال یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف دعوے کرنے اور دھاندلی کا شور مچانے کے باوجود کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کا زور توڑنے اور اس کا سیاسی مقابلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ اب پی ٹی آئی کراچی کے صدر علی زیدی نے آرمی چیف کے نام خط میں دعویٰ کیا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں پارٹی کی ناکامی دراصل سندھ رینجرز کے نااہلی تھی کہ وہ انتخابات میں ایم کیو ایم کی دھاندلی رکوانے کےلئے موثر اقدام نہیں کر سکے تھے۔ متحدہ کے خلاف جذباتی فضا میں ایک ہاری ہوئی پارٹی کی طرف سے اس قسم کا دعویٰ شکست خوردہ ذہنیت کی علامت ہے۔ اگر یہ حقیقت ہے کہ متحدہ نے کراچی اور حیدر آباد پر کنٹرول کے لئے عسکری ونگ قائم کئے اور ان کے ذریعے لوگوں کو ہراساں کیا تو یہ بھی اتنا ہی بڑا سچ ہے کہ رینجرز کی کارروائی اور احتجاج اور مظاہرے کی قوت ختم ہونے کے باوجود ایم کیو ایم نے اپنا ووٹ بینک قائم رکھا ہے۔ اس نے نہ صرف تمام ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی بلکہ بلدیاتی انتخابات میں بھی مخالفین کو خاک چٹوائی ہے۔

خبر ہے ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے ساتھی پارٹی کا آئین تبدیل کر کے اس میں سے الطاف حسین کے اختیارات اور وابستگی کی شقات کو حذف کرنے کےلئے اقدامات کرنے والے ہیں اور جلد ہی یہ ترمیم شدہ آئین الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پیش کیا جائے گا۔ اس طرح ایم کیو ایم پاکستان میں باقاعدہ طور سے الطاف حسین سے اپنا تعلق ختم کرنے کا ثبوت فراہم کر دے گی۔ یوں ایک ایسے شخص کو جو کل تک پارٹی کے سیاہ و سفید کا مالک تھا، پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی سبق آموز سزا مل سکے گی۔ ترمیم شدہ آئین کے تحت سامنے آنے والی ایم کیو ایم اور اس کے قائد اگر اپنی ثابت قدمی اور محنت سے پارٹی کے ووٹروں کو بھی ساتھ لے کر چلنے میں کامیاب ہوئے تو یہ اس بات کا واضح پیغام ہوگا کہ جمہوری نظام میں سیاسی طریقوں سے ہی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔

اس کے برعکس تبدیلی کی داعی اور قانون و آئین کی سربلندی کی دعویدار جماعت فوج سے سیاسی عمل میں مداخلت کرنے اور ایک سیاسی پارٹی پر پابندی لگانے کا غیر قانونی مطالبہ کر رہی ہے۔ اس رویہ سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ تحریک انصاف کی صفوں میں جمہوریت ہی نہیں قانون کا احترام کرنے کے جذبہ کی بھی کمی ہے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کے مرکزی قائدین اگر علی زیدی کے خط کو مسترد کرنے اور ان کے خلاف پارٹی قواعد کے مطابق تادیبی کارروائی کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو تحریک انصاف کا جمہوریت پر عدم اعتماد ثابت ہو جائے گا۔ یہ اس پارٹی کے حامیوں کےلئے ایک بری خبر ہو گی۔ پاکستانی جمہوریت کو بھی اس سے شدید دھچکہ لگے گا کہ ملک کی تیسری بڑی سیاسی نمائندہ جماعت غیر جمہوری اور غیر آئینی ہتھکنڈوں پر یقین رکھتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments