درخت کی رہائی میں مدد چاہئے


\"asgharمجھے ایک درخت کو رہا کرانا ہے۔ جو گزشتہ ایک سو اٹھارہ سالوں سے زنجیروں میں قید ہے۔ اس دوران اس پر بے شمار موسم گزرے۔ پت جھڑ، بہار، برسات، سرما، گرما مگر وہ ثابت قدمی سے اپنی سزا کاٹ رہا ہے۔ کسی نے اس کا مقدمہ کسی عدالت میں پیش نہیں کیا۔ کسی نے اس کی درخواست ضمانت عدالت کے روبرو پیش نہیں کی۔ اس پر موسم پر موسم گزرتے رہے لیکن وہ ہرا بھرا رہا۔ وہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ پھر بھی چھاؤں دیتا ہے۔ یہ درخت برگد کا ہے۔ برگد سے سو کہانیاں سو افسانے وابستہ ہیں۔ برگد کے نیچے صوفیا سنتوں نے بسرام کیا اور تپسیا کر کے نئی روشنی پائی۔ برگد کو یہ سزا کس نے دی؟ زنجیروں سے جکڑے اس برگد پر اس کی سزا کی تاریخ درج ہے۔ یہ برگد کا پیڑ لنڈی کوتل خبر ایجنسی میں خیبر رائفلز میس کے احاطے میں قید ہے۔

برگد کے اس پیر کو 1898 کی ایک شام برطانوی فوجی افسر نے یہ سزا دی۔ واقعہ یہ ہوا کہ برطانوی افسر جو اس میس میں رہتا تھا۔ ایک شام شراب کے نشے میں وہاں سے گزرا تو اسے محسوس ہوا کہ یہ درخت اس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کی طرف آ رہا ہے۔ اسے محسوس ہوا کہ یہ درخت اس پر گر جائے گا۔ اسے نقصان پہنچانے کے لئے اس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس لئے اس نے میس کے سارجنٹ کو حکم دیا کہ اس گستاخ برگد کو فوراً گرفتار کیا جائے۔ اس کی حکم کی تعمیل ہوئی۔ اور برگد کے پیر کو زنجیریں پہنا دی گئیں۔ اس دن سے یہ برگد زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ آج ایک انگریزی اخبار کے فوٹوگرافر شہباز بٹ نے یہ تصویر شائع کی ہے۔ برگد کی رہائی 1947 میں تو ہو ہی جانی چاہئے تھی کہ پاکستان وجود میں آ گیا تھا۔ لیکن یہ رہائی عمل میں نہ آسکی۔ نہ اس کا مقدمہ پاکستان کی آزاد عدلیہ میں پیش ہوسکا۔ نہ کسی نے اس کے لئے درخواست دی۔ آج میں اس برگد کے پیڑ کا مقدمہ آپ سب کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ میں عدالت میں نہیں جا رہا۔ آپ سب پڑھنے والوں سے اس برگد کے پیڑ کی رہائی کے لئے مدد مانگ رہا ہوں۔ ہم اس پیڑ کی رہائی کے لئے مہم چلاتے ہیں۔ جو بھی یہ پڑھے اسے اگر اس مہم میں شامل ہونا ہے تو وہ رہائی کے لئے اپنا ووٹ دے۔ میں چاہتا ہوں ہم یہ کیس لوگوں کی مدد سے جیتیں۔ ہمیں کسی عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹانا۔ کسی سے مدد نہیں مانگنی۔ برگد کے پیڑ کو انسانوں نے رہائی دلانی ہے۔

اگر یہ برگد ایک سو اٹھارہ سالوں سے قید ہے تو ہم سے کس نے کہا ہم آزاد ہیں۔ ہم بھی تو ایک سو اٹھارہ سالوں سے انہی زنجیروں میں \"tree\"جکڑے ہوئے ہیں۔ صرف یہ زنجیریں دکھائی نہیں دیتیں۔ کسی اور شکل میں موجود ہیں۔ ہمیں برگد کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جس نے ہمیں بتایا کہ ہم ابھی تک غلام ہیں۔ جس انگریز افسر نے اسے یہ سزا دی تھی۔ وہ تو کہیں مرکھپ گیا ہوگا۔ اس کی سزا کے خلاف ہم دعویٰ کہاں دائر کریں۔ ظاہر ہے ہم نہیں کر سکتے۔ اس لئے ہم لوگوں کی مدد سے اس کی زنجیریں کاٹیں گے۔ اگر مجھے لوگوں کی مدد حاصل ہوئی تو ہم خیبر پختونخوا جا کر سب کی مدد سے یہ زنجیریں کاٹ دیں گے۔ ہمیں برگد کو رہائی دلانی ہے۔ برگد الله والوں کا درخت ہے۔ ہم انشا اللہ چودہ اگست 2017 کو خیبر ایجنسی جائیں گے اور برگد کو رہائی دلوائیں گے۔ پھر ہر سال چودہ اگست کو آزادی کی سالگرہ منائیں گے۔

برگد کے پیڑ پر عالمی ادب میں بے شمار کہانیاں اور نظمیں لکھی گئی ہیں۔ ہم ان سب ادیبوں اور شاعروں سے شرمندہ ہیں۔ جو دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں اور جو اس دنیا میں نہیں رہے ہم ان کی روحوں سے شرمندہ ہیں۔ برگد کا جو بھی پتا اگتا ہے وہ غلام پیدا ہوتا ہے۔۔ اب تک ایک سو اٹھارہ بہاروں میں کتنے غلام پتے پیدا ہوئے اور پت جھڑ میں غلامی ہی میں پیڑ سے گر گئے۔ اب ان پتوں کا حساب کون دے گا۔ خیبر رائفلز میں اب تک جو بھی افسر آئے سب نے اس کو زنجیروں میں دیکھا کسی نے یہ جرات نہیں کی کہ اس کی زنجیریں کھلوا دی جائیں۔ شاید یہ ہمارے افسر بھی اس انگریز افسر کی طرح ہر شام وہاں سے گزرتے ہوئے محسوس کرتے ہیں کہ برگد کا پیڑ ان کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ان کے اوپر گرنا چاہتا ہے۔ یہ خوف ہر شام ہر افسر محسوس کرتا ہے۔ اسی لئے تو کسی نے یہ جرات نہیں کی کہ اس کو رہائی دلا دے۔ اس فوجی میس میں کیا کوئی بار ہے؟ اس بار میں کیا اب تک شراب ملتی ہے کیا؟ کیا آج بھی اس شراب کی تاثیر یہی ہے کہ برگد کو حرکت میں لے آتی ہے؟ بہت سے سوال ہیں۔ برگد خاموش ہے۔ وہ بول نہیں سکتا۔ مگر اس سے پوچھا جاسکتا ہے کہ اے بھلے مانس برگد تو رات کو شرابیوں کو کیوں ڈراتا ہے۔ ایک سو اٹھارہ سالوں سے تو انھیں ڈراتا رہا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے۔ اب تو برگد زنجیروں میں جکڑا ہے۔ پھر بھی رات کو کیوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ افسروں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ بھید پانے کے لئے ہم برگد کے نیچے بیٹھیں گے اور پھر میرے پڑھنے والوں نے مدد دی تو ہم اسے رہا کرائیں گے۔ مجھے پڑھنے والوں کی رائے کا انتظار رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments