دال ہی تو ہے نہ سنگ و خشت۔۔۔۔۔۔


\"asif-zahri-2\"اخبار میں شایع اس خبر پر، آپ کی بھی نظر پڑی ہو گی کہ شادی کے استقبالیہ کے موقع پر ،ایک صاحبِ دل نے دولہا اور دولہن کو دو پیکٹ دال بطور تحفہ عنایت کی۔ میں بھی اسی تقریب کا حصہ تھا۔ مت پوچھیے کہ اس عمل پرکیسا ہنگامہ برپا ہوا جیسے تحفے میں دُلہن کودَال کے بجائے، کسی نے دِل دے دیا ہو۔ ایک صاحب نے تو موقع و محل کی مناسبت سے ایک شعر بھی دے مارا:
دال میں آؤ، آکے بس جاؤ۔ راجدھانی ہے دال ، اخوت کی
محفل قدرے شاعرانہ ہوئی تو براتیوں نے گنگنانا شروع کر دیا \” دال والی دلہنیا لے جائیں گے\”۔صحافی حضرات شعرا ءسے کیوں کر پیچھے رہتے۔ وہ بھی \”تم دال دال تو ہم دَلہن دُلہن\” کہہ کر کود پڑے۔ پھر تو فلش کے جھماکوں سے\”داغ داغ اجالا\” کے بجائے\” دال دال اجالا\” کی کیفیت پیدا ہو گئی اور رپورٹر اس واقعے کو باقاعدہ کَوَر کرنے کے لیے دولہا دلہن اور تحفہ دینے والے کا انٹرویو کرنے لگے۔ متعدد لوگوں سے با یٹ (BITE) لی گئیں۔ لیکن مجھے دولہا اور دلہن کی طرف سے دی گئی بایٹ اور لب و لہجہ آج بھی یاد ہے۔ انہوں نے نہایت دلگیر بلکہ \”دالگیر\” لہجے میں کہا کہ یہ جنس گرانی کے سبب کم ہی دکھتی ہے۔ اگر گرانی کی رفتار اور لوگوں کی \”دال گرفتگی\” اور\” دال فریفتگی\” کا یہی عالم رہا تو اس کے دیکھنے اور دکھانے پر بھی ٹکٹ لگ سکتا ہے۔ اس واقعے سے یاد آیا کہ حضرت غالؔب بھی غالبا \”دال گرفتگی\” اور \”دال فریفتگی\” میں مبتلا تھے۔ یقین نہ آئے تو غالؔب کی یہ رباعی ملاحظہ فرمائیں:
بھیجی ہے جو مجھ کو شاہِ جمِ جاہ نے دال ۔ ہے لطف و عنایاتِ شہنشاہ پہ دال
یہ شاہ پسند دال، بے بحث و جدال ۔ ہے دولت و دین و دانش و داد کی دال
ان مصرعوں سے گذرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ بہادرشاہ ظفؔر نہ صرف ملک و ریاست اور دل کے بادشاہ تھے بلکہ بادشاہِ دال بھی تھے اور حضرت غالؔب \’ دَالکش\’، جن کی دِلکش \’دَالکشی\’ کے عناصر محولہ بالا رباعی سے چھلکے پڑ رہے ہیں۔واضح رہے کہ رباعی میں سنجیدہ باتیں ہی کہی جاتی ہیں۔ اگر اس صنف کی سنجیدگی کو آپ تسلیم کرتے ہیں تو آپ کو یہ بھی قبول کرنا پڑے گا کہ دال دولت کے علاوہ جزوِ دین و دانش بھی ہے۔ بین السطور اور بھی بہت کچھ ہے جو\”ظرف ِتنگنائے رباعی\” اور\” وسعتِ بیانِ دال\” کے سبب بظاہر، تخلیق کا حصہ بننے سے رہ گئیں۔ اور غالب کو بہادر شاہ ظؔفر کے کلام پر تضمین کرتے ہوئے \”غیر از دال کوئی حائل نہیں رہا\” کا ادراک ہوا۔پھر\”عدم ِدالنوازی\” کا درد تضمین کا حصہ بن گیا:
تم جو فرماتے ہو، دیکھ اے غالب ِآشفتہ سر۔ ہم نہ تجھ کو منع کرتے تھے، گیا کیوں اس کے گھر؟
جان کی پاؤں اماں، باتیں یہ سب سچ ہیں مگر۔ کی خرابی دال نے سب ،لے گیا مجھ کو ظؔفر
دال کے انکار سے توقیر آدھی رہ گئی
\”عدم دالنوازی\” کی یہ شکایت محض غالب سے ہی مختص نہیں ہے بلکہ کم وبیش تمام شعرا کے یہاں یہ احساس کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ مثلا میر ؔجی کہتے ہیں:
ایسی حرکت دال نہ دینے کی جو کی ہے۔ کھائے گا اگر مؔیر تو حیران رہے گا
میرؔ وغالب کے علاوہ بیشتر شعرا دال نشیں ، دالنواز، دالدار، دال رفتہ، دالِ بے زار، دال بیتاب، دال بستگی ،وحشت دال اور گوشہ دال وغیرہ جیسی خوبصورت تراکیب کا استعمال کرنا چاہتے تھے لیکن \”دال\” کی شکل و صورت اور رنگ کے سبب نیز اوزان و بحور کے تقاضوں سے مجبور ہو کر انہیں \”دال\” سے درگزر کرنا پڑا۔ تجنیس صوتی کے علاوہ ہیئت مماثلت کی بناء پر شعراء حضرات نے دال کا نعم البدل دل میں تلاش کر لیا۔ فرض کر لیجیے کہ اگر شعراء حضرات \’دل\’ کے بجائے \’دال\’ کا استعمال کرتے تو تو ناقدین وقت اس کی تشریح میں یوں رطب السان ہوتے۔ کہ سلوک کی دیگر منازل کی طرح یہ بھی ایک اہم منزل ہے جس کے مطابق \”گم کردنِ دال\” گویا طریقت کی معراج ہے۔ محض ایک شعر پر اکتفا کرتےہوئے غالب کا یہ شعر ملاحظہ ہو جس میں وہ \”گم کردنِ دال\” کو وہ اپنا مقصود و مدعا قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:
کہتے ہو ،نہ دیں گے ہم دال ،اگر پڑی دیکھی۔ دال کیا؟ کہ گم کیجے، ہم نے مدعا پایا
منزل طریقت سے قطع نظر، آج \”گم کردنِ دال\” دال کی گرانی کے سبب اجتماعی لا شعور میں ایک قومی سانحے کی صورت \”دال گزیں\” ہو چکا ہے۔ظاہر ہے، ایسی صورت میں اس کے معنی و مفاہیم میں بھی تبدیلی لازمی ہے۔ اس کا اندازہ اس\” لطیفہ مقبول عام و خاص\” سے بھی ہوتا ہے، جس کے مطابق ایک دولہا، شادی کی پہلی رات ،دلہن سے روا روی میں پوچھ بیٹھا کہ تمہارے \”بوائے فرینڈس\” کی تعداد کتنی ہے؟ دلہن نے شفاف پلاسٹک کا ایک پیکٹ، جس میں چند دال کے دانے اور مبلغ تین سو روپے تھے ،بڑی ہی \”دالنوازی\” سے آگے کر دیا۔ دولہے نے استفسار کیا۔ یہ کیا؟ تو اس نے جواب دیا کہ جب بھی کوئی مرد میرا دوست بنتا تھا تو میں دال کا ایک دانہ اِس پیکٹ میں ڈال دیا کرتی تھی۔ \”دالفریبی\” میں مبتلا، دولہے نے دھڑکتی ہوئی دالوں کو گننا شروع کیا جن کی تعداد ، کل جمع صرف سات نکلی۔ اس نے سکون کی سانس لیتے ہوئے دریافت کیا کہ یہ تین سو رووپیے کیسے ہیں؟ تو دولہن نے بڑی ہی \”صاف دالی\” اور کشادہ دالی\” سے جواب دیا \”آج قیمت اچھی مل رہی تھی اس لیے ایک کلو دال فروخت کر دی۔\”شاید ایسے ہی مواقع کے لیے \”دال آزاری\” کی اصطلاح مستعمل ہے۔\” شکستہ دال دولہا\” دال ہاتھوں میں لیے ، دل مسوس کر رہ گیا۔دولہن سمجھاتی رہی کہ \” دال ہی تو ہے نہ سنگ و خشت۔۔۔\”۔ ادھر،دولہے میاں کو شدت سے \”دال کا دولہا\” یاد آرہا تھا جو دال کا اضافی نمک اور تلخی اپنے اندار جذب کر کے دولہے کے مانند پھول جاتا ہے۔ بیان کرنے والے بتاتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد دولہے کے دل پر دال اس طرح نقش ہو گئی کہ وہ بیچارہ اسے دیکھتے ہی اختلاجِ قلب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
\”دال کا دولہا \”گُندھے ہوئے آٹے سے تیار کیا جاتا ہے جبکہ دالیں \”دَلہن\” سے تیار کی جاتی ہیں، جو دال میں تبدیل ہونے سے قبل عموما مؤنث، تو استثنائی صورت میں مذکر بھی ہو تی ہیں۔ مثلا ارہر، مسور، مونگ، مٹر وغیرہ مونث ہیں جبکہ \’چنا \’مذکر ہے۔ لیکن دَلہن سے دال میں تبدیل ہوتے ہی سب کے سب خالص مونث میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ بعینہ لڑکیوں کے نام خواہ نفیس، نسیم،یا لطیف ہو دُلہن بنتے ہی خالص تانیثی صفات ان میں اجاگر ہونے لگتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ دَلہن کو دل کر دال بناتے ہیں جبکہ لڑکیاں دُلہن بننے کے بعد سینے پر دال دلتی ہیں۔ تاہم لڑکی اور لڑکے کے درمیان شادی کے کیمیاوی عمل سےازدواجی زندگی جنم لیتی ہے جیسے دال اور چاول کو باہم ملا کر پکانے سے کھچڑی معرض وجود میں آتی ہے۔ جس میں نہ تو دال دال رہتی ہے اور نہ ہی چاول چاول ۔ اس طرح کے اختلاط سے پیٹ پر بوجھ نہیں پڑتا لیکن ایک غریب کا جیب \”کشش ثقل سماوی \” کی گرفت میں ضرور آ جاتا ہے۔ یہ بے چارے مریض کو \”دالدار\” کھچڑی فراہم کرکے ، خود دال میں پانی ملا ملا کر کھاتے ہیں اور اگر بار بارپانی ملانے کے عمل سے دال کھٹی ہو جائے ،تو بھی \”سانبھر\” سمجھ کر نوش جان کر جاتے ہیں اور \”گم کردنِ دال\” ایک قومی سانحے کے ساتھ ساتھ ایک خاندانی عارضہ بھی بن جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ نیک لوگ مہمانوں کو دسترخوان پر مدعو کرتے ہوئے یہی کہتے ہیں کہ \”جو بھی دال دلیا ہے تناول فرمائیں\”۔
\”گم کردنِ دال\” کے عظیم سانحے کا احساس پڑوسی ملک کی ایک خبر سے بھی ہوتا ہے۔ جس کے مطابق ایک عورت اپنے شوہر کی بیماری سے زیادہ، ڈاکٹروں اور حکیموں کی تجویز کردہ غذا \” پتلی دال\”سے پریشان ہو کر سرکاری راشن کی دکان سے ہر بار مزید دال کا تقاضہ کرتی تھی۔ راشن والوں نے پریشان ہو کر راشن کارڈ میں شوہر کو مردہ اور عورت کو بیوہ درج کرکے دال اور دیگرا جناس کو مزید کم کر دیا۔ عورت نے دکان اور متعلقہ دفاترکے متعدد چکر لگائے لیکن \”دال طلبی\” کی کوئی صورت پیدا نہ ہو سکی۔ مجبورا ، ایک روز وہ اپنے بیمار شوہر کو لے کر پہنچی اور کہا کہ دیکھو اس کو ! میں بیوہ نہیں ہو ں۔ میرا کارڈ درست کرو اور مجھے مزید دال بھی دو۔ انسپکٹر نے بڑے ہی اطمینان سے میز کی دراز کھولی ۔ پستول نکالا اور اس کے شوہر کو شوٹ کرتے ہوئے کہا۔ جاؤ بی بی! تمہارا کارڈ بھی درست ہو گیا اور تمہیں تمہارے سینے پر دال دلنے والے سے بھی نجات مل گئی۔
دال کی قیمتوں پر قابو پانے کے سلسلے میں اگر\’ دال نہ گلے\’ تو ارباب حل و عقد کو اس طرح کے حل تلاش کرنے ہی پڑتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ایسی صورت میں \”دال میں کچھ کالا ہونے\” یا \”پوری کی پوری دال کالی ہونے \”کا الزام بھی ضرور لگایا جاتا ہے۔ پھر فریقین سب کچھ بھول کر، جوتیوں میں اس طرح دال بانٹنا شروع کر دیتے ہیں کہ غریبوں کی روٹی اوردال بھی کباب ہو جاتی ہیں اور وہ تہی دست ، افسردئہ دال، بے چارے غریب، ہمنواء غالب بن کر\”غبار ِدال \”یوں نکالتے ہیں:
جلی ہے دال تو روٹی بھی جل گئی ہو گی ۔کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
ذرا تصور کیجیے، ایسے ہی پیمبرانہ وقت میں اگر کوئی بن بلایامہمان ،مانندِ بلا نازل ہو جائے تو میزبان کو دسترخوان پرکیسے کیسے اشعار یاد آئیں گے۔ اگر وہ غالؔب کا طرفدار ہوا تو مہمان کو مخاطب کر کےکہے گا :
دال گم، ورنہ دکھاتا تجھ کھانوں کی بہار ۔ ان پلیٹوں کا کروں کیا کار فرما جل گئی
اور میزبان دل ہی دل میں کہے گا:
حاکمِ وقت نے معذور بنا رکھا ہے۔ پھر بھی روٹی کو شہِ دال کے ارماں ہوں گے
اگر وہ حضرت فیض سے فیض یافتہ اور عروض و بحر سے باختہ ہو ں تو شاید\” پھر کوئی آیا، دالِ زار\” بھی گنگنا سکتے ہیں اور اگر فلمی نغموں سے متاثر ہوں تو \”دال کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے\” کا ورد کریں گے۔
بالفرض جوتوں میں دال بٹنے کے دورانیے میں اگر \”صاحبِ دال\” نے \”لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے \” سے درگذر کرتے ہوئے، پاسبانی عقل کے سبب \”خطابِ دال جلا\” سے پہلو تہی کر لی اور اپنی دال کو جلنے سے بچا لیا ، تو بھی وہ خشک ہو کر \”مرہم دال\” جیسی شکل تو ضرور اختیار کر لے گی ایسی صورت میں روٹی سے \”شگفتہ دالی \”کی توقع کرنا عبث ہے۔ہاں ! \”روٹی کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھاہے\” کا تصور کر کے حلق سے یہ کہتے ہوئے اتارا جا سکتا ہے۔
دونوں الگ پڑے ہوئے ہیں دال و نان اب۔ جوشِ لعاب نطق پہ لقمہ بنے ہوئے
غالبا اسی لیے دال اور نان کے درمیان توازن کو دانشوروں نے ضروری قرار دیا ہے ۔دال کو نظر انداز کرکے سارا وقت روٹی کی طلب میں صرف کرنا یا سارا کا سارا وقت ان میں سے کسی ایک کو پکانے پر لگا دینا قطعی مناسب نہیں۔ اس نکتے پر صاد کرتے ہوئے اس شعر کو دیکھیں:
یاد ِناں اتنی خوب نہیں، میؔر باز آ۔ نادان !پھر وہ دال سے کھائی نہ جائے گی
زاہد خشک کی ہدایت، عابد خشک کی رفاقت میں دلِ عصیاں فریاد کرتا ہے تو \”دالِ خشک\” کی معیت خوانِ نعمت پر گراں گذرتی ہے۔ زاہد و عابد ایک چھوٹے سے گناہ سے رقیق القلب اور \”دالِ خشک\” تھوڑے سے پانی سے \”رفیق النان\” بن جاتی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ مذکورہ دونوں کام نظر بچا کر کیے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ علانیہ پانی کی آمیزش آپ کو \”دَالدار\” سے محض\”آبدار \” بنا سکتی ہے۔ مزید برآں، عام تصور ہے کہ پتلی دال \”عدم دالنوازی\” اور غربت پر دلالت کرتی ہےیا پھر یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ آپ \’مہمان بلائے بےدرماں\’ ہیں۔ جیسا کہ میرے ایک حیدرآبادی دوست کے ساتھ ہوا۔ ہوا یہ کہ ہم دونوں اتفاق سے ،عین کھانے کے وقت ایک صاحب کے گھر پہنچے۔ صاحب خانہ کھانا شروع ہی کرنے والے تھے ۔ رسما انہوں نے ہمیں بھی دعوت دے ڈالی۔ ہم نے بھی \”جزاک اللہ\” کا سکہ ایک بار ہوا میں اچھالا اور دوسری بار کہتے ہی پرہاتھ دھو کر بیٹھ گئے۔ اشیاءطعام میں اضافے کی غرض سے وہ روٹی دال اور سبزی کے برتن اند رلے گئے۔ چینی کی سفید مسطح بڑی بڑی پلیٹیں لگائیں۔ شیشے کے گلاس سجائے۔ کچھ دیر کے بعد قدرے اضافے کے ساتھ سبزی، گرما گرم آملیٹ اور روٹیاں لا کر رکھیں۔ ایک قاب میں دال، جس کو ہم جیسوں سے نپٹنے کے لیے وسیع القلبی اور \”زندہ دالی\” کے ساتھ گرما گرم پانی پلایا گیا تھا، لا کر رکھ دی۔ انہوں نے ہمارے پلیٹوں میں سبزی اور آملیٹ نکالے، ایک گوشے میں روٹیاں رکھیں پھر اسی پلیٹ میں پتلی سی، پیلے رنگ کی ، رقیق شئے، جس میں خال خال \”دال ِ شکستہ\” کے باقیات موجود تھے، نکالی۔ وہ ایک گوشے پر بھلا کیا اکتفا کرتی۔ فاتح فوج کی طرح اس نے سارے پلیٹ پر قبضہ کرلیا۔ روٹی \” اے دالِ بے تاب ٹھہر\” کی صدائے احتجاج بلند کرتی رہی لیکن وہ پلیٹ میں موجود ہرشئے کو اپنے رنگ میں رنگتی چلی گئی بلکہ سکڑی ،سمٹی، گوشہ نشیں روٹی کو بھی شرابور بلکہ\”دال بور\” کر گئی ۔ میں روٹی کو بچانے کی حتی المقدور کوشش کرتا ہوں، لیکن دال:\”دال ہے کہ مانتی نہیں\”اور میرے دوست کے منہ سے بے ساختہ نکلا:
دلِ حسرت زدہ تھا مائدہِ لذتِ نان۔ کام روٹی کا بہ قدرِ لب و پیٹاں نکلا
صرف بن بلائے مہمان کی آمد سے ہی دال پتلی نہیں ہوتی بلکہ بیماریاں بھی اس کو پتلی کر دیتی ہیں۔ ایسی پتلی شئے عموما مونگ کی دال سے تیار کی جاتی ہے لیکن اپنی \”صحیح اور سالم\” صورت میں یہ اچھوں اچھوں کے چھکے چھڑا دیتی ہے۔ آپ خود ہی تصور کر لیجیے کہ آپ کے سینے پر اگر مونگ دلی جائے تو آپ کو کیسا لگے گا؟ لیکن اس محاورے کی تفہیم ، کوہ پیمائی کی مہم کے دوران پیداہوئی۔ جب ہمارا گروپ \”مون لیک \” (MOON LAKE)کے قریب ،شام کے وقت، ایک اونچی چوٹی پر، مجبورا خیمہ زن ہوا، جہاں ہوا بہت تیز تھی۔ ہم نے پتھر وغیرہ کھڑے کر کے اسٹوپ جلایا۔ بیگ میں کچی مونگ دال، چاول ،چنا وغیرہ موجود تھا۔ مونگ دال اس لیے لے کر چلے تھے کہ یہ آسانی سے گل جاتی ہے ۔ ایک کوکر میں مونگ دال اور ایک میں چاول چڑھایا۔ چاول تو تیار ہو گیا لیکن اونچائی زیادہ ہونے کی وجہ سے\” دال ہے کہ گلتی ہی نہیں\”۔ دو تین بار کوکر کھول کر، ٹارچ کی روشنی میں دیکھا۔ وہ ہنوز کوکر میں مونگ دلتی رہی۔ کیپٹن نے میرے ہاتھوں سے ٹارچ لے لی کیونکہ ٹینٹ نصب کرنے کے لیے اس کی ضرورت تھی۔اسی دوران \’کوکر\’ نے مزید دو تین سیٹیاں دیں۔ دن بھر کی شدید چڑھائی کے بعد آنتیں بھی قل ھو اللہ پڑھ رہی تھیں اس لیے ٹارچ کے انتظار کے بجائے ،میں نے موم بتی روشن کی۔ کوکر کھولا۔ موم بتی کو \’کوکر\’ کے اوپر لے جا کر دال چیک کرنے لگا لیکن بھاپ اور ٹھنڈک کے سبب موم بتی ہاتھوں سے پھسل کر\’ کوکر\’ میں جا گری۔ کفگیر تو تھی نہیں ،اس لیے لکڑی سے اس کو تلاش کرنا شروع کیا۔ تلاش بسیار کے بعد موم بتی تو نہیں البتہ اس کا دھاگہ لکڑی کے ساتھ ، چپکا ہوا، برآمد ہوا۔ پیٹ، موسم اور اونچائی دوبارہ\’ کوکر\’ چڑھانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے اس لیے ہم نے اس میں پہاڑپر جمی برف کے چند ٹکڑے ڈالے۔ جمی ہوئی موم کو انگلیوں سے باہر نکالا۔ تھوڑا گرم کرکے پتلی ترین \”موم دال\” اطمینان سے کھا لی۔
مذکورہ واقعہ دلالت کرتا ہے کہ دال کے پتلی ہونے کے اسباب مختلف ہو سکتے ہیں۔ ویسے ایک \’دال\’ اردو ادب میں بھی مستعمل ہے ۔ وہ ہے \”دال\” و\” مدلول\” والی دال۔ پتہ نہیں اس کاا ستعمال اشیاء خوردنی کے طور پر کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ لیکن میرا دل گواہی دیتا ہے کہ دال \”دال\” ہے جبکہ روٹی یا چاول \”مدلول\”۔ لیکن روٹی کو \”مدلول \”کہنا کچھ بھلا نہیں لگتا۔ ہاں \”دالبور\”چاول کے لیےاس کا استعمال مناسب لگتا ہے۔ مثلا \”مدلول چاول\” یعنی ایسا چاول جو وافر مقدار میں دال کے ساتھ گوندھا گیا ہو۔ خواہ دال کسی قسم کی ہو۔ یعنی خواہ دال کالی ہو ، دال پیلی ہو ، دال مکھانی ہو ، ملائی دال ہو، کھڑی دال ہو، دالِ شکستہ یعنی ٹوٹی دال ہو یا مسور کی دال ۔ تمام صورتوں میں دال\” دال\” ہی رہتی ہے اور تمام صورتوں میں چاول، کمیت، کیفیت، رنگ بدلنے کے باوجود \”مدلول\” ہی رہتا ہے۔ دال مدلول سے قطع نظر مسور کی دال صرف منہ سے ہی کھائی جا سکتی ہے۔ محاورہ تو یاد ہو گا؟ \”یہ منہ اور مسور کی دال\”۔ ویسے اگر دال اپنے کھیت کی پیدا کردہ ہو تو پکنے پرعموما خشک ہو جایا کرتی ہے اور \”شوہرانہ زبان\” میں محاورہ تبدیل ہو کر \” گھر کی دال مرغی برابر\” ہو جاتا ہے۔ایسے گھروں کی نیز دال کی دلالی کرنے والوں کی دال، برسات کے دنوں میں نمی کی وجہ سے ایک دوسرے سے چپک جاتی ہیں جن کودیکھ کر محاورہ: \”زخموں کے انگور بندھنا\” کو \” دالوں کے انگور بندھنا\” میں تبدیل کر نے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ واقعی اس کی گرانی خم ٹھونک کے زخم دئے جارہی ہے کہ کراہتے ہوئے لوگ کہتے ہیں:
بنیوں سےاب تو دال کو آزاد کیجیے ۔اجڑے ہوئے گھروں کو پھر آباد کیجے
اس کے باوجود ، نہ جانے کیوں،صاحبان اقتدار کا نعرہ ہے \” دال روٹی کھاؤ، پربھو کے گن گاؤ۔ شاید \’پربھو\’ ان کے کسی منسٹر یا عزیز کا نام ہو گا۔ لیکن میرا مشورہ ہے کہ \”اگر دال روٹی میسر نہ ہو تو عوام کو کیک کھا کر\” انقلاب کے ترانے گانا چاہیے۔

ڈاکٹر محمد آصف زہری
Latest posts by ڈاکٹر محمد آصف زہری (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر محمد آصف زہری

ڈاکٹر محمد آصف زہری، دہلی کی جواہر لال یونیورسٹی میں شعبہ لسانیات سے وابستہ ہیں۔

asif-zahri has 3 posts and counting.See all posts by asif-zahri

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments