سعودی شہزادہ اسلام آباد میں


\"edit\"سعودی عرب کے وزیر دفاع اور نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے چین جاتے ہوئے اسلام آباد میں مختصر قیام کیا لیکن ان چند گھنٹوں کے ٹرانزٹ کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کرنے کے علاوہ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے رات گئے جی ایچ کیو میں ملاقات کی۔ سعودی عرب اپنے دفاع اور اسٹریجک مفادات کے سلسلہ میں پاکستان سے یقین دہانی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ خاص طور سے مشرق وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورت حال، امریکہ کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات میں دوری اور یمن کی جنگ میں مسلسل ناکامی سے پیدا ہونے والے حالات سعودی عرب کے لئے پریشانی کا سبب ہیں۔ پاکستان کی قیادت متعدد بار سعودی رہنماؤں کو یقین دلاچکی ہے کہ اس کی سالمیت پر کوئی حملہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔

پاکستان کی پارلیمنٹ نے سعودی عرب کی خواہش اور مطالبے کے برعکس یمن کی جنگ میں عملی شرکت سے انکار کیا تھا۔ لیکن دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تعاون کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کے ایک ہزار فوجی مشیر سعودی عرب میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اسلام آباد اور راولپنڈی میں ہونے والی ملاقاتوں کے بارے میں سرکاری طور پر کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئیں بلکہ صرف یہ خبر سامنے آئی ہے کہ شہزادہ محمد نے روانگی کے بعد ایک پیغام میں وزیر اعظم نواز شریف کا شکریہ ادا کیا ہے اور کہا کہ اس مختصر دورہ کے دوران ایک بار پھر واضح ہو گیا ہے کہ دونوں ملک گہرے اسٹریجک رشتہ میں بندھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی پریس ریلیز بھی صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا گیا ہے کہ جنرل راحیل شریف کے ساتھ شہزادہ محمد بن سلمان کی ملاقات میں مشرق وسطیٰ اور علاقائی سیکورٹی کی صورت حال اور باہمی تعاون کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔ اس قسم کے بیانات سے دو طرفہ تعلقات کی اہمیت کا اندازہ تو ہوتا ہے لیکن ان کی نوعیت اور دو ملکوں کے درمیان ہونے والے معاہدے یا افہام و تفہیم کے بارے میں ذیادہ تفصیلات سامنے نہیں آتیں۔

سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے قریبی تعلقات استوار ہیں لیکن پاکستان کی اقتصادی مجبوریوں اور پاکستانی عوام کے حرمین شریفین کے ساتھ عقیدت کے رشتہ کی وجہ سے یہ تعلقات متوازن نہیں رہے۔ سعودی عرب نہ تو پاکستان کا ہمسایہ ہے اور نہ ہی مذہبی جذباتی وابستگی اور کسی حد تک اقتصادی تعاون کی امید کے علاوہ ان دونوں ملکوں کے درمیان کوئی قدر مشترک ہے۔ سعودی عرب سب ملکوں کی طرح اپنے مفادات کی روشنی میں خارجہ اور سیکورٹی پالیسی استوار کرتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ بھارت پاکستان کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہے، سعودی شاہ ، وزیر اعظم نریندر مودی کا فراخدلانہ استقبال کرکے یہ واضح کر چکے ہیں کہ انہیں اس سے غرض نہیں ہے کہ پاکستان اپنے ہمسایوں کے ساتھ کس قسم کی مشکلات کا شکار ہے۔ اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت اور عوامی تحریک کو دبانے کے لئے طاقت کے بے دریغ استعمال کے خلاف بھی دوست عرب ملکوں سے کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی۔ نہ ہی کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کے لئے پاکستان کی سفارتی کوششوں میں سعودی عرب سمیت کوئی دوسرا ملک اس کا ساتھ دینے پر تیار ہؤا ہے۔

پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سعودی عرب نے پاکستان میں ہم خیال مذہبی تنظیموں کے ذریعے مدارس کا جال بچھایا ہے اور اپنے لئے سفارتی اور سیاسی بنیاد فراہم کی ہے۔ قومی ایکشن پلان کے تحت ایسی بہت سی سرگرمیاں اب قومی مفاد کے خلاف قرار پارہی ہیں اور قسم کے اداروں کے ذریعے انتہا پسندی کی تبلیغ سے ملک کو متعدد مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ پاکستان کو سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ان تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔

سعودی عرب یمن جنگ کی دلدل میں پھنسنے کی وجہ سے پریشان ہے۔ اس کے علاوہ شام میں جنگ بندی کے لئے امریکہ اور روس معاہدہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ معاہدہ ہونے کی صورت میں شام میں سعودی عزائم کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں اب پہلے جیسی گرمجوشی موجود نہیں ہے۔ اگرچہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے بعد سعودی عرب ہی امریکہ کا قریب ترین حلیف سمجھا جاتا ہے۔ لیکن دونوں ملکوں کے درمیان کئی معاملات پر اختلافات بھی سامنے آرہے ہیں۔ امریکہ میں 9/11 حملوں میں سعودی عرب کو ذمہ دار قرار دینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ انتہا پسند گروہوں سے سعودی عرب کے تعلقات کے حوالے سے بھی بے چینی پائی جاتی ہے۔ ان حالات میں سعودی عرب پاکستان کے ساتھ فوجی مراسم بڑھانے اور ضرورت پڑنے پر پاک فوج کی اعانت کو یقینی بنانے کی خواہش رکھتا ہے۔

پاکستان کو اس بارے میں کوئی وعدہ کرتے ہوئے اپنے مفادات کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے علاوہ بھارت اور افغانستان کے جارحانہ طرز عمل کے سبب پاکستان مشرق وسطیٰ کے دور دراز علاقے میں فوجی مدد فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس کے علاوہ پاکستان کی حکومت کو یہ بات بھی یقینی بنانا ہوگی کہ سعودی عرب ہو یا کوئی دوسرا ملک، باہمی تعلقات مشترکہ مفادات کے نقطہ نظر سے استوار ہوں اور کسی ملک کو اپنے سرمایہ یا اثر و رسوخ کی وجہ سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا حق نہ دیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments