کُلاچی صاحب آرہے ہیں: غیر سیاسی پوسٹ
’’کُلاچی صاحب آرہے ہیں۔‘‘
کوئی بچہ نعرہ لگاتا اور پورا اسکول دم سادھ لیتا۔ ہر طرف خاموشی پھیل جاتی۔ بہت سے احترام اور تھوڑے سے خوف میں گندھی ہوئی خاموشی۔
کُلاچی صاحب گورنمنٹ ہائی اسکول خانیوال کے ہیڈماسٹر تھے۔ وہ بہت بڑا اسکول تھا۔ اب بھی ہے۔ کئی ایکڑ پر پھیلا ہوا۔ بڑے بڑے میدان تھے۔ سیکڑوں درخت لگے تھے۔ اُن پر ہزاروں پرندے چہچاتے تھے۔ یہ 1985 کا ذکر ہے۔ میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ اُس وقت وہاں چھٹی سے دسویں تک کی جماعتیں تھیں۔ ہر جماعت کے چھ سیکشن۔ ہر سیکشن میں سو سو بچے۔ کچھ شہر، بیشتر قرب و جوار کے دیہات کے بچے۔ تین ہزار شرارتی، لڑاکا اور غدر مچانے والے بچے۔
میرے بچپن کے دوست اور کلاس فیلو نثار احمد خان، عمر احمد خان نیازی اور کرار حیدر فیس بک پر میرے ساتھ ہیں۔ انھیں وہ وقت یاد ہوگا۔ ایک آواز آتی تھی اور چار سُو سناٹا چھا جاتا تھا۔
بچے تو بچے، ایسا لگتا تھا کہ درختوں پر غُل مچاتے پرندے بھی دبک گئے ہیں۔
ہیڈ ماس صاحب صبح اسمبلی میں آتے تو سب طلبہ اٹین شن ہوجاتے۔ سب کا پیٹ اندر، سینہ باہر، لیفٹ رائٹ لیفٹ رائٹ۔ ہیڈ ماس صاحب آدھی چھٹی میں اپنے کمرے سے نکل آتے تو بچے کھیلنا بھول جاتے۔ اوپر کا سانس اوپر، نیچے کا نیچے رہ جاتا۔ ہیڈ ماس صاحب کسی کلاس میں تشریف لے آتے تو استاد پڑھانا بھول جاتا، بچوں کا دل اچھل کے حلق میں آجاتا۔ نہ جانے کیا پوچھ لیں جو مجھے معلوم نہ ہو، یاد نہ ہو۔ معلوم ہو تب بھی یاد نہیں آتا تھا۔ جسم پسینے میں بھیگ جاتا تھا۔
کُلاچی صاحب کبھی کبھی گرجتے برستے بھی تھے لیکن زبان سے زیادہ اُن کی آنکھیں پورے اسکول کو ڈسپلن کا پابند بناتی تھیں۔ وہ نظر کبھی شعلہ بار ہوتی تو بدن میں تھرتھری دوڑ جاتی۔ وہ نظر کبھی مائل بہ کرم ہوتی تو خون میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی۔
خانیوال کا باقی احوال پھر کبھی، اِس وقت صرف جیونیوز کے دوستوں سے مخاطب ہوں:
’دوستو! کُلاچی صاحب آگئے ہیں!‘
- بابائے امریکہ کو سلام - 04/07/2022
- آصف فرخی: انھیں تنہائی نے مار ڈالا - 03/06/2022
- امروہے کے ماموں اچھن - 19/12/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).