بھیا ڈھکن فسادی نے غدار پکڑے


 

بھیا ڈھکن فسادی ہمارے سامنے بیٹھے تھے۔ روئے روشن سرخ تھا انار ہوا جا رہا تھا۔ سانسیں تیز چل رہی تھیں۔ صاف ظاہر تھا کہ حسب معمول شدید غصے میں ہیں۔ ہم نے چپ چاپ ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس ان کے سامنے رکھ دیا جسے وہ شکریہ کہے بغیر ایک ہی سانس میں ہی چڑھا گئے۔ ہم منتظر رہے کہ اب سلسلہ کلام شروع ہو گا۔

بھیا ڈھکن فسادی: تم لبرل فاشسٹوں کی حکومت میں اب یہ دن بھِی دیکھنا تھا کہ ہماری قومی و دینی خدمات کو سراہنے کی بجائے ہمیں باعث فساد قرار دے دیا جائے؟

ہم: بھیا کون سی قومی خدمات؟ دینی کا تو ہمیں پتہ ہے کہ آپ نے باقاعدہ یا بے قاعدہ علم دین حاصل نہیں کیا، مگر حلیہ اختیار کر کے چندہ جمع کر کے سرکاری زمین پر مسجد و مدرسہ بنا کر بیٹھ گئے ہیں۔

ڈھکن فسادی: یہ قومی خدمت نہیں ہے تو اور کیا ہے کہ ہم قوم کو گمراہی سے بچا رہے ہیں۔ بہرحال اس وقت بات کر رہا ہوں معاشرے میں پھِیلی گندگی کی۔ تمہیں پتہ ہے ہمارا نام ڈھکن فسادی کیوں پڑا تھا؟

ہم: ہاں یاد ہے۔ آپ ایک ڈھکن کے بغیر کے مین ہول پر محلے کے کسی گھر کے گٹر سے ڈھکن اٹھا کر نصب کر رہے تھے تو وہ آپ کے وزن کی تاب نہ لا کر اندر گر گیا اور آپ وہیں پھنس گئے اور آپ نے اس قومی خدمت کے عیوض یہ نام پا لیا۔

ڈھکن فسادی: درست۔ بہرحال ادھر کراچی میں ہم نے دیکھا کہ جا بجا گٹروں کے ڈھکن غائب ہیں اور حکومت ان پر نئے ڈھکن نہیں لگوا رہی ہے۔ تمہیں پتہ ہے کہ ڈھکن سے لوہا نکال کر کتنے کا بیچا جاتا ہے؟ کئی لوگ تو اس کام کو باقاعدہ پیشہ بنائے ہوئے ہیں۔ ہمارا ذاتی تجربہ ہے کہ اس میں اچھی آمدنی ہو جاتی ہے۔ بہرحال بات یہ ہے کہ اگر حکومت ان گٹروں پر نئے ڈھکن نہیں لگوائے گی تو معاشی بدحالی پھیلنے کے علاوہ بدبو بھی پھیلے گی اور لوگ ان میں گر کر پھنسیں گے بھی۔

ہم: یہ تو آپ نے درست فرمایا۔

ڈھکن فسادی: تو ہم نے سوچا کہ حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کروائی جائے۔ اس لیے ہم نے ہر بغیر ڈھکن کے مین ہول کے ساتھ وزیر اعلی سندھ کی تصویر بنا ڈالی کہ یہاں ڈھکن نہیں ہے۔ بلکہ ہم نے تو ایسی کارکردگی دکھائی کہ جن گٹروں پر ڈھکن نہیں تھے، پہلے ان کے ڈھکن بھی اتار ڈالے، اور پھر وہاں وزیراعلی کی تصویر بنا ڈالی تاکہ حکومت اپنی نااہلی پر توجہ کرے اور شہری سکھ کا سانس لیں۔

ہم: اوہ، آپ کی تو اس میں کافی محنت لگی ہو گی۔

ڈھکن فسادی: محنت تو لگی تھِی، بہرحال دولت اور شہرت بھی کافی ملی۔ لوہے کا ریٹ ان دنوں اچھا چل رہا تھا۔ بہرحال ڈھکنوں کے بعد ہم نے دیکھا کہ وہاں شہر میں کوڑے کے ڈھیر بھی لگے ہوئے ہیں اور دیواروں پر بھی لوگ نہ جانے کیا کیا لکھ گئے ہیں۔

ہم: یہ تو بہت بری بات ہے۔ لوگوں کو تمیز ہونی چاہیے۔ دیواروں پر لکھنا تو انتہائی غلط بات ہے۔

ڈھکن فسادی: وہی تو۔ بہرحال ہم نے وہاں موجود ہر دیوار پر لکھ دیا کہ یہاں کچرا پھینکنا منع ہے اور ہماری بات نظرانداز کر کے پھینکنے والے کے شجرہ نسب پر بھی روشنی ڈال دی۔ بلکہ ایک دن تو ہم نے ایک ٹرالی لی اور کوڑا لے کر وزیراعلی کے دولت کدے کے سامنے پھِینکنے چلے گئے تاکہ کوڑا ڈال کر وہاں کی دیواروں پر بھی قوم کی راہنمائی کر سکیں۔ مگر شریر پولیس نے الٹا ہمیں ہی گرفتار کر لیا۔

ہم: یہ تو بہت غلط کیا پولیس نے۔ یہ دیواریں تو قوم کے پیسے سے بنی ہیں۔ قوم ان پر جو مرضی لکھے۔ پولیس کون ہوتی ہے کسی کو روکنے والی؟

ڈھکن فسادی: ٹھیک کہا۔ شکر ہے کہ تم لبرل ہونے کے باوجود عقل کی بات کر لیتے ہو۔ ویسے تم اندر سے ہو ہمارے آدمی ہی مگر تسلیم نہیں کرتے۔

ہم: اچھا پھر کیا ہوا؟

ڈھکن فسادی: ہونا کیا تھا۔ ہمیں گرفتار کر کے لے گئے اور بہت بے عزتی ہوئی۔

ہم: بات تو ٹھیک ہے۔ شریف آدمی کو پولیس گرفتار کر لے تو بے عزتی کی بات تو ہے۔

ڈھکن فسادی: نہیں نہیں۔ گرفتاری سے نہیں، رہائی سے بے عزتی ہوئی۔ ہم نے وزیراعلی کے گھر پر کوڑے کا ڈرم پھِینکا تھا، اور معلوم ہے کتنے پیسے پر ضمانت ہوئی؟ مبلغ پانچ ہزار روپلی سکہ رائج الوقت۔ ہم تو کسی کو منہ دکھانے کے بھی قابل نہیں رہے تھے۔ یعنی ہماری اتنی حیثیت بھی نہیں ہے جتنی کسی معمولی اچکے یا اٹھائی گیرے کی ہوتی ہے؟ صرف پانچ ہزار روپے؟ سن رہے ہو تم؟

ہم: واقعی یہ تو بہت ظلم کیا انہوں نے۔ بہرحال پھر کیا ہوا؟

ڈھکن فسادی: ہونا کیا تھا۔ ہم نے سوچا کہ کوڑے اور گٹر کے ڈھکن سے توجہ ہٹا لیں۔ ورنہ پولیس کے نزدیک تو ہماری اوقات گٹر کے ڈھکن چرانے والے نشئی جتنی ہے۔

ہم: بہت اچھا فیصلہ ہے۔ اب آپ کی توجہ کس امر پر مرکوز ہے؟

ڈھکن فسادی: دیکھو الطاف حسین نے غداری کر دی ہے۔ کیسے دل شکن نعرے لگا رہا ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک ایک غدار کی خبر لیں گے۔

ہم: اچھا؟ تو وہ غدار ثابت ہو چکا ہے؟ اور کون کون غدار ہے؟

ڈھکن فسادی: اس کے علاوہ محمود اچکزئی بھی غدار ہے۔

ہم: وہ کیوں غدار ہے؟

ڈھکن فسادی: وہ خود کو افغان کہتا ہے۔

ہم: لیکن افغان تو ایک قوم ہے۔ پٹھان قوم کو روایتی طور پر افغان ہی کہا جاتا رہا ہے خواہ وہ بارڈر کے اُس پار رہتی ہو یا اِس پار۔

ڈھکن فسادی: یہ بہلاوے کسی اور کو دو۔ ہم ان سب کی حقیقت جانتے ہیں۔ دل سے یہ خود کو کابل کا شہری ہی سمجھتے ہیں۔

ہم: لیکن صرف نعرے لگانے پر غداری کا مقدمہ قائم کرنا مشکل ہے۔ ہمارے قانون میں اگر کوئی مثال موجود نہ ہو تو عدالتیں پھر سب سے پہلے بھارتی قانون کو دیکھتی ہیں۔ اور بھارتی قانون کہتا ہے کہ صرف نعرے لگانے سے غداری ثابت نہیں ہوتی ہے، ساتھ عملی کام بھی کرنا ہوتا ہے۔ بھارتی قانون میں کہا گیا ہے کہ ایسے نعرے باغیانہ نہیں ہوتے اگر یہ اکیلے ہی لگائے جائیں اور ان کے ساتھ کسی قسم کی بڑی سکیم تشدد پر اکسانے کی نہ ہو۔

ڈھکن فسادی: بھارتی تو ہیں ہی مکار اور دغا باز۔

ہم: محمود اچکزئی کو خاندان سمیت اتنے اہم حکومتی عہدے دیے گئے ہیں۔ اگر وہ غدار ہیں تو سول یا فوجی انتظامیہ ان کو حکومت کیوں دے رہی ہے، ان کو جیل میں کیوں نہیں ڈالتی؟ ان ایجنسیوں کے پاس تو عام لوگوں کے مقابلے میں بڑے پکے ثبوت ہوتے ہیں۔

ڈھکن فسادی: دیکھو وہ برے کی رسی دراز کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور حجت تمام کرتے ہی ان کو پھانسی دے دیں گے۔

ہم: دیکھیں بھیا، یہ آج کے باغی پکڑ کر کیا کرنا ہے۔ پھر تو شروع دن سے ہی باغی پکڑنے شروع ہو جاتے ہیں اور تمام بھارتی ایجنٹوں کو کیفر کردار تک پہنچا دیتے ہیں۔

ڈھکن فسادی: ہاں یہ بات مناسب کی ہے تم نے۔ میں الطاف حسین اور محمود اچکزئی کے علاوہ ان سب غداروں کے نام بھِی ڈھکن پر لکھنا شروع کر دوں گا۔ بس ان کے نام بتاؤ تم۔

ہم: تو پاکستان کی تاریخ میں سب سے پہلے حکومت کی طرف سے غداری اور بھارتی ایجنٹ ہونے کا خطاب جنرل ایوب خان کے دور میں محترمہ فاطمہ جناح کو دیا گیا تھا۔

ڈھکن فسادی: یہ کیسے ممکن ہے؟

ہم: یہ پاکستان ہے بھیا، یہاں سب کچھ ممکن ہے۔ اقتدار کا معاملہ ہو تو مادر ملت کو غدار بھی کہا جاتا ہے اور غدار قرار دیے جانے والے جی ایم سید کے گھر مجاہد اعظم جنرل ضیا الحق شہید حاضری دے کر نیاز مندی بھی ظاہر کرتے ہیں۔ اسے ہی سیاست کہتے ہیں۔ کئی مرتبہ غدار قرار پانے والوں کو اگلی نسلیں عظیم ترین محب وطن قرار دے دیتی ہیں۔

ڈھکن فسادی:   نئی نسل تو ہوتی ہی گمراہ  ہے۔

عدنان خان کاکڑ
اس سیریز کے دیگر حصےبھیا ڈھکن فسادی نے سماج سدھارابھیا ڈھکن فسادی کی ڈائری: ٹرمپ کی فتح

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments