ادھر ادھر سے


\"mubashar-saleem\"احسن صاحب اب اتنے عمر رسیدہ بھی نہیں تھے کہ بیوی کے انتقال کے بعد باقی عمر تنہا گزار لیتے۔ چار بچوں کی ذمہ داری نے احساس دلایا تو ایک دن اماں نے بھی ہاتھ اٹھا لئے کہ اب ان کی بوڑھی ہڈیوں میں اتنی طاقت نہیں کہ بچوں کی شرارتوں کا بوجھ برداشت کر سکیں۔ احسن صاحب نے حامی بھری اور چند ہی دن میں ایک بیوہ ڈھونڈ نکالی گئی جس کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی۔ چند دن گھر میں خوب رونق رہی۔ لیکن ساتویں دن دلہن اچانک بے ہوش ہوگئی۔ معلوم ہوا کہ بلڈ پریشر کی مریضہ تھی۔ شادی کے چکر میں اپنی دوائی استعمال نہ کر سکی اور اب فالج کا حملہ ہوگیا تھا۔ یوں احسن علی کے کندھوں پر ایک اور ذمہ داری نے اپنا بوجھ ڈال دیا۔

اس کہانی سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے۔۔۔ لیکن یہ کہانی بچوں کے لئے تو لکھی نہیں گئی کہ جس سے کوئی سبق نکالنا ضروری ہو۔ فرحانہ صادق کی رائے میں اس کو ایک اچھا انشائیہ سمجھ کر پڑھ لیں۔

بھائی کی شادی پر ننھے میاں نے اپنا کمرہ سجانے کی فرمائش کر ڈالی۔ فرمائش کیا ضد شروع کر دی تو اسے سمجھایا گیا کہ ہماری روایات صرف دلہن کا کمرہ سجانے کی ہیں لیکن ننھے میاں کے سوالوں نے سب کو لاجواب کر دیا کہ قرآن و حدیث میں ایسا کہیں لکھا ہے؟ تو مجبوراََ اس کاکمرہ سجا دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد جب اس کے ماموں کے بیٹے نے بھی فرمائش کر ڈالی تو اسے زیادہ بحث نہیں کرنا پڑی کیونکہ خاندان میں روایت موجود تھی۔

لیکن بڑی عید پر قربانی کے لئے روایت بھی موجود ہیں اور احکام بھی اس لئے قربانی کے لئے جانور کی خریداری پر بچوں کی فرمائش پر جیب کی تنگی کا عذر پیش کرنا ممکن نہیں رہتا۔ لیکن اس بار تو کانگو کا بھوت ایسا ذہنوں پر سمایا ہوا ہے کہ مویشی منڈیاں سائیں سائیں کر رہی ہیں۔ حکومتی سختیاں الگ سے آڑھتیوں کو روک رہی ہیں۔ طرح طرح کے میڈیکل سرٹیفکیٹ مانگے جا رہے ہیں۔ بہاولپور میں ایک ڈاکٹر کی موت کی ذمہ داری جس وائرس کے کھاتوں میں لکھی گئی اس کی تصدیق نہ تو مزید کسی کیس میں ہو سکی اور نہ ہی اس کو پورے ہسپتال کے کسی دوسرے بندے میں ڈھونڈا جا سکا۔ لیکن کانگو کی روک تھام کے لئے عوامی شعور کی لئے حکومتی اور میڈیا کوششیں اچھی ہیں لیکن حد سے زیادہ شعور بیدا کر دیا گیا ہے۔ لوگ مویشی منڈیوں کا رخ کرنے سے بھی کترانے لگے ہیں۔ بہاولپور میں تو لوگ وکٹوریہ ہسپتال کے باہر سے گزرنے سے ہی گریز کرنے لگے ہیں یا پھر گزرتے وقت اپنی گاڑیوں کا شیشہ چڑھا لیتے ہیں

ایسی ہی ایک کوشش تھیلیسمیا کے کنٹرول کے لئے بھی کی گئی ہے کہ آئیندہ سے کوئی نکاح اس وقت رجسٹر نہیں ہوسکے گا جب تک ان کے پاس تھیلیسمیا کی سکرینگ کا سرٹیفیکیٹ پیش نہیں کیاجائے گا۔ کیونکہ تھیلیسیمیا کا مرض زندگی بھر کے لئے معذوری ہے۔ اس کی باقی ماندہ زندگی دوسروں کے خون کے سہارے گزرتی ہے۔ لیکن ایسی کئی معذوریوں کا سبب زچگی کے مسائل بھی ہیں۔ جن سے عہدہ برا ہونے کے لئے حاملہ عورتوں کو عطائی دائیوں اور نرسوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں ہر سال تھیلیسیمیا کے پانچ ہزار بچوں کو معذور ہونے سے روکنے کے لئے تو قانون سازی ہوگئی ہے لیکن جو پانچ ہزار بچہ ہر روز دائیوں، غیر تربیت یافتہ نرسوں اور نامناسب سہولتوں کی وجہ سے معذور ہورہا ہے ان کے لئے اقدام کب اٹھائے جائیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments