بیاضِ وقت کا اگلا ورق خالی ہے
تم کن موسموں کے انتظار میں
ہونٹوں پہ خشک سالی
اور آنکھوں میں بارشیں سنبھالے ہوئے ہو؟
تمہارے حصے کا آسمان
بدبودار سانسیں دھندلا کر رہی ہیں
بادل، ہوا اور آبی بخارات ذخیرہ کرنے کی
اجازت ان کو ہے
جن کے تصرف میں دوسروں کے حصے کی زمینیں ہیں
تمہارے پاس تو چلنے کے لیے پاؤں بھر راستہ بھی نہیں
کارخانوں میں دھوپ
اتنی وافر مقدار میں تیار ہوتی ہے
کہ تمہاری رات
نوکِ قلم سے ٹپکی ہوئی سیاہی کے
ایک نقطے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی
زائر، کانگو اور روانڈا میں
لاکھوں کالے انسان مرنے سے
کیا زمین پر دھبوں اور پرچھائیوں کا قحط پڑ گیا ہے؟
جہاں پیدا ہونے پر طبلک
اور مرنے پر ماتمی باجے بجائے جاتے ہیں
وہاں زندگی اور موت کے درمیان
تم محبت کی کون سی نئی سمفونی ترتیب دینا چاہتے ہو؟
ہزاروں سال پہلے کا بے شعور انسان
ہڈیوں سے بانسری بنانے
اور سُر کی لے پر
انگلیاں بجانے کا فن جانتا تھا
تم کن ڈھانچوں کا سوناٹا لکھنا چاہتے ہو؟
تمہیں تو اتنا بھی نہیں معلوم
کہ سورج، چاند اور سیارے
نادیدہ کہکشائیں، بلیک ہولز، دم دار ستارے
خلائی رصدگاہیں
ارضی شہر اور بستیاں
تمہارے وقت کی دسترس سے دور
ایک ایسی گَت میں داخل ہونے والی ہیں
جہاں کونی شور تمام آوازوں کو جذب کر لے گا
اور لیزر کی نفوذی شعاعیں
تمام روشنیوں پر غالب آ جائیں گی
اور تمہارے انتظار کا دورانیہ ختم ہونے سے پہلے
کائنات کی بیاض سے
گیت اور الفاظ تحلیل ہو جائیں گے!!
- مجھے یہ نظم نہیں لکھنی چاہیے تھی - 03/09/2023
- ہیلی کاپٹر - 27/08/2022
- مئی میں “دسمبر کی رات” اور کتابوں کی چھانٹی کا غم - 22/05/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).