حساس تعلیمی ادارے اور دھندلی خبریں


\"husnainحساس اداروں کی جانب سے صوبائی دارالحکومت کے 338 تعلیمی اداروں کو حساس قرار دیتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ حفاظتی اقدامات کا ازسرنو جائزہ لیں۔

یہ غیر واضح قسم کی خبر ہم اس لیے سمجھ جاتے ہیں کیوں کہ ہمیں شروع سے ایسی ہی صورت حال میں زندہ رہنے کا گر سکھایا گیا ہے۔ ہم کسی بھی مسئلے کے بارے میں، کبھی بھی مکمل یقین کے ساتھ کوئی رائے نہیں دے سکتے۔ ہمیشہ ہمارے بیانات پر، چاہے یہ سرکاری ہوں یا غیر سرکاری، ایک دھندلا پن چھایا رہتا ہے۔ ہم اس چیز سے بچتے ہیں کہ ہمیں کوئی ایسی بات کرنی پڑ جائے جو مکمل طور پر واضح ہو اور جس میں ہم کسی قسم کا قول و قرار کر رہے ہوں۔

کسی دوست سے پوچھیے یار نوکری کیسی جا رہی ہے۔ جواب آئے گا، بس یار خدا کا شکر ہے، گزارہ مزارہ چل رہا ہے۔ اتنی یافت ہو جاتی ہے کہ بس کام چلتا رہے، نوکری تو بس نوکری ہوتی ہے نہ، تمہیں تو پتہ ہی ہے۔ بھئی ہمیں سب کچھ معلوم ہے، لیکن اس قدر کام چلاؤ قسم کا جواب آپ کیوں دیتے ہیں، یہ نہیں معلوم۔ یا تو آپ خوش ہیں، یا نہیں ہیں۔ تو اگر نہیں ہیں تو اس کا اظہار کر دیجیے، کیا حرج ہے، دوست ہوتے ہی دل جوئی کے لیے ہیں، دکھ درد مل کر بانٹ لیں گے۔ ایسا جواب سن کر سامنے والا آدمی اس موضوع پر مزید کیا بات کر سکتا ہے؟

استاد سے کسی شاگرد کی کارکردگی کے بارے میں پوچھ لیجیے، وہ کھل کر کچھ نہیں کہیں گے، ملا جلا بیان دیں گے۔ مستری سے یہ پوچھ لیجیے کہ میاں کتنے پیسے اور کتنا وقت گھر کی مرمت میں لگ جائے گا، وہ بھی آپ کو دونوں چیزوں کا ایسا اندازہ دے گا کہ یقین کرنے کی صورت میں آپ ایک قلاش ٹھیکیدار تو بن سکیں گے، گھر مقررہ وقت اور پیسوں میں کبھی مکمل نہیں ہو گا۔ کسی سرکاری پراجیکٹ کے شروع ہوتے ہی جو بورڈ وہاں لگایا جاتا ہے اسے پڑھیے، دئیے گئے وقت کے ایک سال بعد بھی وہ بورڈ وہیں کھڑا آپ کا منہ چڑا رہا ہو گا۔ کمپنی کے مالک سے ترقی کا پوچھیں، وہاں سے ایسا ٹائم فریم ملے گا کہ اس میں آپ مریخ کا چکر بھی لگا سکتے ہیں، اور اگر خوش امید ہیں تو اگلے آٹھ گھنٹوں میں ترقی پانے کے خواب اگلے آٹھ سال دیکھتے رہیں گے۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے، کبھی بھی ہو سکتا ہے۔ ٹھیک ہے، کام چلانا ہے بس، یہ ہمارا عمومی رویہ ہے۔

سکولوں، کالجوں یا یونیورسٹیوں کی سیکیورٹی لیکن ہرگز ایسا معاملہ نہیں ہے کہ اس پر روائتی غیر شفاف انداز میں بات کی جائے۔ بچوں کے اغوا کی حالیہ لہر کے بعد یہ اہم ترین خبر اکثر اخباروں کے پچھلے صفحے پر موجود ہے۔ کیا اس معاملے پر ہم مزید وضاحت نہیں چاہتے؟ کم از کم اتنا بتایا جائے کہ وہ تعلیمی ادارے کون سے ہیں جو حساس ترین قرار دئیے گئے ہیں، کن اوقات میں انہیں زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے، وہ کیا حفاظتی اقدامات مزید کر سکتے ہیں، والدین سے کیا احتیاط مزید درکار ہے، کون لوگ ہیں جن سے خطرہ ہے یا جن سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے، اس قسم کی تفصیل ہمیں کون دے گا؟ اس خبر میں تعلیمی اداروں کو انتہائی حساس اور حساس کے دو درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے، حملہ کرنے والے کیا خبر کے مطابق ترجیحات کا شکار ہوں گے کہ حساس اور غیر حساس کے چکروں میں رہیں؟

عام طور پر کسی بھی بڑے افسوس ناک اور تکلیف دہ سانحے کے بعد یہ رپورٹ آتی ہے کہ حکومت کو آگاہ کر دیا گیا تھا کہ فلاں ادارہ حساس ہے اور اس کے حفاظتی اقدامات بہتر کیے جائیں، لمبے لمبے خط دکھائے جاتے ہیں جو کئی وزارتوں کو بھییجے جانے کی مارکنگ کے ساتھ ہوتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ اس مکے کی طرح ہوتا ہے جو مار کے بعد یاد آتا ہے۔

بھونکنے والے کتے کاٹتے نہیں ہیں، یہ مثل مشہور ہے، اور اس پر لطیفہ یہ بنا کہ بھونکنا بند کر کے کتا کاٹنا کب شروع کر دے، اس بارے میں آپ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ یہی معاملہ اس وقت ہمارے ساتھ موجود دہشت گردوں کا ہے۔ انہوں نے کبھی بھی ان ترجیحات کو نہیں دیکھنا کہ زیادہ حساس تعلیمی ادارہ کون سا ہے اور کم حساس کون سا، انہیں خدانخواستہ، بس اپنا کام کرنا ہے، جہاں سیکیورٹی کم نظر آئے گی وہاں خاکم بہ دہن پھٹ پڑنا ہے، اور یہ ہم ایک طویل عرصے سے بھگت رہے ہیں۔

اس خبر کی تشریح کریں تو دو تین چیزیں سامنے آتی ہیں۔ چوں کہ اخبار لاہور کا ہے اور صوبائی دارالحکومت پنجاب کا شہر لاہور ہی ہے تو ہم قیاس کر لیتے ہیں کہ یہ خبر لاہور کے بارے میں ہے۔ حساس اداروں سے مراد ہم وزارت داخلہ کے ماتحت کوئی بھی ادارہ لے لیتے ہیں، اس سے زیادہ قیاس آرائی اچھی نہیں ہوتی۔ 338 کا لفظ چوں کہ واحد واضح خبر ہے اس لیے اس پر مطمئن ہوتے ہوئے اب ہم سر پٹخنے کے لیے آزاد ہیں کہ یہ سب تعلیمی ادارے کون سے ہیں اور ہمیں انہیں کیسے محفوظ بنانا ہے، صرف اتنی ہی دھندلی سی دعا کرنی ہے یا کچھ عملی اقدامات بھی ہو سکتے ہیں؟ اگلا ذکر خیر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ہے۔ فرض کیجیے کہ اس سے مراد پولیس ہے۔ اگر واقعی اس سے مراد پولیس ہے تو ان کے پاس پہلے ہی بہت کام ہیں، وہ کیا لائحہ عمل ان اداروں کی حفاظت کے لیے بناتے ہیں اور کتنی نفری اس امر کے لیے مختص کرتے ہیں، ہمیں اس خبر کا بھی انتظار ہونا چاہئیے۔

ایک مشورہ یہ دیا جا سکتا ہے کہ ڈولفن فورس کو اگر بازاروں میں دو دو کی ٹولیاں بنا کر گھومنے کے بجائے اس کام پر لگا دیا جائے کہ وہ تعلیمی اداروں کے آس پاس اپنے اپنے روٹ مقرر کر کے نگرانی کرتے رہیں تو شاید کچھ بہتری کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔ ان کے پاس جدید ترین اسلحہ اور سواریاں موجود ہیں، ان کی تنخواہیں باقی فورس کے مقابلے میں بلند اور مورال بھی اسی حساب سے اونچا ہے، ان کی عمر بھی نسبتاً کم ہے اور یہ تمام چیزیں ایک چوکس نگرانی کے لیے بہت بہتر ہیں۔ جو تعلیمی ادارے اس لسٹ میں شامل ہیں کم از کم انہیں سرکلر بھیج کر فی الفور اطلاع دی جائے، ہفتہ وار بنیادوں پر ان کے ساتھ میٹنگ ہو اور ان کے اپنے سیکیورٹی اقدامات کا جائزہ لیا جائے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کو مزید سیکیورٹی فنڈ دئیے جائیں اور ان کی جانچ پڑتال کا مکمل نظام بنایا جائے اور جو تعلیمی ادارے اس لسٹ میں نہیں ہیں ان کو بھی چوکس رکھا جائے۔ باقاعدہ ایک مہم چلائی جائے۔ یہ سب اگر ممکن ہو تو شاید ہم اس عفریت پر کچھ قابو پا سکیں ورنہ دھندلی خبروں اور غیر شفاف پانیوں میں رہتے ہوئے ہماری نسلیں تباہی کے دھانے پر ایک دفعہ پھر اکٹھی کھڑی ہیں، خطرے کی خبریں نئی نہیں ہیں مگر نئے شفاف اقدامات کی شدید ضرورت ہے، خدا خیر کرے!

اب نہیں کوئی بات خطرے کی

اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments