ہم قیدی برگد کو کیسے آزاد کرائیں؟


\"saminaمحترم اصغر ندیم سید صاحب

آداب وتسلیمات!

امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضور! آپ نے کالم لکھا اور کالم میں برگد کے قید درخت کی داستان سنائی۔ استاد ہیں۔ جانی پہچانی ہستی ہیں۔ خود کو اس قابل نہیں سمجھتی کہ سوال کر سکوں ۔ کیا کیجئے کہ ہم طالب علم ہیں۔ اور طلب علم سوال کرنے پر مجبور کئے دیتی ہے۔ حضور 15اگست ہو یا 14اگست، اتنا جانتے ہیں ہر سال ہم آزادی کا جشن مناتے ہیں۔ اور اپنے بچپن سے مناتے آئے ہیں۔ کہیں سیکولر پاکستان کے نعرے اُٹھتے ہیں تو کہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے۔ کہیں سے خون کی ہولی لال رنگولی کے بھبھوکے اُٹھتے ہیں تو کہیں جانوروں سے بدتر سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ سرکاری دفاتر کے چپڑاسی کی قدر و عزت معاشرے میں ایک عیسائی ، سکھ سردار سے زیادہ ہے۔ بشرط یہ کہ چپڑاسی مسلمان ہو۔ کہیں تعلیمی اداروں کے در بھاری فیسوں کے باعث ہم پر بند کیے جاتے ہیں تو کہیں تعلیم اس لئے بھی میسر نہیں کے لڑکیوں کے دماغ ذرا جلدی خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ اور رہ گئے لڑکے تو بھئی انہیں تو کمانا ہے۔ پڑھیں گے تو نوکری کریں گے۔ بڑھاپے کا سہارا بنیں گے۔ اور جناب لڑکا سرکار تین نمبر لئے سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے پائے جاتے ہیں۔ کوئی بات نہیں آج نہیں تو کل پاس ہو ہی جائیں گے۔

جہاں لڑکیوں کو تعلیم کے مواقع میسر ہیں وہاں فیشن بہت ہے۔ لپ اسٹک پاؤڈر والا فیشن نہیں، ڈاکٹر بنانے، انجینئر بنانے، بینکر بنانے کا فیشن تا کہ اچھے رشتے مل جائیں۔ نوکری تو اس لئے نہیں کرائی جاتی کہ لوگ کیا کہیں گے۔ کوئی لڑکی گھر سے باہر چاہے مارکیٹ ہی جائے یہاں کے بوڑھوں تک کی نسیں پھولنے لگتی ہیں۔ جہاں دن دیہاڑے تشدد پر خاموشی اور محبت پر ناک کٹائی، مار کٹائی اور قتل ہوتا ہو، جہاں جہاں پودوں کو لگانے سے زیادہ درختوں کی کٹائی پر زور دیا جاتا ہو۔ سڑکوں پر کچرا بکھرا ہو، جہاں بلیوں کو کھلے عام سڑکوں پر گھومنے کی آزادی ہو اور چوک چوراہے پر کسی بھی برتن میں منہ مار کھانا جھپٹ اُٹھانے کی عادت ہو، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بلیاں کتے تو آزاد ہوں مگر انسان جس کے لئے ملک بنایا گیا ہے وہی آزاد نہیں۔جہاں بجلی کی قیمت غریب کی آمدنی سے بڑھ کر ہو۔ جہاں خواجہ سرا کے چلنے پر بچے پتھراؤ کرتے، ان کے پیچھے بھاگتے اور مذاق اُڑاتے پائے جاتے ہوں۔

جہاں جھگی مکینوں کی پاکستانی شناخت نہ ہو۔ جہاں سب بکتا ہو۔ جہاں دودھ ، پانی گدلا جائے۔ سبزیوں کی مٹی تک غلیظ کر دی جائے۔ جہاں گھونگھٹ سے سر نکالنے پر گلے کٹتے ہوں، جہاں میڈیا پرسچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کہنے کی آزادی ہو اور سچ کو سچ بولنے والے کو پالیسی بتائی جاتی ہو، جہاں مائیں بے تحاشا محبت تو کریں مگر لڑکا لڑکی کا فرق کرتی ہوں۔ جہاں عورت کو دن میں125 بار یہ یاد دلایا جاتا ہو کہ وہ ایک مشرقی عورت ہے، جہاں ایک مرد کو یہ یاد دلایا جاتا ہو کہ وہ مرد ہے، جورو کا غلام نہیں۔ جہاں عورت کو دو وقت کی روٹی کے لئے اپنا وجود بیچنا پڑے۔ جہاں مینا کی کہانی میں مینا ڈر ڈر کر بات کرتی ہو، جہاں پنچائیت میں کوئی عورت بطور سر پنچ نہ بیٹھتی ہو ،جہاں حقیقت سے بہت دور خوابوں کی بات کی جائے اور حقیقت کو تسلیم کرنے سے سرے سے ہی انکار ہو۔ جہاں بیمار زیادہ اور بیمارستان کم ہوں، جہاں قید و بند کی صعوبتیں عام زندگی میں ہوں، جہاں سنی، شیعہ، وہابی، سلفی، مدنی بستے ہوں، جہاں پنجابی، سندھی، بلوچ،، بلتستانی، کشمیری، پشتون بستے ہوں اور کوئی پاکستانی نہ ہو، جہاں روزانہ سرخ بدلی چھائی ہو، جہاں کی مٹی سرخ ہو، جہاں کا آسمان پانی کی بجائے شعلے برساتا ہو ، جہاں امن نام کو بھی نہ ملے وہاں ہم برگد کے ایک قید درخت کو کیسے آزاد کروا سکتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments