وجاہت مسعود، ایک اور تشنہ خاکہ


\"husnainخاکہ لکھنے کے آداب میں ہے کہ پہلے ممدوح کا سراپا کھینچا جائے، چلیے اس رسم سے آغاز کیا جائے۔ جو تصویر وجاہت بھائی اپنی تحریروں پر لگاتے ہیں یا جو فیس بک کا پروفائل ہوتی ہے وہ ہمیشہ افق کے پار دور کہیں خلاؤں میں گھورتے ہوئے اس فلسفی کی ہوتی ہے جو دنیا کے حالات سے تنگ آ کر بس رونے والا ہوتا ہے، خود اکثر فرماتے ہیں کہ بھئی درویش کی آنکھ تو شیعہ ہے، زیادہ دیر نہیں لگاتی، ہمہ دم گریہ کرنے کو تیار رہتی ہے۔ کئی بار بہ چشم خود دیکھا، ہے بھی ایسا ہی۔ اس آنکھ میں ایک آگ بھی دہکتی ہوئی نظر آتی ہے، جو آگ غصے کی ہے، وہ غصہ جو صدیوں کا غصہ ہے، وہ غصہ جو کبھی نکلتا نہیں بس اندر جمع رہتا ہے، کس چیز پر ہے، وہ لکھا جائے تو پھر خاکہ قصیدے کے زمرے میں جا گرے گا، اسے خاکہ رہنے دیجیے، آگے بڑھتے ہیں۔ اس تصویر میں سلیقے سے پیچھے کو کنگھا کیے گئے بال نظر آتے ہیں، ہونٹوں کے آس پاس کی لکیریں کچھ ایسا تاثر دیتی ہیں جیسے یہ آدمی ہمیشہ اداس رہتا ہے، فکر مند رہتا ہے، کڑھتا رہتا ہے اندر ہی اندر، شاید ایسا ہی ہو۔ شیو تازہ بنی ہوئی ہے، چشمہ مجموعی طور پر شخصیت کی متانت سے لگا کھاتا ہے اور یہ وہ مکمل وجاہت مسعود بنتے ہیں جنہیں وہ تمام لوگ جانتے ہیں جو انہیں اخبار یا کمپیوٹر پر دیکھتے ہیں۔

وجاہت مسعود ایک اور بھی ہیں۔ ایسا کچھ نہیں کہ ان سے کرامات منسوب کی جائیں اور دست غیب کی خاص کرم نوازی ان پر دکھائی جائے اور انہیں وہ دکھایا جائے جو فرقہ ملامتیہ کا ایک صوفی ہو، ایسا کچھ بھی نہیں۔ وہ تو ایک ایسے عام آدمی ہیں جنہیں مل کر یہ احساس ہوتا ہے کہ استاد، یہ تو کوئی اپنے جیسا ہی تھا، اور بس یہی ان کے بڑے آدمی ہونے کی نشانی ہے۔ ایسا بڑا آدمی جو پتہ نہیں کیسا بڑا آدمی ہوتا کہ لگتا نہیں مگر ہوتا ہے اور کمال ہوتا ہے۔

یہ خاکہ لکھنے کا خیال آج نہیں آیا۔ یہ اس دن آیا تھا جب پہلی مرتبہ ان کے یہاں جانا ہوا۔ ان کی سٹڈی کے کالے صوفے پر بیٹھے بیٹھے خیالات آتے رہے کہ کیا لکھنا ہے اور کب لکھنا ہے، ادھر ان سے باتیں چل رہی تھیں، وہ قہقہے لگا کر ہنس بھی رہے ہیں، بے تکلفی سے بات چیت جاری ہے، ادھر دماغ میں یہ واردات جاری تھی۔ چار پانچ برس گزر گئے اور اس بیچ ایسی کئی ملاقاتیں ہوئیں جنہیں سمیٹنا شاید ایک ہزار صفحات پر بھی ممکن نہ ہو، اور وہ یوں کہ واقعات لکھے جاتے ہیں، قصے بیان ہو جاتے ہیں، مگر لطیف محسوسات کو بس سوچا اور پھر خوش ہوا جا سکتا ہے، بیان کیجیے گا تو شاعری، موسیقی اور نہ معلوم کہاں کہاں بھٹکتے پھریں گے۔

گھنگریالے لاپرواہ بال جن میں چاندی جا بجا چمکتی ہے ادھر ادھر اڑ رہے ہیں، کبھی کبھی میڈوسا کی جھلک آتی ہے، حجامت سے بے نیاز، انتہائی سادہ سا سفید رنگ کا کرتہ پائجامہ پہنے، دو چار روز کی شیو بڑھائے، مسلسل سگریٹ پیتا ہوا ایسا آدمی جس کی آنکھوں میں کمپیوٹر پر مسلسل بیٹھے رہنے کی وجہ سے پانی آ جاتا ہے اور وہ بار بار اسے صاف کر کے تنگ ہوتا رہتا ہے۔ انتہائی دلچسپ باتیں کرتا ہے، سامنے والا پہلی ملاقات میں دوست بن سکتا ہے اگر فریکوئنسی میچ ہو جائے۔ عام تاثر کے برعکس لطیفے سنانا بھی جانتا ہے اور لطیفوں سے لطف اندوز ہونا بھی جانتا ہے، بلکہ نت نئے لطیفے بھی جانتا ہے۔ تو یہ وجاہت مسعود کا ایسا ورژن ہے جو روز کا ملاقاتی دیکھ پاتا ہے۔

وجاہت بھائی کی پسند ناپسند ایک ایسا مشکل معاملہ ہے جسے تنویر جہاں کے علاوہ شاید کوئی دوسرا مکمل نہیں جان سکتا۔ تنویر جہاں وہ خاتون ہیں جو تاحیات ازدواجی رشتے میں وجاہت بھائی کے ساتھ راضی خوشی بندھ گئیں۔ بہت پرانی اور گھسی پٹی مثال ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، یہاں آپ ایسا سمجھ لیجیے کہ یہ خاتون اس کامیاب مرد کو دونوں ہاتھوں کا زور لگا کر باقاعدہ دھکیلنے کی صورت اٹین شن کھڑا رکھے ہوئے ہیں۔ کامیاب مرد لاکھ سر پٹختا ہے کہ بھئی ہمیں نہیں چاہئیے کامیابی، ہمیں کھسکنے دو، ذرا ادھر جانے دو، ذرا اٌدھر جانے دو مگر کہاں، تنویر جہاں انہیں مضبوطی سے تھام کر بس صراط مستقیم پر بگٹٹ دوڑائے جاتی ہیں، یہ لاکھ فرار ہونا چاہیں ایک نہیں چلتی، کوئی نہ کوئی تعمیری سرگرمی گلے پڑی ہی رہتی ہے۔

تو ان کی پسند ناپسند کی بات جاری تھی۔ کھانا صرف دیسی اور باقی دنیا کی ہر چیز ولائتی پسند کرتے ہیں۔ فرنیچر، تصاویر، طرز تعمیر کسی چیز میں کہیں بھی کوئی دیسی ٹچ نظر آ جائے تو باقاعدہ چہرے پر تکلیف کے آثار نظر آتے ہیں، اور یہ ایک اور مشکل ہے۔ یہ تاثرات چھپا نہیں سکتے، انہیں کوئی بات ناگوار گزرے گی تو فوراً ان کے چہرے پر لکھا نظر آ جائے گا۔ یہ زبان سے کہہ رہے ہوں گے، \”دیکھیں، آپ کی یہ بات بالکل درست ہے کہ ایسا ہوا، لیکن اگر ہم اس کو اس طرح سے دیکھتے ہیں تو معاملہ برعکس نظر آتا ہے\”، لیکن چہرہ کہہ رہا ہو گا کہ ابے گھونچو، غلط بات کرتا ہے اور پھر اس پر جما بھی رہتا ہے، لاحول ولا قوہ، کیسا بے وقوف انسان ہے، خاموش ہی ہو جا یار! پھر جب کوئی بہت اہم یا کوئی بے حد لطیف نکتہ ان کے ذہن میں آئے گا تو اچانک سیدھی ابرو خمدار ہو جائے گی، ایک طرف کو اٹھ جائے گی، جب تک بات نہیں کریں گے وہ اسی صورت میں رہے گی، بات کا لطف لیتی رہے گی، سامنے والا اگر دو چار ملاقاتیں کر چکا ہے تو جان جائے گا کہ بھئی اب کچھ پھڑکتی ہوئی بات آنے والی ہے، خود ہی اپنی بات مختصر کر کے موقع دے گا کہ مرشد، ہو جاے بسم اللہ، اور پھر کوئی چلبلاتا ہوا فقرہ تڑپ کر آئے گا۔

فون پر زیادہ طویل بات کرنا ان کو پسند نہیں ہے۔ بہت دفعہ ایسا ہو گا کہ کسی کا فون آیا، اب کام کی بات کرنے والے نے کر لی، ان کے دماغ میں اپنا مسئلہ چل رہا ہے، کالم لکھنا ہے یا کچھ اور دیکھنا ہے تو یہ فون ساتھ والے کو تھما دیں گے۔ \”لیں بھئی مولانا، فلاں صاحب کا فون آیا ہے، بات کیجیے\” اب مولانا اس اچانک حملے کی تاب نہ لاتے ہوئے فون لیں گے، اگر ان صاحب سے جن کا فون آیا ہوا ہے، پہلے کی سلام دعا ہے، پھر تو ٹھیک ہے، اگر نہیں ہے تو پھر ایک اور عجیب مرحلہ ہو گا، دونوں پارٹیاں ہلکا پھلکا تعارف کروائیں گی، کچھ دو چار باتیں ہوں گی اور پھر دونوں ہی شرماشرمی میں فون بند کر دیں گے، بھائی میاں اپنے کام میں مگن، فون کب بند ہوا ان کی جانے بلا!

جیسا کہ ہر اچھا ادیب اور برا انسان اپنی کتابیں کسی کو نہیں دیتا، آپ بھی نہیں دیتے، اگر دینی پڑ جائے تو بہت ضبط کی کیفیت چہرے پر ہو گی اور انتہائی شرافت سے کہا جائے گا کہ بھئی دیکھ کر لوٹا دیجیے گا، اور وقت بھی طے کر لیا جائے گا کہ واپسی کب تک متوقع ہے۔ اس سب کے باوجود سٹڈی صبغے اینڈ سنز کا منظر پیش کرنے لگے اگر نئے اضافے نہ ہوں۔ کتابیں جاتی ہیں واپس نہ آنے کے لیے، تو یہ کلیہ وجاہت بھائی کے لیے کیوں بدلنے لگا؟ وقت پر اس دنیا میں کسی کو کوئی کتاب نہیں ملتی، نہ انہیں ملتی ہے نہ فقیر کو، کوئی اور ہے جسے ملتی ہو؟

انگریزی اور اردو دونوں اس رجسٹر کی لکھتے ہیں جو علی الترتیب شیکسپئیر، لارڈ چیسٹر فیلڈ، میر حسن اور مرزا رجب علی بیگ سرور کا تھا۔ جب فانی انسانوں سے کلام کرنا مقصود ہو تو ان کی سطح پر آ کر بھی گفتگو کی جاتی ہے۔ ایسا عموماً کم ہوتا ہے لیکن ہو جاتا ہے۔ الفاظ کا گھونگھٹ کاڑھ کر بیٹھی تحریر سے لطف کشید کرنا اگر آپ جانتے ہیں تو آپ فرقہ مسعودیہ کے حلقہ نشین ہیں، نہیں جانتے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں، درویش کی کٹیا سبھوں کو خوش آمدید کہتی ہے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments