سلیبریٹی گدھا، لیاری اور انگلی


خنجر باز، زہر، کرنٹ اور گدھا غائب کرنے والے کسی بھی اجرتی قاتل کی خدمات بعوضِ دس بیس ٹکی چرس حاصل کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کی۔

مجھے لیاری شفٹ ہونے ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے تو ایسے کسی اجرتی قاتل سے میری سلام دعا تو نہ تھی مگر محلے کے واحد دانش مند اور سب سے اعلی تعلیم یافتہ نوجوان بیبرگ سے میری بہ نسبتِ تعلیم اچھی سلام دعا تھی تو فورا اُس کے گھر جا کر ساری رام کہانی سنائی تا کہ اِس مسئلے کا جلد از جلد کوئی پرامن حل نکال کر محلے میں ہونے والے کشت و خون سے بچا جا سکے۔

اُس نے مجھے کام ہو جانے کی تسلی دی اور رات کے پچھلے پہر ماما بجلی کے ڈیرے پر آکر گدھے کا بندوبست کرنے کی یقین دہانی کروائی۔

میں نے واپس آکر تایا کو کام ہو جانے کی خوش خبری سنائی تو وہ اجرت میں دی جانے والی بیس ٹکی چرس لینے کیماڑی روانہ ہو گے۔

وہ رات بھی کیا قیامت کی رات تھی۔ ایک ایک پل صدیوں برابر لگ رہا تھا۔ میں کبھی بنچ پر بیٹھتا تو کبھی بے چینی سے ٹہلنے لگتا۔ میری نگاہوں میں ماما بجلی اور اُس کے رشتہ دار راکٹ کی لاش پر پیر رکھے ہاتھوں میں بندوقیں تھامے اُس کے خونِ ناحق کا بدلہ لینے کی سوگند کھاتے نظر آتے۔ اگلے ہی فریم میں تایا گدھے کی وفات پر خوشی سے لیوا کرتے دکھائی دیتے۔

اللہ اللہ کر کے رات کے تین بجے بیبرگ آیا۔ اُس نے منہ پر نقاب پہن رکھا تھا اورچادر میں ڈھانپ کر کوئی ڈبہ نما چیز ہاتھوں میں اٹھا رکھی تھی۔ وہ چوروں کی طرح چھپتا چھپاتا، گلی کے ہر دروازے ہر کھڑکی پر نظر رکھے میرے ساتھ بینچ کر آبیٹھا۔ اُس کے ہاتھ میں تھاما ڈبہ دیکھ کر میری روح کانپ اٹھی۔ مجھے یقین تھا کہ یہ کوئی خطرناک قسم کا زہر ہو گا جیسے چکھتے ہی راکٹ مریخ کی طرف پرواز کر جائے گا۔

ابھی ہمیں بیٹھے چند منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ گدھے نے اپنی اوقات پر آتے ہوئے پھر ڈھینچوں ڈھینچوں کا راگ چھیڑ دیا۔

میں نے بے بسی سے بیبرگ کی طرف دیکھا اُس نے مجھے تسلی دی، ڈبہ کھولا، انگلی ڈبے میں اچھی طرح گھمائی اور راکٹ کے منہ میں زہر بھری انگلی پھیرنے کو زمین پر بیٹھ کر مینڈک کی مانند پھدکتے ہوئے گدھے کی جانب بڑھا۔

نیم پر بیٹھے الو نے ایک کربناک چیخ ماری اور اِس قتلِ ناحق کا گواہ بننے سے بچنے کو اڑان بھر کے سمندر کی جانب پرواز کر گیا۔

دن بھر کے تھکے ہارے محلہ دار گھوڑے گدھے بیچ کر مست سو رہے تھے۔ بس ماما بجلی کا سلیبرٹی گدھا اپنے دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر تقریر کر رہا تھا۔

بیبرگ گدھے کے پاس پہنچا۔ اُس نے دھیرے سے انگلی منہ کے بجائے گدھے کے پیچھے جا لگائی۔ راکٹ نے بِدک کر دولتی جھاڑتے ہوئے فل پریشر بنایا اور ڈھینچوں ڈھینچوں کر کے ماما بجلی کو اِس نازیبا حرکت کی اطلاع دینے کی کوشش کی مگر یہ کیا۔ سارا پریشر انگلی لگی جگہ سے ریلیز ہو گیا اور وہ باوجود کوشش کے ایک ہلکی سی ڈھینچوں ہی کر پایا۔

بیبرگ نے وکٹری کا نشان بنایا اور کامیاب مشن کے بعد واپس پلٹنے لگا۔ میں نے حیرت سے ڈبے میں جھانکا قاتل زہر کے بجائے ڈپے میں پرانی گریس دیکھ کر میری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

آپ دوست بھی سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے کیا گدھے کی طرح بے وقت کی ڈھینچوں ڈھینچوں لگا کر آپ کا قیمتی وقت برباد کیا۔ اب ایسا بھی نہیں، تیس سال قبل پیش آئے اِس واقعے سے لوگ آج بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

ہوا یوں کہ چند روز قبل اپنے محلے واپس آتے ہوئے ایک نئے سلیبریٹی گدھے کو رک رک کر ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے کی ناکام کوشش کرتے دیکھا بالکل ایسا لگا جیسے کسی نے اُس کے پریشر کا کنٹرول کہیں سے اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے یا گریس والی انگلی اب بھی اپنی افادیت دکھا رہی ہے۔

یہ دیکھ کر مجھے بے ساختہ انگلی والی سرکار، محلے کا سب سے دانشمند شخص بیبرک یاد آگیا۔ گو کہ حکمرانوں نے گدھوں کو اِس مشکل سے بچانے کے لیے پیڑول، موبل آئل اور گریس کافی مہنگی کر دی ہے مگر جب گدھا اپنے گدھے پن کی وجہ سے محلے داروں اور دیگر یورپین مہمانوں کے سامنے رسوا کروانے پر تلا ہو تو بیبرگ جیسے دانش مند در در رسوائی اور بے وقت کی راگنی سے بچنے کو ایک انگلی گریس کا خرچہ برداشت کرہی لیتے ہیں۔
نوٹ : سب کردار فرضی اور کہانی فکشن پر مبنی ہے کسی بھی گدھے یا انگلی والے سے مشابہت اتفاقیہ ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2