پاکستان آرمی ایوی ایشن: ماضی، حال اور مستقبل


Apachey AH-64D Longbow

اپاچی اے ایچ 64۔ ای ( گارجئین ) میں بالکل نیا فیوز لاج استعمال کیا گیا ہے جس میں پچھلے ماڈلز کے مقابلے میں کئی نئی تبدیلیاں کی گئیں ہیں، اس میں نئے الیکٹرانکس آلات کے لیے بہتر سے بہتر جگہ مہیا کی گئی ہے، جو آگے بھی اپاچی میں نئی تبدیلیوں کے لیے موزوں جگہ فراہم کرے گی، اکتوبر 2014 ء تک 100 سے زائد اپاچی بلاک تھری کی پیداوار مکمل ہوچکی ہے ( بمطابق بوئنگ ذرائع) ۔ تفصیلات اپاچی میدان جنگ میں (Photo # 20 ) ( تصویر نمبر 20 )

اپاچی پہلی بارسن 1989 میں پانامامیں امریکی فوج ہی کے ہاتھوں آزمایا گیا، اس کے بعد 1992 میں آپریشن ڈیزرٹ اسٹارم میں کئی کامیابیاں سمیٹیں، بعد میں بوسنیا اور کوسوو میں امن فوج کے ساتھ خدمات پر مامور رہا۔ استعمال کنندہ میں امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب، یونان، مصر، اسرائیل، جنوبی کوریا، متحدہ عرب امارات، اندونیشیا، جاپان، کویت، دی نیدرلینڈز، سنگاپور

بھارت اس فہرست میں نیا ملک ہوگا، بوئنگ کمپنی کے صدر پرتیوش کمار کا کہنا کہ بھارت کے ساتھ یہ سودا ایک سنگ میل ہے ( بحوالہ مورخہ 30 ستمبر )
http://www.oneindia.com/india/apache-chinook-to-serve-iaf-needs-into-future-boeing-1885195.html

بھارت کے لیے اپاچی اور چینوک کا سودا، کیا یہ کسی نئے میدان جنگ کی طرف پیش قدمی ہے؟

اے ایچ۔ 64 اپاچی خلیج کی پچھلی اور حالیہ جنگوں میں اور افغانستان میں اپاچی کی کارکردگی کسی شک و شبہ کے بغیر کے شاندار رہی، عراق جنگ میں ایک واقع پیش آیا وہ یہ کے دجلہ کنارے اپاچی ایک کسان کی کلاشن کوف کا نشانہ بن گیا، یہ اس جنگ کا ایک انوکھا واقع تھا، ظاہر ہے، یہ عوامی رد عمل کا نشانہ بنا جس کے آگے کسی کی نہیں چلتی، اور عوام بھی وہ جو اپنی سرزمین سے بے غرض محبت کرتے ہوں، اور ایک کسان سے زیادہ کون جان سکتا ہے یہ محبت کیا ہوتی ہے،

http://www.smh.com.au/articles/2003/03/25/1048354604384.html

اس واقعہ کی تفصیلات اس لنک پر باآسانی دیکھی جاسکتی ہیں، خیر خلیج کی جنگ کو 12 سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے، اب اپاچی میں نت نئی تبدیلیاں آچکی ہیں جس میں سب سے نمایاں تبدیلی اس کا نیٹ ورک سنٹرک وار میں بہتر کمیونی کیشن نظام ہے، نیٹ ورک سنٹرک بھلا اس کی کیا ضرورت بھارت کو، ؟ جواب آسان اور سادہ بھارت کو کولڈ اسٹار ڈاکٹرین کے لیے جو کچھ درکار ہے وہ اپاچی اور چینوک ڈیل میں اس کو اس کا بیشتر مل رہا ہے، قارئین کے ذہن میں سوال اٹھے گا وہ کیسے؟

اس کے بارے میں صرف اتنی سی بات کافی ہے، کہ بھارت کو سرحد کے اس پار آنے کے لیے جو رفتار درکار ہے، چاہے وہ فوج لانے کی صور ت میں ہو یا کسی مخصوص علاقے پر اچانک بمباری کی شکل میں، یہ ہی صلاحیت یہ دونوں ہتھیار ( اپاچی اور سی ایچ 47 چینوک ) ، وہ رفتاراور طاقت مہیا کرینگے، پریسیشن گائڈڈمیونیشن تک رسائی بھارت کے لیے امریکا سے تعلقات کے بعد کوئی بڑی بات نہیں، اب بھارت نیٹ ورک سینٹرک وار کے لیے کمیونی کیشن نظام کے اوپر اگر کام کر رہا ہے، اس کی تکمیل اگر اپاچی اور چینوک کے آمد تک ہوجاتی ہے تو کولڈ اسٹارٹ کم از کم زیادہ دور کی چیز نہیں بھارت کے نظریے سے، ہاں یہ اور بات ہے کے وہ پاکستان کی تیاری سے بے خبر ہونے کی صورت میں ہی پاکستان پر حملہ کرسکتا ہے۔

مئی 1999 کے امریکی دفاعی جریدہ (Armed Forces Journal ) صفحہ نمبر 58 پر ایک مضمون ( Combination UnBeatable) شائع ہوا جس میں امریکا کی ہیلی فورس پر تجزیہ پیش کیا گیا، اور بتایا گیا کہ چار اقسام کے ہیلی کاپٹرزمستقبل میں امریکا کو ہر قسم کی سرجیکل اسٹرائیکس کے قابل بنائیں گے، کمانچی جو اسٹیلتھ گن شپ ہیلی کاپٹر ہوا کرتا تھا، خاص کامیابیاں نہ ملنے کی وجہ سے یہ پرجیکٹ ختم کردیا گیا، لیکن باقی ماندہ تین ہیلی کاپٹر جن میں اپاچی اے ایچ 64۔ بکتر بند دستوں اور مورچوں میں محفوظ فوج پر حملوں کے لیے، بلیک ہاک فوری ہلکے ہتھیاروں سے مسلح دستوں کو اتارنے اور ان کے انخلا کے لیے، اور چینوک سی ایچ 47۔ ہیوی لفٹ رول کے لیے پسند کیے گئے، بھارت کی وایو سیہنا ( بھارتی فضائیہ) میں شامل ہونے والے یہ دو ہیلی کاپٹرز، کسی خاص مہم جوئی کا حصہ تو بنے نہیں جارہے، سیاچن کے کیس میں یہ بات ہمار ے مشاہدے میں آئی کہ الیوٹ II لاما کی خریداری کن حالات میں ہوئی (بحوالہ کتاب History of Pakistan Army Aviation 1947۔ 2007 ) اور مشہور بھارتی ویب سائٹ میں اس کا تذکرہ موجود ہے،

http://www.bharat-rakshak.com/IAF/Galleries/Aircraft/Current/Helicopters/Cheetah/

1980 میں بھارت کے پاس تقریباً 250 لائسنس بلڈ چیتا ( Alloute II Lama ) فرانس کی سڈ ایوی ایشن کے تعاون سے بنائے، ان ہیلی کاپٹروں کی خریداری کے پیچھے سیاچن کے محاذ گرم کرنے کا فلسفہ تھا، لاما 4000 میٹرز پر پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور سیاچن میں خوب استعال کیا گیا، بھارت اس محاذ پر وہ تیزی دکھا ہی نہیں سکتا تھا جو اس ہیلی کاپٹر کی مرہون منّت ہے، اس محاذ جنگ پر بعد میں پاکستان کو بھی اسی ہیل کاپٹر کا استعمال کرنا پڑا، کیونکہ اس کے علاوہ اس وقت عالمی منڈی میں کوئی اور ہیلی کاپٹر اتنی بلندی پر پہنچنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا، آج جب بھارت چینوک بھی خرید رہا ہے اپاچی بھی لے رہا ہے اور اس کا اپنا تیار شدہ گن شپ بلندی پر جانے کے لیے ہی تیار کیا گیا ہے اس کے پیچھے کیا محرکات ہوسکتے ہیں؟

خطے کا امن تباہ کرنے کے لیے کہیں بھارت کوئی ایسی کارروائی کرنے کا ارادہ تو نہیں رکھتا، کم از کم بھارتی میڈیا جو زبان آج کل استعمال کر رہا ہے، اس میں کم از کم یہی تاثر مل رہا ہے، اپاچی اور اور چینوک کو ہندی میں باہو بلی کہہ کر پکار رہے ہیں جس کے معنی طاقت ور کے ہیں۔ میری اس بات کی تصدیق وہ لوگ ضرور کریں گے جو بھارتی میڈیا کے تیور دیکھ رہے ہیں۔ بھارتی حکومت کی سیاسی چالیں کس نوعیت کی ہیں، امریکامیں اقوام متحدہ میں ان کے لیڈرز کی تقاریر کا مرکز ی نکات کیا تھے، اس کے عزائم سے صاف ظاہر ہے ( بھارت کی موجودہ قیادت امریکی دوستی پر انحصار کرتے ہوئے نظر آرہی ہے، اس کا خیال ہے کہ امریکا اس کی پاکستان کے خلاف ہر طرح سے مدد کرنے پر تیار ہوجائے گا اگر وہ امریکا اور دنیا کو یہ بات باور کرانے میں کامیاب ہوجائے کہ پاکستان دہشت گردی کا مرکز ہے، کم از کم ان کا میڈیا یہی پیغام نشر کررہا ہے ) ( تصویر نمبر 21 ) (Photo # 21 )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4