سول ہسپتال کوئٹہ کی ادھ جلی کھڑکی


\"asif\"ملتان سے کوئٹہ جانے کے لیے ڈائیوو کی لگژری بس روانہ ہوچکی تھی اور میں اس وقت کو یاد کر رہا تھا، جب جنرل ضیا الحق کے وزیر ریلوے یوسف رضا گیلانی کے خصوصی حکم پر ایک بوگی ڈیرہ غازی خان ریلوے اسٹیشن سے چلتن ایکپریس کے ساتھ لگائی گئی تھی۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے کوٹ مٹھن تک کے علاقہ کے عوام کے لیے یہ بوگی کسی نعمت سے کم نہیں تھی لوگ جانے سے ایک دن پہلے ہی اس بوگی کے برتھوں پہ اپنی چادریں ڈال لیا کرتے تھے، چلتن ایکسپریس نے گیارہ بجے رات ڈیرہ اسٹیشن پر پہنچنا ہوتا تھالیکن اس ٹائم پر وہ کبھی نہیں پہنچتی تھی، کبھی کبھی تو برتھوں پہ سوئے ہوؤں کو صبح جاگنے پر ہی پتہ چلتا کہ ابھی تک وہ ڈیرہ اسٹیشن پر ہی موجود ہیں۔

خیر اب یہ بس ڈیرہ غازی خان، سخی سرور، فورٹ منرہ، رکنی، لورالائی اور قلعہ سیف اللہ کے رستے سے کوئٹہ جارہی تھی، کوئٹہ جانے کے لیے یہ راستہ قدر ے مختصر ہے، تحصیل تونسہ کے باسیوں کے لیے یہ روٹ اجنبی نہیں ہے رکنی سے لے کر چمن تک بلوچستان کی یہ پختون پٹی تونسہ کے باسیوں کے لیے روزگار کے حوالے سے کراچی کی حثییت رکھتی ہے۔ ہم نے کوئٹہ کا کافی عرصے بعد قصد کیا تھا، سڑکیں ویسی ہی تھیں، شہر کی آبادی میں اچھا خاصا اضافہ ہوا ہے، اور ٹریفک میں اچھے خاصے سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے، ٹریفک سگنل ختم ہو چکے ہیں، ایف سی کے نوجوان زیادہ تھے اور ٹریفک پولیس کم، بلوچستان کے واحد شہر کی خوبصورتی گہنا گئی ہے، شہر کا موسم بھی اب خنک نہیں رہا، سیوریج اب بھی نہیں ہے، پانی ٹینکر سے سپلائی کیا جا رہا ہے۔ کابل اور قندہار سے سے اتنے پھل نہیں آرہے جتنے لوگ آچکے، کوئٹہ کے مقامی لوگ اب بھی اس خیال میں ہیں کہ افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل ستمبر میں شروع ہو جائے گی بہرحال یہ کوئٹہ والوں کا خیال ہے ہمارا نہیں۔ شہر میں کچھ بہتری بھی ہے نئے رہائشی پلازے بن گئے ہیں، میلینیم مال اور ہارون پلازہ جیسے خریداری کے پوائنٹ خوبصورت اضافہ ہیں۔

صنوبر سے ڈھکے لینڈ اسکیپ والی زیارت کی زیارت بھی نصیب ہوئی۔ بے ترتیب، چھوٹے بڑے صنوبر کے درخت زمین پہ شاعری کرتے محسوس ہوتے ہیں، پتہ نہیں کیوں؟ مجھے لگا کہ بدھا صنوبر کے نیچے بیٹھتا تو اسے جلد نروان مل جاتا۔ زیارت پہ بھی تو فکشن لکھا جاسکتا ہے، جیسے احمد ندیم قاسمی نے وادی سون پہ لکھا۔ قائد اعظم ریزیڈنسی، زیروپوائنٹ کا نظارہ، بابا خراوری کا مزار اور اگست کی خنک دھوپ زیارت کے خاص تحفے ہیں، ہم نے وہاں اس پار بادلوں کے ساتھ اپنی بہت ساری تصویریں اور سیلفیاں بنا ڈالیں۔

اگلے روز اپنا ارداہ ہنا جھیل جانے کا تھا لیکن درمیان میں 8 اگست آگیا۔ کوئٹہ والوں کے لیے قیامت صغرا تھی، اس سانحے پہ بہت کچھ لکھا گیا، اور پتہ نہیں کیا لکھا جائے گا، گھر جانے کو ہر راستہ بند تھا، ہر گلی میں ٹینٹ اور قناتیں لگی ہوئیں تھیں۔ کوئٹہ یوں بین کر رہا تھا جیسے کوئی ماں اپنے بچے کے مرنے پہ بین کرتی ہے۔ اس روز ہمارے محلے کے کانسی قبرستان میں چھتیس جنازے پڑھائے گئے تھے، ہر آنکھ اشکبار تھی۔

یہ سانحے کے دو دن کے بعد کی بات ہے میں اپنے کزن جو سریاب روڈ پہ رہتے ہیں کو ملنے کے لیے جا رہا تھا، راستے میں سول ہسپتال کے سامنے سے گزرا۔۔۔ میں نے ہسپتال کی طرف دیکھا، یہ لمحہ میری زندگی کا اداس ترین لمحہ تھا۔ وہاں کوئی بھی نہیں تھا، سوائے دو پولیس والوں کے، ٹوٹے دروازوں اور آدھ جلے شیشے کی کھڑکی کے۔۔۔

بانو قدسیہ لکھتی ہیں کہ بڑا سانحہ گزر جاتا ہے، اور انسان اس کو برادشت کر لیتا ہے، لیکن اس کے بعد اس سے منسلک چھوٹے حادثادت اور غیر اہم واقعات ہوتے ہیں جو آدمی کو توڑ کے رکھ دیتے ہیں۔ یہ نظارہ بھی ایک غیر اہم نظارہ تھا، اس آدھ جلی کھڑکی کو دیکھنا بھی چھوٹا حادثہ تھا۔۔۔ جس نے مجھے توڑ کے رکھ دیا، یہ منظر قیامت کے بعد کا تھا۔ جو دل پہ نقش ہوا، جو قبر کے بعد بھی روح کے ساتھ رہے گا۔۔۔ ملینیم مال کی رونقیں، پرنس روڈ کے کھانے، صنوبر کا بے ترتیب حسن، لال کولو سیب کی سرخی سب کچھ اس آدھ جلی کھڑی کی سیاہی کے سامنے ختم ہوگیا۔ اندھیرا کیا ہے، نور کا نہ ہونا۔۔۔ اور بس

ملتان کے لیے جبل نور سے کوچ روانہ ہوچکی تھی۔ ڈرائیور خاصی رفتاری سے اس رستے پہ گاڑی چلا رہا تھا جو کبھی راہداری روٹ کا حصہ بنے گی، لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے سارے نظارے اور لمبی تار کول کی سڑک بہت دھندلی دھندلی لگ رہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments