جنرل راحیل کی یقین دہانی، سی پیک اور جہادی گروہ


\"edit\"پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ ہم دشمنوں کی سازشوں سے آگاہ ہیں اور قوم کو اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ ہماری سرحدیں محفوظ ہیں۔ گلگت میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کو ہر قیمت پر سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔ جنرل راحیل شریف کی باتیں گزشتہ دنوں بھارت کی طرف سے دھمکی آمیز بیانات سامنے آنے اور پھر بھارت اور امریکہ کے درمیان فوجی سہولتیں استعمال کرنے کے معاہدہ کے بعد پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کےلئے اہم ہیں۔ ملک کے عوام کو آرمی چیف کی اس یقین دہانی سے حوصلہ بھی نصیب ہو گا۔ لیکن یہ تصویر کا صرف ایک پہلو ہے۔ اس وقت پاکستان کو اصل خطرہ سرحدوں پر دشمن کی موجودگی یا اس کے حملہ سے نہیں ہے بلکہ اندرونی خلفشار اس خطرہ کی اصل بنیاد ہے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کرنے کے باوجود امریکہ ، بھارت اور افغانستان مسلسل یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ ہمسایہ ملکوں میں ہونے والے دہشت گرد حملے پاکستان سے ہوتے ہیں۔ ان الزامات سے پاکستان کی عالمی شہرت کو نقصان پہنچتا ہے اور دہشت گردوں کے خلاف 50 ہزار افراد اور 100 ارب ڈالر نقصان کی قربانی دے کر بھی، پاکستان کو اس خطے میں دہشتگردی کا گڑھ قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بدنصیبی کی بات یہ ہے کہ دنیا کسی حد تک ان باتوں پر اعتبار بھی کرتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ 8 جولائی سے مقبوضہ کشمیر میں شروع ہونے والی عوامی تحریک کو دبانے کےلئے بھارتی سکیورٹی فورسز کے غیر انسانی ہتھکنڈوں پر بات کرنے کی بجائے دنیا اس بات پر زیادہ غور کرتی ہے کہ بھارت اس کا الزام پاکستان پر عائد کرتا ہے۔ حالانکہ نہ صرف پاکستان اس الزام کو مسترد کرتا رہا ہے بلکہ برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیر میں ابھرنے والی تحریک سو فیصد کشمیری عوام کا احتجاج ہے اور مقبوضہ وادی کے چپہ چپہ میں نوجوانوں نے بھارتی استعماری قوتوں کو للکارا ہے اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ پاکستان نے اس ظلم و بربریت کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور بھارت کو کشمیر کے عوام پر غیر انسانی ظلم و ستم بند کرکے مذاکرات کرنے کی دعوت دی ہے تاکہ اس دیرینہ مسئلہ کا قابل قبول حل تلاش کیا جا سکے اور خطے میں امن و سلامتی بحال ہو سکے۔ بھارت نے اس فراخدلانہ پیشکش کا مثبت جواب دینے کی بجائے یہ کہہ کر مذاکرات سے انکار کر دیا ہے کہ بھارت، پاکستان کے ساتھ صرف دہشت گردی اور سرحد پار سے مداخلت پر بات کرے گا حالانکہ بھارت ایسی مداخلت کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکا۔ اس کے علاوہ لائن آف کنٹرول پر خار دار باڑ اور ہائی سکیورٹی کے ذریعے اس قسم کی مداخلت کو ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ وہ مسلسل کشمیر میں بے چینی کو پاکستان کی شرارت اور یہاں مقیم گروہوں کی دہشت گردی قرار دیتا ہے جبکہ کشمیر سمیت بھارت کے ہی سارے لیڈر اور دانشور اسے سیاسی مسئلہ سمجھتے ہیں اور بار بار حکومت سے کشمیری لیڈروں اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔

اس صورتحال کے باوجود بھارت کے وزیر دفاع نے کشمیر میں اپنی حکومت کی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے پاکستان کو جہنم کا نمونہ قرار دے کر اپنی نفرت اور پاکستان دشمنی کا اظہار کیا تھا۔ منوہر پاریکر نے دورہ امریکہ کے دوران پینٹا گون میں ایک پریس بریفنگ میں انتہائی ڈھٹائی سے دعویٰ کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں جو بھی ہو رہا ہے وہ پاکستان کے دہشت گرد ایجنٹوں کا کیا دھرا ہے۔ بھارتی حکومت نے وہاں تشدد کو قابو کرنے کےلئے اقدامات کئے ہیں۔ اس موقع پر موجود امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے کشمیر کی سنگین انسانی صورتحال پر تشویش ظاہر کرنے اور بھارتی افواج کے مظالم کو مسترد کرنے کی بجائے بھارتی ہم منصب کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے قرار دیا کہ پاکستان سے آنے والے دہشت گردوں نے بھارتی شہریوں اور فوج کو نشانہ بنایا ہے۔ ڈیڑھ کروڑ کشمیری عوام کی پرامن جدوجہد آزادی کو دبانے والی بھارتی فوج کو مظلوم قرار دے کر دنیا کی واحد سپر پاور کے وزیر دفاع نہ صرف پاکستان کی پوزیشن کو کمزور کرنے کا سبب بنے ہیں بلکہ انہوں نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ امریکہ صرف اپنے مفادات کےلئے انسانی حقوق کے تحفظ کا علم بلند کرتا ہے۔ لیکن جب اس قسم کی خلاف ورزی پر بات کرنے سے اس کا مفاد متاثر ہوتا ہو تو وہ اس صورتحال سے نگاہیں چرانے اور اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

اس صورتحال میں جنرل راحیل شریف کا یہ موقف درست ہے کہ دوسرے خواہ کچھ کہیں اور نریندر مودی اور ان کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ خواہ کیسی ہی سازشیں کرے، دہشتگردی کے خلاف جنگ ہماری بقا کی جنگ ہے اور ہمیں اسے ہر قیمت پر جیتنا ہے۔ لیکن یہ جنگ صرف سرحدوں کی طرف سے بے فکر ہو کر یا قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے اور کثیر تعداد میں تخریبی عناصر کو ہلاک کر کے نہیں جیتی جا سکتی۔ اس مقصد کےلئے قومی ہم آہنگی ، تعاون اور اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ بدنصیبی سے ملک میں ایک پرعزم فوجی سربراہ کی موجودگی اور اکثریتی پارٹی کی جمہوری حکومت کے باوجود انتشار ، اختلاف ، الزام تراشی اور بے چینی کی کیفیت موجود ہے۔ یہی حالات دراصل ملک و قوم کےلئے اصل خطرہ ہیں۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنا بے حد ضروری ہے۔

سیاسی جمہوری نظام میں اختلاف رائے ایک لازمی جزو کی حیثیت رکھتا ہے۔ مختلف امور پر اپوزیشن حکومت کے اقدامات اور فیصلوں سے متفق نہیں ہوتی اور ان کے خلاف رائے دیتی ہے یا مسائل حل کرنے کےلئے متبادل تجاویز سامنے لاتی ہے۔ یہ کسی بھی جمہوری حکومت کےلئے خوش آئند صورتحال ہو سکتی ہے کیونکہ اس طرح نظام مستحکم ہوتا ہے اور جمہوریت کو پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے۔ البتہ پاکستان میں اختلاف رائے پالیسیوں یا فیصلوں پر نہیں ہے۔ نہ ہی ان اختلافات کے اظہار کےلئے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ایوانوں میں جمہوری حق کو مثبت انداز میں بروئے کار لایا جاتا ہے۔ ملک میں یہ اختلاف شخصیات کا ٹکراؤ ہے۔ اپوزیشن کی جو جماعتیں بوجوہ اقتدار سے محروم ہیں وہ بدستور یہ سمجھ رہی ہیں کہ برسر اقتدار طبقہ نے زبردستی اور ناجائز طریقہ سے حکومت قائم کی ہوئی ہے۔ اسی لئے کبھی الیکشن کمیشن اور کبھی سپریم کورٹ سے وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کی درخواست کی جاتی ہے۔ ان میں سے کسی جماعت کے پاس موجودہ پارلیمانی نظام کے بنیادی اصولوں کے مطابق حکومت تبدیل کرنے کا کوئی فارمولا نہیں ہے۔ اس لئے عدالتوں کو مجبور کرنے کے علاوہ ریلیاں اور احتجاجی جلوسوں کے ذریعے حکومت کےلئے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ ہنگامہ آرائی 2013 کے انتخابات کے بعد سے مسلسل جاری ہے۔ پہلے انتخابات میں دھاندلی کو بہانہ بنایا گیا تھا اور اب احتساب یا غیر قانونی اقدامات کو بنیاد بنا کر پوری قوت سے دشنام طرازی کا بازار گرم کیا جا رہا ہے۔

اسی طرح کی مہم کراچی اور حیدر آباد کی اکثریتی پارٹی متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف شروع کی گئی ہے۔ الطاف حسین کے بیان کی مذمت اور اس سے علیحدگی کے بیانات بھی ان مخالفانہ آوازوں کو مدھم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اب سینیٹ ایک ایسے شخص کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلانے کی سفارش کرکے اپنا دل خوش کرنے اور لوگوں کو بہلانے کی کوشش کر رہی ہے، جو نہ تو پاکستان میں رہتا ہے اور نہ پاکستان کا شہری ہے۔ اس بات کا بھی کوئی امکان نہیں ہے کہ الطاف حسین کو برطانوی حکومت کبھی پاکستان کے حوالے کر دے گی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے خلاف شور مچانے میں اپوزیشن سے زیادہ برسر اقتدار پارٹیاں پیش پیش ہیں۔ اسی طرح ملٹری اسٹیبلشمنٹ بھی ایم کیو ایم میں مائنس ون MINUS ONE فارمولے کو نافذ کرنے کا سنہری موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی۔ حالانکہ 25 برس میں بارہا یہ کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ جب یہ پارٹی خود الطاف حسین سے علیحدہ ہونے کا اعلان کر رہی ہے تو اصولی طور پر اس ہنگامہ آرائی کو ختم ہر جانا چاہئے تھا۔ سیاسی پارٹیوں کو الطاف حسین کی سیاسی قوت ختم کرنے اور ان کے ووٹ بینک کم کرنے کےلئے عملی کام کا آغاز کرنے کی ضرورت تھی۔ لیکن باقی معاملات کی طرح اس معاملہ میں بھی ایک تنہا واقعہ کو لے کر اس قدر زیادہ ہنگامہ برپا کیا جاتا ہے کہ ملک میں بے چینی اور باہمی بداعتمادی میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ قومی مفادات کے تحفظ کے تمام منصوبوں کےلئے یہ صورتحال سب سے بڑا خطرہ ہے۔

جنرل راحیل شریف نے سی پیک CPEC کی ہر قیمت پر حفاظت کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے گوادر میں سی پیک کے متعدد منصوبوں کا افتتاح کرتے ہوئے اسے ملکی معیشت اور خوشحالی کےلئے اہم قرار دیا ہے۔ اس بات سے ملک کے کسی بھی شہری کو اختلاف نہیں ہے۔ حکومت کی طرح اپوزیشن بھی اس منصوبہ کو اہم سمجھتی ہے لیکن یہ اتفاق رائے یہاں تک ہی محدود رہتا ہے۔ اس کے بعد عدم اتفاق ہی نہیں بلکہ الزام تراشی اور حکومت کی بدعنوانی کے قصے شروع کر دیئے جاتے ہیں۔ نہ حکومت اس منصوبہ کی ساری تفصیلات اور معاہدوں کی پیچیدگیوں کو اپوزیشن کے سامنے رکھنا چاہتی ہے اور نہ ہی اپوزیشن اس منصوبہ کو قومی اہمیت کا اہم پراجیکٹ مانتے ہوئے دست تعاون بڑھانے کےلئے آمادہ ہوتی ہے۔ اس صورتحال میں اس منصوبہ کےلئے وسائل اور مہارت فراہم کرنے والا چین بدستور غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو رہا ہے۔

اپریل 2015 میں سی پیک منصوبے کےلئے چین اور پاکستان کے درمیان معاہدہ ہوا تھا۔ دس برس کی مدت میں 46 ارب ڈالر مواصلت اور انرجی کے شعبوں میں صرف ہوں گے۔ سنکیانگ سے گوادر تک سڑکوں و ریل کے ذریعے آمدورفت کا سلسلہ تعمیر کیا جائے گا۔ تاہم اس منصوبہ کی تکمیل کےلئے پاکستان میں امن و امان اور ہمسایہ ملکوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات بحال کرنا ضروری ہے۔ خاص طور سے افغانستان میں امن ایک اہم ضرورت ہے، کیونکہ پاک چین راہداری کے دوسرے مرحلے میں افغانستان کے راستے وسطی ایشیا کے ملکوں تک رسائی بے حد ضروری ہے۔ اس لئے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مصالحت صرف امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ہی اہم نہیں ہے بلکہ پاک چین اقتصادی راہداری کا خواب پورا کرنے کےلئے بھی یہ بھاری پتھر اٹھانا ضروری ہے۔ پاکستان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ نے بھارت کو اپنا دفاعی حلیف بنانے کےلئے اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔ اگر پاکستان طالبان کو جنگ جوئی سے روکنے میں مزید وقت ضائع کرتا ہے تو امریکہ بھارت کو افغانستان میں سول منصوبوں کے علاوہ فوجی منصوبوں میں ملوث کرنے کا اقدام بھی کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ طالبان کی دہشتگردی جاری رہنے کی صورت میں سی پیک بھی لازمی متاثر ہو گا۔ اس لئے پاکستان کو طالبان کے معاملہ کو صرف امریکہ کے تناظر میں دیکھنے کا رویہ ترک کرنا ہو گا۔

سی پیک CPEC کے حوالے سے فوج اور سول حکومت بھی ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات کا شکار ہیں۔ دونوں اس منصوبہ کی تکمیل کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتے ہیں۔ فوج سمجھتی ہے کہ اس کی مدد اور تعاون کے بغیر یہ منصوبہ مکمل نہیں ہو سکتا۔ اسے اس کی براہ راست ذمہ داری قبول کرنا پڑ رہی ہے۔ اس لئے اس کا کریڈٹ بھی اسے ہی ملنا چاہئے۔ ملک کی سیاسی سول حکومت اس منصوبہ کو اپنی بڑی کامیابی کے طور پر پیش کر رہی ہے اور آئندہ انتخابات میں اسے ووٹروں کو متاثر کرنے کےلئے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ وہ اس کا مکمل کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے۔ منصوبے کی بروقت اور احسن طریقے سے تکمیل کےلئے اس اختلاف کا خاتمہ بے حد ضروری ہے۔ وسیع تر قومی مفاد کے نقطہ نظر سے اس اہم معاملہ پر فوج اور سول حکومت کو بہتر تعاون کےلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگرچہ اصولی طور پر ملک کی منتخب سول حکومت کو بین الملکی معاہدات کی تکمیل اور نگرانی کا مکمل اختیار ہے لیکن پاکستان کے معروضی حالات میں تو جمہوری حکومت بھی فوج کی ’’مہربانی‘‘ کے بغیر کام کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔ جب تک یہ صورتحال تبدیل نہیں ہوتی سیاسی قیادت کو لچک کا مظاہرہ کرنے اور فوج کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ اس بارے میں مزید غلط فہمیوں سے بچنا ضروری ہے۔

ملک سے دہشتگردی کے خاتمہ کےلئے جہادی کلچر اور شدت پسندی کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ ماضی میں غلط پالیسیوں کی وجہ سے متعدد عسکری گروہ اور جہادی گروپ اپنے پاؤں جما چکے ہیں۔ حکومت اور فوج ان سب کو بیک وقت چیلنج کرنے کا خطرہ مول لینے سے گریز کر رہی ہیں۔ تاہم یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ جب تک ملک سے دہشتگردوں کے علاوہ جہادی مزاج اور شدت پسند رویوں کا خاتمہ نہیں ہو گا، دہشتگردی کا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں سر اٹھاتا رہے گا۔ یہ صورتحال سی پیک کی تکمیل اور ہمسایہ ملکوں سے تعلقات کے حوالے سے مہلک ثابت ہوتی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments