سر سید اور تعلیم نسواں – حصہ اول


\"iftekhar  برنارڈ لیویس کا خیال ہے کہ کسی ملک یا معاشرے کی ترقی اور جدید کاری کے معیار کو پرکھنے کی بہترین کسوٹی وہاں موجود عورتوں کی آزادی اور حقوق کی کیفیت اور معاملات کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ برنارڈ لیویس کا یہ مقولہ بڑی حد تک صحیح بھی معلوم ہوتا ہے۔ اسی لئے ہمارا خیال ہے کہ کسی فرد یا تحریک کے فکر و عمل کو پرکھنے کے لئے بھی عورتوں کی تعلیم اور عورتوں کے حقوق کے متعلق ان کے فکری رویوں کو ایک پیمانے کے بطور با آسانی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ہم اس مضمون میں سر سید کے فکر و عمل کا جائزہ اسی سیاق و سباق میں پیش کرنے کی کوشش کریں گے کیوں کہ ہمارے خیال سے سر سید کے ذہن میں خواتین کی تعلیم اور ان کے حقوق کے مسائل، نہ صحیح اول ترجیح کے بطور، لیکن ہمیشہ موجود ضرور رہے تھے، جس کا اظہار تواتر سے ان کے رویوں میں رویدا نظر آتا ہے۔ خاص طور پر جدید طرزِ معاشرت کی پروردہ خواتین کی علمی و ثقافتی برتری کی ستائش سر سید نے ہمیشہ بہت خلوص اور احترام کے ساتھ کی ہے۔

سر سید پر یہ الزام تواتر سے عائد کیا جاتا رہا ہے کہ انہوں نے تعلیم نسواں کے سسلے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھلائی تھی بلکہ کسی حد تک عورتوں کی تعلیم کے مسئلہ کو درگزر کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن دراصل حقیقت اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے صفحات میں عورتوں کی تعلیم کے مسائل میں سر سید کی دلچسپی خاصی نمایاں نظر آتی ہے۔ سر سید نے اس سلسلے میں اپنے خیالات کا دو ٹوک اظہار اس طور پر کیا تھا کہ:

\”عورتوں کی تعلیم، خواہ پردے میں خواہ مدرسہ میں، ہونا اب ایسا سوال نہیں رہا ہے جس پر کچھ حجت اور شک و شبہ باقی رہا ہو\”۔

سر سید نے سائنٹفک سوسائٹی کے قیام (1864) کے بعد دیگر تعلیمی و سماجی مسائل کے ساتھ تعلیم نسواں اور آزادیِ نسواں کے سلسلے میں اپنے رویے صاف کرنا شروع کر دیئے تھے۔ تعلیم نسواں کے سلسلے کی خبریں اخبار سائنٹفک سوسائٹی میں تواتر سے شائع کی جاتی تھیں۔ اس ضمن میں مس میری کارپینٹر کے ذریعہ انجام دیئے گئے مختلف کاموں کی رپورٹیں اور خبریں سوسائٹی کے اخباروں میں شائع ہوتی رہتی تھیں۔

آزادی نسواں کے موضوع پر سوسائٹی میں لیکچرز کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل دو لیکچر بہت اہمیت کے حامل تھے۔ \"sirsyedahmadkhan\"یکم جولائی 1866 کو \”مردوں اور عورتوں کی ذہنی استعداد\” کے موضوع پر انسٹی ٹیوٹ کے حال میں ڈاکٹر ولبرٹ جے ڈی گروتهر نے لیکچر دیا تھا۔ عورتوں کی تعلیم اور آزادی کے متعلق یہ ایک نہایت پر مغز اور مدلل لیکچر تھا جو انسٹی ٹیوٹ گزر مورخہ 3 جون 1866 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ اسی موضوع پر کیپٹن میکڈونلڈ نے بھی ایک نہایت عمدہ لیکچر دیا تھا جو انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے 15 جون 1866 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔

سر سید مغربی معاشرت کی پروردہ خواتین کے اعلیٰ اخلاق اور عمدہ تربیت کے ہمیشہ قائل رہے تھے اور ان کی اعلی صلاحیتوں کی داد و تحسین میں کوئی کوتہے نہیں کرتے تھے۔ 1866 میں انسٹی ٹیوٹ کی عمارت کے تعمیر ہوجانے کے باد اس کی وسیع احاطہ میں انگریز کلکٹر مسٹر جے ایل لینگ کی جواں سال صاحبزادی مس لینگ کے ذریعہ سر سید نے چمن بندی کا عمل پورا کروایا تھا۔ مس لینگ نے انسٹی ٹیوٹ کے احاطے میں یہ چمن اس خوبصورتی سے ترتیب دیا تھا کہ اس کی شہرت سن کر دور دور سے لوگ اس کو دیکھنے کے لئے آنے لگے تھے۔ سر سید مس لینگ کی اس صلاحیت اور کارکردگی سے بے انتہا متاثر ہوئے تھے۔ شومئی قسمت سے 1880 کے آس پاس (شاید ہیضہ کی وبا میں مبتلا ہو کر) مس لینگ کا اچانک انتقال ہوگیا تھا۔ سر سید کو مس لینگ کے انتقال سے شدید صدمہ پہنچا تھا۔ انسٹی ٹیوٹ کے بڑے لان میں ایک خوبصورت فوارہ لگا ہوا تھا۔ مس لینگ کے انتقال کے بعد سر سید نے اس فوارے کو مس لینگ کی یاد کے بطور \”من لینگ کوئین\” کے نام سے موسوم کیا تھا اور اس سلسلے کا ایک کتبہ فوارے کے پیالے کے اندر 1882 میں کندہ کروا دیا تھا۔ (اس وقت یہ فوارہ موسومہ \”مس لینگ کوئین\” اسٹوڈنٹ یونین کی عمارت کے شمال میں واقع لان میں لگا ہوا ہے اور یونیورسٹی کیمپس میں سر سید کی سب سے قدیم یادگار ہے۔ 1869 میں جب سر سید انگلینڈ گئے تھے تو انہوں نے وہاں کی عمارتوں اور ان کے احاطوں کی سجاوٹ کا تذکرہ کرنے کے ساتھ، انسٹی ٹیوٹ کی عمارت اور اس کے چمن کا ذکر کرتے ہوئے مس لینگ کو ان الفاظ کے ساتھ یاد کیا تھا:

\”ہاں اس مکان (یعنی سوسائٹی کا مکان) کا باغ ایسا عمدہ آراستہ ہے جو بہت ہی کم اپنا نظیر رکھتا ہے۔ وہ بھی کسی ہندوستانی کی سعی و کوشش کا نتیجہ نہیں ہے۔ بلکہ ایک فیاض و عالی ہمت اور نیک دل، نیک خصلت، فرشتہ سیرت، ہمہ تن نیکی، و سرتاپا خیر مجسم، یوروپین لیڈی کا نتیجہ ہے جس نے اپنے شوق اور محنت سے اس کو آراستہ کر دیا ہے۔ ہماری قوم میں تو اتنی سی بھی لیاقت نہیں ہے یہ کہ اس پر فضا باغ کی سیر کے لائق بھی ہوں\”۔

برنارڈ لیویس نے ایک جگہ یہ بھی تحریر کیا ہے کہ یوروپین سیاح ہندوستانیوں کی معاشرت خاص طور پر بادشاہوں کے حرم کے قصے سن کر بھونچکا رہ جاتے تھے۔ وہیں مسلم سیاح یورپ کی عورتوں کی آزادی کو آوارگی پر محمول کرتے تھے اور عورتوں کی بے حیائی کا رونا روتے تھے۔

برنارڈ لیویس کا یہ مشاہدہ بڑی حد تک صحیح ہے اور عورتوں کی آزادی کے تعلق سے مشرقی اور مغربی معاشرتی رویوں پر روشنی ڈالنے کے لئے کافی اہم ہے۔ لیکن اس سلسلے میں چند نام ایسے بھی موجود ہیں جنہوں نے یورپ کی سیاحت کے دوران عورتوں کی آزادی کو نہ صرف سراہا تھا بلکہ عورتوں کی آزادی کو مغربی معاشرت کی ترقی کی ایک بڑی وجہ قرار دیا تھا۔ انہیں میں ایک نام سر سید احمد خاں کا بھی لیا جاسکتا ہے جنہوں نے 1869 میں لندن کی مسافرت اختیار کی تھی اور تقریباً ڈیڑھ سال وہاں مقیم رہ کر مغربی فکر اور معاشرت کا مشاہدہ کیا تھا۔ انہوں نے اس مسافرت کے تجربات اور تاثرات تفصیل سے قلم بند کیے ہیں جو آج ہمارے پاس \”مسافرانِ لندن\” کے عنوان سے کتابی صورت میں محفوظ ہیں۔ سر سید نے \”مسافرانِ لندن\” میں مغربی معاشرت میں تعلیم نسواں اور عورتوں کی آزادی کے امور کی ستائش نہایت خلوص اور احترام کے ساتھ کی ہے ہم سر سید کے ان ستائشی بیانات کی تسوید کی ابتدا ان کے مس میری کارپینٹر سے ملاقات کے تذکرے سے کرنا چاہتے ہیں۔

مس میری کارپینٹر (13 اپریل 1807 تا 14 جون 1877) ایک سرگرم سماجی کارکن تھیں غلامی کے تدارک اور خواتین کی تعلیم جیسے مسائل ان کی دلچسپی کے موضوعات تھے۔ میری کارپینٹر کے والدین برسٹل میں رہتے تھے اور سماجی خدمات کے کاموں میں عملی دلچسپی رکھتے تھے۔ مس میری کارپینٹر 1833 میں راجہ رام موہن سے (ان کے انتقال سے کچھ پہلے) برسٹل ہی میں ملی تھیں جب راجہ صاحب ڈاکٹر کارپینٹر سے ملنے ان کے گھر آئے تھے۔ میری کارپینٹر راجہ صاحب کے سماجی اصلاح کے نظریات اور ان کی روشن خیالی سے بہت متاثر ہوئی تھیں۔ میری کارپینٹر مختلف اوقات میں تین مرتبہ ہندوستان آئی تھیں (پہلی بار 1866 میں، دوسری بار 1868 میں اور تیسری بار 1875)۔ ہندوستان میں اپنے قیام کے دوران وہ لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق مختلف مسائل کو حل کرنے میں مصروف رہا کرتی تھیں۔ مس میری کارپینٹر نے ممبئی، کولکاتہ اور دوسرے چند شہروں میں عورتوں کی تعلیم کے سلسلے میں نمایاں کوششیں کی تھیں۔

جب سر سید (1869 میں ) لندن مسافرت پر روانہ ہوئے تھے تو اتفاق سے اسی دخانی جہاز میں مس میری کارپینٹر بھی واپس انگلستان جا رہی تھیں۔ سر سید نے اپنے سفرنامہ \”مسافران لندن\” میں مس کارپینٹر کا ذکر بہت ادب اور احترام کے ساتھ کیا ہے جس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ مس کارپینٹر کے ذریعہ تعلیم نسواں کے سلسلے میں کے گئے مختلف کاموں کو کتنی داد و تحسین کی نظر سے دیکھتے تھے۔ وہ اس ضمن میں تحریر کرتے ہیں کہ:

\”مس کارپینٹر صاحبہ جو نامی اور گرامی لیڈی ہیں اور جنہوں نے کلکتہ، بمبئی میں ہندوستانی عورتوں کی تعلیم کے لئے بہت کوشش کی ہے وہ بھی اسی جہاز میں تھیں ان سے بھی میری ملاقات ہوئی، بہت اخلاق و تپاک سے ملیں، اور نسبت تعلیم عورات اور نیز بہ نسبت عام تعلیم کے بہت سی باتیں ہوئیں۔ مس صاحبہ برسٹل کی رہنے والی ڈاکٹر کارپینٹر کی بیٹی ہیں۔ وہاں بھی ان کو غریب لوگوں کی لڑکیوں کی تعلیم کا بہت شوق تھا اور ان پر محنت کرتی تھیں۔ راجہ رام موہن برہم مت (یعنی بانی برہمو سماج) سے ان کی ملاقات تھی وہ مس صاحبہ کے باپ سے ملنے برسٹل میں گئے ہوئے تھے اور اسی کے گھر میں رہتے تھے، وہیں بیمار ہوئے اور وہیں مرے۔ مس صاحبہ نے ان کی اور لوگوں کی زبانی ہندوستان کی عورتوں کی جہالت اور بری حالت کا حال سن کر ہندوستان میں آنے کا اور یہاں کی عورتوں کی ترقی حالت میں کوشش کرنے کا ارادہ کیا اور ہندوستان میں تشریف لے آئیں۔\”

سر سید کی اس تحریر سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ نہ صرف مس کارپینٹر کے تعلیم نسواں کے مشن کے مداح تھے بلکہ مس کارپینٹر اور راجہ رام موہن رائے کے خاندانی مراسم کی جانکاری بھی رکھتے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ 1833 میں راجہ رام موہن رائے کا انتقال برسٹل ہی میں ہوا تھا۔ میری کارپینٹر کی اس ملاقات کے دوران ہی سر سید نے مس صاحبہ کی درخواست پر ان کے تبصراتی مجلہ (Visitor’s Book) میں اپنی مندرجہ ذیل رائے درج کی تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ:

ان کے پاس (یعنی مس کارپینٹر کے پاس) یہ کتاب ہے جس میں ہندوستانی لوگوں کی رائیں اور چٹھیاں، ان کے کاروبار کی نسبت، مندرج ہیں وہ کتاب انہوں نے مجھے دی اور میں نے بھی اردو زبان میں اس کتاب پر اپنی رائے لکھ دی چنانچہ بجنسہ اس کی نقل یہ ہے:

مجھ کو بڑودا دخانی جہاز میں جب کہ میں لندن کو جاتا تھا مس کارپینٹر صاحب سے ملاقات حاصل حاصل ہونے کی عزت اور بے انتہا مسرت حاصل ہوئی۔ جب سے میں نے ان کا نام اور ان کی کوششوں کا حال نسبت تعلیم ہندوستانی عورات کے سنا تھا، میں بہت مشتاق ان کی ملاقات کا تھا، خدا کا شکر ہے کہ بطور نعمت غیر مترقبہ ان کی ملاقات ہوگئی۔

ان کی عالی ہمتی اور بلند نظری اور تہذیب، اخلاق اور نیک نیتی کا ثبوت خود وہی مضمون ہے جو انہوں نے اختیار کیا ہے، یعنی اس گروہ کی (جس کا خدا تعالیٰ نے مرد کے لئے بطور دوسرے ہاتھ کے بنایا ہے، اور جن کو نیک کاموں کے بخوبی انجام ہونے کے لئے مرد کا مددگار کیا ہے) تعلیم و تربیت میں کوشش کرنا، درحقیقت یہ مضمون اور اس پر ان کی کوشش نہایت قدر کے لائق ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نیک کام پر کوشش ہونی (گو وہ کسی طرح ہو) نہایت اچھی ہے کیوں کہ اگر وہ کوشش درست بنیاد پر قائم ہوئی ہے تو وہ خود کامیاب ہوگی اور اگر اس میں کچھ غلطی ہے تو اس سے امید ہے کہ اوروں کو اس نیک کام پر کوشش کرنے کی تحریک ہوگی جس سے توقع ہے کہ کوئی نہ کوئی کوشش بغیر کسی غلطی کے شروع ہوگی اور ٹھیک ٹھیک نیک نتیجے تک پہنچے گی۔ نیک کام میں کوشش کرنے والوں کی کوشش کبھی کبھی اس لئے کہ وہ ان لوگوں کی عادات و رسم و رواج کے مخالف طریقے پر، جن کی بھلائی کے لئے کوشش کی جاتی ہے، قائم کی گئی ہیں، برباد ہوگی ہیں۔ حقیقت میں ایسا کرنا گویا نیچر کا مقابلہ کرنا ہے اور خود اس نیکی کی رکاوٹ کا آلہ بننا ہے۔۔ خدا نے یوشع کے لئے سورج کا تھم جانا کہا حالانکہ شاید وہ غلط تھا کیوں کہ اگر وہ واقع بھی ہوا ہو تو شاید زمین کا تھم جانا صحیح ہوتا، مگر خدا نے نیک بات پھیلانے میں بالکل عام سمجھ کی، جو اس زمانے میں تھی، رعایت کی، پس اگر اب ہم کسی نیک بات کو پھیلانے میں عام رواج کی رعایت نہ کریں گے تو خود خدا کی اس حکمت کو توڑیں گے اور خود اپنے لئے نقصان کا سبب ہوں گے۔ بہرحال میں خدا سے چاہتا ہوں کہ مس کارپینٹر صاحبہ کی کوششیں کامیاب ہوں اور ہندوستان میں کیا مرد کیا عورت سچائی اور علم کی روشنی سے، جو دونوں اصل میں ایک ہیں، روشن ضمیری حاصل کریں۔\”

سر سید کی یہ تحریر کافی بامعنی ہے۔ اس سے یہ امر قطعی طے ہوجاتا ہے کہ وہ عورتوں کی تعلیم کے حامی تھے لیکن روایتی معاشرت کی رو رعایت کے ساتھ اس امر کو انجام دیئے جانے کی وکالت کر رہے تھے۔ یعنی وہ عورتوں کی تعلیم کو بغیر کسی شک و شبہ کے ضروری سمجھتے تھے لیکن اس نیک کام کو کس طرح انجام دیا جائے صرف اس امر پر روایتی معاشرت کی رو رعایت سے عمل کے جانے کے متمنی تھے تا کہ عام لوگ اس سے متنفر ہونے کی بجائے اس کا خیر مقدم کریں۔ اسی لئے ان کے خیال سے یہ ضروری تھا کہ اس نیک کام کو عام سمجھ کی رو رعایت کے ساتھ مشتہر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ عام لوگ اس کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہوسکیں۔

_________________________________

حوالے و حواشی:

  1. برنارڈ لیویس، واٹ وینٹ رونگ (What went wrong?) فیونکس، لندن (2002)، صفحہ: 72
  2. سر سید احمد خاں، ہمارے روسا اور قومی بھلائی، بحوالہ مقالات سر سید، مرتبہ: محمد اسماعیل پانی پتی، (حصہ 12)، صفحہ: 18
  3. یہ لیکچر یکم جون 1866 کو انسٹی ٹیوٹ کے ہال میں ایک بڑے مجمع کے روبرو دیا گیا تھا، بحوالہ اخبار سائنٹفک سوسائٹی، مورخہ تین جون 1866، صفحہ: 166
  4. اخبار سائنٹفک سوسائٹی، مورخہ 18 جون 1866، صفحہ: 184
  5. انسٹی ٹیوٹ کا فوارہ، مس لینگ کوئین، کے سلسلے کی مزید تفصیلات کے لئے دیکھئے راقم کی کتاب \”سر سید اور سائنٹفک سوسائٹی، مکتبہ جامعہ دہلی (2000)، صفحہ: 96 تا 103۔ اس پیالے پر کندہ کتبہ راقم نے پہلی بار دریافت کر کے شائع کیا تھا۔ یہ فوارہ یونیورسٹی کیمپس میں سر سید کی سب سے قدیم یادگار ہے جس کی انہماک سے دیکھ ریکھ کرنے کی ضرورت ہے۔
  6. سر سید احمد خاں، مسافرانِ لندن، پاکستان اولڈ بوائز ایسوسی ایشن، (کراچی)، 1996، صفحہ: 287- 288
  7. برنارڈ لیویس، واٹ وینٹ رونگ (What went wrong?) فیونکس، لندن (2002)، صفحہ: 73
  8. سر سید احمد خاں، مسافرانِ لندن، پاکستان اولڈ بوائز ایسوسی ایشن، (کراچی)، 1996، صفحہ: 287- 288
  9. سر سید احمد خاں، مسافرانِ لندن، پاکستان اولڈ بوائز ایسوسی ایشن، (کراچی)، 1996، صفحہ: 63-65

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments