کوئٹہ ٹراما میں ہے، ٹراما سنٹر کاغذ پر ہے


احمد فراز کا ایک شعر پڑھ لیجئے

مدت سے کوئی جانبِ مقتل نہیں آیا

قاتل بھی توقع سے پشیماں ہیں زیادہ

\"usmanکوئٹہ پر آٹھ اگست کو جو قیامت گزری، اس کے تناظر میں مشکل یہ ہے کہ قاتل اور غم خوار کی پشیمانی میں فرق کرنا دشوار ہو رہا ہے۔ خادم  معذرت خواہ ہے، کہ ایسے گھمبیر موضوع پر بات کرتے ہوئے سخن آرائی کا شائبہ نہین گزرنا چاہیے تھا مگر آگے پڑھیے اور بتائیے کہ اس صورت حال میں شعر کو درد کا پردہ نہ کریں تو کیا کیا جائے۔.

کوئٹہ کا سانحہ ہے ہی ایسا جانکاہ کہ زخموں پر چھال جمنے لگتی ہی ہے کہ سوشل میڈیا پر لگی کوئی تصویر، کوئی اخباری مضمون، یاد کی کوئی لہر پھر سے بچھڑے ہوؤں کی شبیہوں، ان کے پسماندگان کے دکھ اور وطن عزیز کی علمی و سیاسی یتیمی کے احساس کو از سر نو اجاگر کر دیتی ہے. ایک ہندوستانی یار عزیز صولت عباس بھائی نے ایک بار فہمائش کی تھی کہ، \”زخم بھر جاتا ہے مگر کسک تا عمر نہیں جاتی. کبھی نہ کبھی، کسی خوشبو، کسی یاد، کسی لمس کے زیر اثر یا رات گئے کروٹ بدلتے وقت، سینے سے آہ نکل ہی جاتی ہے\”. یہاں تو جسم، ذہن اور روح پر لگے یہ گھاؤ ابھی تازہ ہیں. ابھی تو کھرنڈ بمشکل بننا شروع ہوا ہے.. جہاں تہاں سے اب تک لہو رس رہا ہے. اور وقت گزر بھی جاے گا تو بقول منیر نیازی.. دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر.. دریاے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا\”..

برادرم ڈاکٹر سلیمان قاضی نے ایک موقع پر ایک تلخ مگر پتے کی بات کی تھی کہ وسیع پیمانے پر پھیلنے والی تباہی میں دو قسم کے لوگ بہت فائدے میں رہتے ہیں. ایک وہ جو موقع پر ہی جان بحق ہو جائیں اور دوسرے وہ جو مرنے والوں کی لاشوں پر اپنے اپنے دھندے چمکائیں . اور سب سے زیادہ گھاٹے میں مرنے والوں کے لواحقین اور آفت کے نتیجے میں زخمی، معذور اور بے وسیلہ ہو جانے والے رہتے ہیں. سو آج کا غم ان کے نام بھی ہے جن کے پیارے اور سہارے ان سے چھن گئے، اور ان کے نام بھی جو سانس تو لے رہے ہیں مگر جسم و روح پر لگے چرکوں کے سبب ہر آتی جاتی سانس آہ میں بدل جاتی ہے. روح کے زخموں کا اندمال تو نجانے کب ہو گا، دو ایک باتیں جسمانی زخموں اور فوری نفسیاتی سہارے کے ضمن میں عرض کرنا ہیں.

اس جان کاہ سانحے کے رونما ہونے سے کچھ روز قبل ممتاز نفسیات دان، معالج اور \”ہم سب\” کے نمایاں قلم کار، استاذی اختر علی سید صاحب اسلام آباد تشریف لاے تھے. ان کی آمد کا مقصد چند پاکستانی جامعات کے شعبہ ہاے نفسیات کے طلبا کو آفات کے شکار لوگوں کی فوری نفسیاتی مدد اور بحالی کے کام کی تربیت دینا تھا. سید صاحب کی مہربانی کے سبب اس خادم اور عزیزم فرنود عالم کو اسلام آباد کی ایک جامعہ میں ہونے والی تربیت کی اختتامی تقریب میں شرکت کا موقع ملا اور تربیت پانے والی بیس کے قریب نوجوان طالبات اور ان کے اساتذہ کے علم و ہنر سے متاثر، اور ان کے جذبے پر سر دھنتا لوٹا. سید صاحب ابھی پاکستان میں ہی تھے کہ خود کش دھماکا کوئٹہ کے شہر بھر کو ویران، بیسیوں سہاگنوں کی مانگوں کو سونا اور بے شمار لواحقین کو بے کس و بے یار چھوڑ گیا. ابتدائی خبروں سے پتا چلا کہ باون دوست تو موقع پر ہی جان ہار گئے، تیس چالیس دیگر زخموں کی شدت اور ناکافی یا دیر رس علاج کے سبب اگلے ہفتے عشرے میں سفر آخرت پر روانہ ہو گئے. اس خادم کی جوانی کا بڑا حصہ ڈاکٹر دوستوں کی ہم راہی میں گزرا ہے، سو ابتدائی صدمے کے بعد ان حضرات کی خیریت دریافت کرنے کی کوشش شروع کردی جو ٹیلی فون کے نظام کے بے حد مصروف ہونے کے سبب کافی دیر بعد کامیاب ہوئی.

چونکہ سید صاحب کی ملاقات ذہن میں تازہ تھی، لہذا کوئٹہ کے ڈاکٹر دوستوں سے زخمیوں، ان کے اہل خانہ اور دیگر متاثرین کی صدمے سے نفسیاتی بحالی کے بارے میں پوچھا. دوسری جانب سے ایک زہر خند لہجے میں جو کچھ سننے کو ملا، اس سے اندازہ ہوا کہ دوست الٹا اس خادم کی ذہنی صحت پر شبہ کر رہے ہیں. پتا چلا کہ پاکستان کے رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کے سب سے بڑے شہر اور دارالحکومت میں چھوٹے موٹے حادثے کے زخمیوں کے علاج کا بھی معتدبہ انتظام موجود نہیں ہے. معمولی سے ٹریفک حادثے کے زخمیوں کو بھی حکومت بہت طمطراق سے کراچی کے ایک نجی اسپتال بھجوا کر اپنی ذمہ واری سے عہدہ بر آ ہو جاتی ہے. جسمانی ضرر کے علاج کی جانب یہ بے توجہی ہے تو نفسیاتی بحالی کو تو یقینا امیروں کا چونچلہ ہی سمجھا جاے گا. سید صاحب اپنے روابط اور شاگردوں کو بروے کار لانے کے لئے پر عزم تھے مگر اس شاخ کو لگایا جاتا تو کس تنے پر، کہ وہاں تو خاک اڑ رہی ہے.

معلوم ہوا کہ کوئی ڈیڑھ سال قبل صوبائی حکومت نے تقریبا ساٹھ کروڑ روپیے کوئٹہ میں ایک \”ٹراما سینٹر\” قائم کرنے کے لئے مختص کیے تھے، جس میں، منصوبے کے مطابق، کسی بڑی تباہی کی صورت میں کثیر تعداد میں زخمیوں کے فوری علاج کی سہولت میسر ہوتی. اس مرکز کے لئے اراضی کا بھی تعین کیا جا چکا ہے. مگر مبینہ طور پر اس منصوبے کی منظوری والی مسل (فائل) سرکاری اور سیاسی طریقہ کار کے چوبچے میں غوطے کھا رہی ہے. اور سنا جاتا ہے کہ اس متعفن چوبچے پر شخصی مفادات اور سیاسی محرکات کے ملغوبے کی دبیز کائی بھی جم چکی ہے. جو ڈاکٹر دوست اس \”ٹراما سینٹر\” کے قیام کے لئے مدت سے سر گرم عمل ہیں، وہ اس بد گمانی کے حامل ہیں کہ اس تاخیر کے پیچھے ذاتی اسپتال چلانے والے چند ڈاکٹروں کا ہاتھ ہے، جن کے روابط \”کچھ لو اور کچھ دو\” کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی قائم ہیں. منصوبے کے مخالفین خوف زدہ ہیں کہ اگر معیاری معالجے کی سرکاری سہولت قائم ہو گئی تو ان کے ذاتی مالی مفادات مجروح ہوں گے. تازہ سانحے کے زخمیوں کی عیادت کے لئے جب موجودہ وزیر اعلی تشریف لاے تو کچھ دردمند ڈاکٹروں نے ان کی توجہ \”ٹراما سینٹر\” کے پھنسے ہوۓ معاملے کی جانب دلائی. اس پر وزیر اعلی نے ایسے منصوبے کی راہ میں روڑے اٹکانے والوں کو \”جنگی جرائم\” کے مرتکب قرار دیا. اس کے باوجود معاملہ جوں کا توں ہے. اس معاملے پر منعقد ہونے والے برسر اقتدار منتخب نمائندوں کے مختصر اجلاس میں اس منصوبے کے حامی ڈاکٹروں کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اختیار کیے جانے کی جو اطلاعات ملی ہیں، اس سے یہ شائبہ مزید پختہ ہوا کہ اس کے مخالفین کے ہاتھ خاصے لمبے ہیں. خیال تو یہ تھا کہ اس نوعیت کا مرکز قائم ہو لے تو اختر علی سید صاحب سے گزارش کر کے سانحوں کے متاثرین اور ان کے لواحقین کی نفسیاتی بحالی کے پہلو کو بھی اس میں شامل کروانے کی سعی کی جاے مگر یہاں تو شاخ نازک کو ہی نہیں لگنے دیا جا رہا، سو اس پر مزید آشیانے بنانے کا کیا سوال؟

بلوچستان قدرتی آفات کے حوالے سے بہت زیادہ خطر پزیر خطہ مانا جاتا ہے. اس کے علاوہ، جس قسم کی سیاسی مہم جوئی آٹھ اگست کے سانحے پر منتج ہوئی، اس کے تھمنے کے بھی کوئی آثار نظر نہیں آتے. خاکم بدہن، یوں لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں، قدرتی یا سیاسی عوامل کے سبب، اس قسم کے سانحات کا تسلسل جاری رہے گا. ایسے میں اگر ایک جدید \”ٹراما سینٹر\” کا قیام بھی سرکاری ترجیحات میں شامل نہیں ہو سکتا، تو پھر تو انا لللہ پڑھ لینا چاہئے. خادم نے پچھلے مضمون میں اہل وطن سے، وطن کو درپیش تباہی پر کچھ \”چورت\” مارنے کی گزارش کی تھی. لگتا ہے کہ وطن کی تباہی، خصوصا علم و آگہی کے قتل عام پر تو ہم، بشمول منتخب حکمران، محض \”چورت\” ہی مار سکتے ہیں مگر ٹراما سینٹر قائم کرنے سے تو ہمیں کوئی سامراج، کوئی استعمار نہیں روک سکتا. اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ بے بصیرتی، بے دردی اور شخصی مفادات کی دیواریں ہیں. یہ سنٹر نہ بننے دیا گیا تو زیادہ سے زیادہ چند ڈاکٹروں کی جیبیں بھرنے کا سبب بنے گا اور اگر بن گیا تو یقینی ہے کہ یہ بہت سی زندگیاں بچاے میں کامیاب ہو گا.

پس نوشت : مضمون لکھ کر اس پر نظر ثانی کر رہا تھا کہ اطلاع آئی کہ حکومت نے ایک مکمل اور بھرپور \”ٹراما سینٹر\” کی جگہ ایک چھوٹے درجے کے دفتر کے قیام کا ڈول ڈالا ہے جس کا کام صرف زخمیوں کو دوسرے صوبوں کے اسپتالوں تک بھجواے جانے کے عمل کو مربوط بنانا ہوگا، اور اس کی سربراہی ایک ریٹایرڈ اور سادہ ایم بی بی ایس کی سند کے حامل بزرگ کو سونپی گئی ہے. اتنا تو خادم کی موٹی عقل میں بھی آ رہا ہے کہ یہ کام تو اس وقت بھی، بغیر کسی اضافی دفتر کے، بخوبی ہو رہا ہے.. اس قسم کے وقتی اور سطحی اقدامات سے کسی زخمی کو کوئی فائدہ پہنچنے کی امید نہیں ہے.. مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا..


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments