آخر پاکستان ہی کیوں؟


\"Shahid 2013 کے اوائل میں چند نوجوانوں کے ایک جتھے نے کچھ نیا کرنے کی ٹھانی اور ایک ویب ٹی وی کا آغاز کیا۔ کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ تو پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا ۔ لیکن زندگی کے تجربات میں ایک اچھا اضافہ ضرور ہوا۔ کاشف منہاس نے ایک دن اچانک کال کی کہ ہم پہلی رپورٹ بنانے جا رہے ہیں۔ پاک ترک انٹرنیشنل سکول میں ایک تقریب تھی اس میں شرکت کا دعوت نامہ تھا۔ یہ ہمارے تجربے کی ابتداءتھی۔ پاک ترک انٹرنیشنل سکولز اینڈ کالجز ایک ایسا مربوط نظام ہے ۔ جو ملک کے دس سے زائد شہروں میں کامیابی سے تعلیمی ادارے چلا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس سکول سسٹم کے زیر انتظام ہی اسمو (ISMO) کا کامیابی سے انعقاد کیا جا رہا ہے۔ یہ پاکستان بھر کے سرکاری ، نیم سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے ہونہار طالبعلموں کے درمیان ہونے والا ریاضی کا ایک مقابلہ ہے جس کے فاتح کو \”الخوارزمی آف پاکستان\” کا ٹائٹل دیا جاتا ہے اور انعام سے نوازا جاتا ہے۔

1995 سے اپنی ابتداءسے لر کر اور پھر 1999 میں پاک ترک انٹرنیشنل ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کے زیر سایہ آنے تک یہ نظامِ سکول نہ صرف تعلیم کے میدان میں ایک واضح معیار قائم کر چکا ہے۔ بلکہ سماجی ذمہ داری کے حوالے سے بھی اپنا مقام بنا رہا ہے۔ 2005 کے زلزلے کے دوران تباہ ہونے والے سکولوں کی تعمیر نو ہو یا اسکالر شپس کی تقسیم یہ ادارہ مضبوط بنیادوں پہ استوار ہو رہا ہے۔ اس نظام کے تحت کم و بیش 10ہزار طالبعلم تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اپنی بہترین خدمات کی وجہ سے ہی اس ادارے کو جون 2006 میں صدرِ پاکستان کی جانب سے ستارہءایثار سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ 1995 میں وزارت تعلیم پاکستان و وزارت خارجہ پاکستان کے ساتھ ہونے والے معاہدات اور 1999 میں اکنامک افیئرز ڈویژن کے ساتھ ہونے والی مفاہمت کی یادشت اس بات کا مظہر ہیں کہ یہ ادارہ پاکستان کے مروجہ قوانین و ضوابط کے تحت کام کر رہا ہے۔ اس ادارے کا تمام تر دارومدار پاکستان اور ترکی کے مخیر حضرات کی طرف سے دی جانے والی امداد پر ہے۔

15جولائی 2016 کو جب ترکی میں ناکام فوجی بغاوت ہوئی تو اس کے اثرات اس تعلیمی ادارے پر بھی پڑے ۔ باوجود اس کے کہ اس ادارے نے باقاعدہ اس بات کا اعادہ کیا کہ ان کا کسی طرح بھی کسی ایسے عنصر سے تعلق نہیں جو ترکی میں حالات کی خرابی کا ذمہ دار ہے پھر بھی اس ادارے کے دروازے پہ ہمارے حکمران تالے لیے کھڑے ہیں۔ حتیٰ کے برادر ملک کے وزیر خارجہ خصوصاً یہ ادارہ بند کروانے کے لیے آن وارد ہوئے۔ اور ہم نے اس ادارے کو بند کرنے کی راہ بھی ڈھونڈنا شروع کر دی ۔ ذرا ملاحظہ کیجیے کہ ایک اسلامی ایٹمی ملک کسی بھی ملک کے وزیر خارجہ کے ایک دورے پہ ایک مربوط تعلیمی نظام اس لیے لپیٹنے کے در پہ ہو جاتا ہے کہ ان کے دوستوں نے بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہم اتنا کہنے کی جرات نہیں کر سکے کہ گولن ذمہ دار ہے تو آپ الٹا لٹکا دیجیے اُسے۔ فوج ذمہ دار ہے تو چوک میں کھڑے کر کے شناخت پریڈ کروائیے لیکن ہم آپ کے کہنے پہ ایک ایسے ادارے کو کیوں بند کریں جو پاکستان میں تعلیم کی فراہمی میں اتنا اچھا کام کر رہا ہے اور سماجی ذمہ داریاں اتنے احسن طریقے سے سر انجام دے رہا ہے کہ ہم نے اسے ستارہءایثار تک سے نواز دیا ہے۔ لیکن ہم ایسا نہیں کہہ سکے نہ ہی ہم خود کو ایٹمی طاقت ثابت کر پائے۔ کیوں کہ ہم دوستیاں نبھانے کے ماہر ہیں۔ ملک چلانے کے نہیں۔ ہم اتنا بھی نہ کہہ پائے کہ حضور پاکستان کے علاوہ بھی کم و بیش چھ ممالک میں یہ ادارے چل رہے ہیں کیا وہاں بھی آپ کے وزیر خارجہ نے دورہ کیا؟ ترکی میں ہونے والی گولن اردوان لڑائی میں ہم پاکستان میں پاکستانی قوانین کے تحت چلنے والے ادارے جس کی 26شاخیں پاکستان کے 10بڑے شہروں میں قائم ہیںپہ قدغن کیوں لگائیں۔ اس ادارے نے اپنے حاصل کردہ 274میڈل ترکی نہیں بلکہ پاکستان کے نام پہ حاصل کیے ۔یہ ادارہ ترکی نہیں، پاکستان کی شناخت ہے عالمی سطح پر۔

ترکی کی ناکام بغاوت کے بعد 60 ہزار سے زیادہ افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ جن میں فوجی جرنیل، فوج جون، ڈاکٹر انجینیرز، ڈاکٹرز، معلم، علمائ، طالبعلم، یونیورسٹیوں کے چانسلرز، تعلیمی شعبہ جات کی ڈین، سماجی، معاشی، خدمات سے وابستہ سینکڑوں افراد شامل ہیں۔ ترکی کو جمہوریت کی فتح مبارک ہو لیکن خدارا اس فتح کے تکبر کا نشانہ دوسرے ممالک میں چلنے والے بے ضرر اداروں کو نہ بنائیں۔ پاکستان کے ارباب اختیار کو چاہیے کہ میٹرو کو سپانسر کوئی اور ملک بھی کر سکتا تھا۔ اپنے ذاتی مراسم سے زیادہ اہمیت پاکستان کو دیجیے۔ کبھی ایران اپنی سرحد پہ ہمیں اپنی آنکھیں دکھانا شروع کر دیتا ہے۔ کبھی افغانستان ہم کو غصیلی نگاہ سے تکنا شروع کر دیتا ہے۔ بھارت پہلے ہی مشرقی بارڈر غیر محفوظ بنا چکا ہے اور اب رہی سہی کسر ترک حکام نے پوری کر دی۔ کیا صرف پاکستان ہی احکامات ماننے کے لیے رہ گیا ہے؟ سمجھ سے بالاتر ہے کہ …. آخر پاکستان ہی کیوں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments