کیا الطاف حسین ہمیشہ مطعون رہیں گے


\"edit\"کل سینیٹ کی امور انصاف و قانون سے متعلق کمیٹی نے الطاف حسین کے خلاف غداری کے الزام میں کارروائی کرنے کی سفارش کی تھی۔ آج قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر الطاف حسین کی 22 اگست کی تقریر، پاکستان دشمن نعروں اور میڈیا ہاؤسز پر حملوں کی مذمت کی ہے۔ یہ قرارداد وفاقی وزیر برجیس طاہر نے ایوان میں پیش کی اور متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی۔ بلکہ ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنی پارٹی کے 22 ارکان اسمبلی کی طرف سے ایک علیحدہ قرارداد بھی پیش کی تھی جس میں پارٹی کے بانی الطاف حسین کی تقریر کو متنازع اور اشتعال انگیز قرار دے کر اس کی مذمت کی گئی ہے۔ اس متن میں پاکستان دشمن نعروں اور میڈیا ہاؤسز پر حملوں کو بھی مسترد کیا گیا ہے۔ تاہم یہ قرارداد ایوان میں رائے دہی کےلئے پیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہوگی کہ ایوان میں حکومت اس سے ملتی جلتی قرارداد لانے کا ارادہ رکھتی تھی اور یہ بھی کہ ایم کیو ایم کی قرارداد میں الطاف حسین کی مذمت کے علاوہ پارلیمنٹ ، مسلح افواج ، میڈیا ، عدلیہ اور ملک کے دستور کے تحت کام کرنے والے تمام جمہوری اداروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا تھا۔ البتہ پہلے اور آخری پیرے کے درمیان اس قرارداد میں ایم کیو ایم پاکستان کا خیر مقدم کرنے، انہیں محب وطن سمجھنے اور بانیان پاکستان کی اولاد کے طور پر احترام کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے اس بات کو دہرایا کہ ایم کیو ایم نے ملک دشمن نعرے لگوانے پر الطاف حسین کی مذمت کی ہے اور ان سے قطع تعلق بھی کر لیا ہے۔ کل پارٹی کی پاکستانی قیادت نے اپنی جماعت کے آئین کو تبدیل کرتے ہوئے اس میں سے اس شق کو حذف کر دیا تھا جس کے تحت پارٹی کے ہر فیصلہ کی الطاف حسین سے توثیق کروانا لازم تھا۔ البتہ قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ان کی پارٹی کو دیوار سے نہ لگایا جائے اور نہ ہی ان کے ساتھ اجنبیوں جیسا سلوک کیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی تقاضہ کیا کہ ایم کیو ایم کے قائد نے اپنی تقریر پر تحریری معافی بھی مانگ لی ہے، اس لئے اس پر بھی غور ہونا چاہئے۔ گویا ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے ساتھی بدستور یہ آپشن برقرار رکھنا چاہتے ہیں کہ متحدہ کے خلاف اٹھنے والے موجودہ مخالفانہ طوفان دبنے کے بعد الطاف حسین کو دوبارہ قومی لیڈر کے طور پر قبول کر لیا جائے گا۔

اس دلیل کا آغاز 23 اگست کو کراچی پریس کلب میں کی جانے والی پریس کانفرنس میں ہی کر دیا گیا تھا۔ تب ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا تھا کہ الطاف حسین نے وضاحت کی ہے کہ پارٹی کو جن مشکل حالات کا سامنا ہے اور کارکن جس صورتحال سے گزر رہے ہیں، اس کی وجہ سے وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھے۔ اسی لئے ان کے منہ سے بعض نازیبا الفاظ سرزد ہو گئے جس پر وہ معذرت خواہ بھی ہیں۔ فاروق ستار کا کہنا تھا کہ پارٹی کےلئے یہ اہم مسئلہ ہے۔ اس لئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ لندن آفس اور الطاف حسین سے قطع تعلق کر کے سارے فیصلے پاکستان میں کئے جائیں۔ جب پارٹی کے بانی صحت یاب ہو جائیں گے تو وہ دوبارہ پارٹی کے معاملات دیکھ سکتے ہیں۔ فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں نے ابھی تک اس آپشن کو مسترد نہیں کیا ہے۔ نہ ہی یہ اعلان کیا گیا ہے کہ پارٹی کی بیرون ملک قیادت غیر متعلقہ اور اجنبی ہے، بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی ایسا مشورہ دیا جاتا ہے جو پاکستان میں قیادت کےلئے قابل قبول ہو تو اس پر غور کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر فاروق ستار شاید اپنی سیاسی زندگی کا اہم ترین اور مشکل ترین کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہیں ایک طرف پاکستان کے ناراض عوام اور سیاسی پارٹیوں کے علاوہ غصے میں آئی ہوئی اسٹیبلشمنٹ کو یہ یقین دلانا ہے کہ اب الطاف حسین کا پاکستان میں متحدہ قومی موومنٹ کی کارکردگی اور فیصلوں سے کوئی تعلق نہیں ہے تو دوسری طرف وہ اس ووٹ بینک کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے جو آج تک الطاف حسین کے نام پر پتنگ پر ٹھپہ لگاتا رہا ہے۔ ایم کیو ایم کا ووٹ بینک الطاف حسین کا مرہون منت ہے۔ کل لندن میں پارٹی کے متعدد لیڈروں نے ٹویٹر پیغامات کے ذریعے یہ واضح کیا تھا کہ الطاف حسین ایم کیو ایم اور ایم کیو ایم الطاف حسین ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار سے زیادہ اس سچائی اور حقیقت سے کوئی بھی آگاہ نہیں ہو سکتا۔ اسی لئے وہ سیاسی سفر میں اب کسی سہارے کے بغیر رسے پر چلنے کا کرتب دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ الطاف حسین کے حامی یوں خاموش ہیں کہ ڈاکٹر فاروق ستار بالآخر ملکی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی پارٹیوں کو باور کروانے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ اگر الطاف حسین کو زبردستی علیحدہ کرنے کی کوشش کی گئی تو پارٹی انتشار کا شکار ہو جائے گی اور اس کے ساتھ ہی کراچی میں بے چینی کی ایسی لہر سامنے آ سکتی ہے جس پر قابو پانا ممکن نہیں ہو گا۔ دوسری طرف اکثر مبصر اور سیاسی بساط پر نظر رکھنے والے ماہرین یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا فاروق ستار نے واقعی پارٹی کے قائد سے بغاوت کر دی ہے یا وہ اب بھی ان ہی کی ہدایات پر عمل کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے فاروق ستار نے یہ رعایت بہرحال دی ہے کہ انہوں نے الطاف حسین کو بھائی سے صاحب بنا دیا ہے اور قائد تحریک کی بجائے انہیں ایم کیو ایم کا بانی کہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے وہ کسی بھی مشتبہ سوال کا ترنت یہی جواب دیتے ہیں کہ الطاف حسین بانی تو ہیں۔ ان سے یہ اعزاز تو ان کے بدترین دشمن بھی نہیں چھین سکتے۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا اس طرز عمل سے فاروق ستار کو پارٹی کا غدار سمجھا جائے گا یا وہ ایک شدید بحرانی صورتحال میں جواں مردی سے باد مخالف کا مقابلہ کرنے والے رہنما اور ساتھی کے طور پر الطاف حسین کے ہاں خصوصی مقام پائیں گے۔ اس کا تعلق اس بات سے ہو گا کہ ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت جو ایم کیو ایم لندن اور الطاف حسین سے ہر قسم کا رابطہ منقطع کرنے کی بات کرتی ہے ۔۔۔۔۔ کس حد تک لندن سے ہدایات اور اشارے وصول کر رہی ہے۔ یہ پیغامات اگر براہ راست مواصلت کے ذریعے نہ بھی آتے ہوں تاکہ فاروق ستار اور ان کے ساتھی حوصلے سے یہ دعویٰ کر سکیں کہ 22 اگست کے بعد انہوں نے الطاف حسین سے بات نہیں کی ہے، تو بھی پیغامات اور ہدایات پہنچانے کے متعدد راستے ہو سکتے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ موجودہ بحران میں ہر ممکنہ طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کرے گی۔

یہ صورتحال پیچیدہ اور مشکل ہے۔ اس لئے اس کے بارے میں بہت سے سوالات سامنے آتے ہیں۔ اس کا احساس فاروق ستار اور ان کے ان تمام ساتھیوں کو بھی ہے جو پاکستان دشمن الطاف حسین سے قطع تعلق کا اعلان کرتے ہوئے اپنے لئے سیاسی سپیس SPACE حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان رابطہ کمیٹی اور دیگر قائدین تو ملاقات بھی کر رہے ہیں اور فیصلے بھی کر رہے ہیں لیکن وہ کارکنوں کا اجلاس بلا کر کوئی اعلان کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکے ہیں۔ کیونکہ بہت سی باتیں کارکنوں کو سمجھ نہیں آئیں گی اور فاروق ستار اپنی تمام تر مہارت کے باوجود الطاف حسین اور لندن قیادت کے بارے میں اپنی بیان کردہ پالیسی پر مشتعل کارکنوں کے سوالوں کے جواب نہیں دے سکیں گے۔ یہ صورتحال اسی وقت کنٹرول کی جا سکے گی جب علاج کے بعد الطاف حسین ’’صحت یاب‘‘ ہو جائیں اور ملک کے سیاسی ماحول کو ایک بار پھر سیاست میں ان کی براہ راست مداخلت کےلئے تیار کر لیا جائے۔

یہ شبہ پیدا ہونے کی سب سے مضبوط دلیل متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے تمام لیڈروں کا اس بات پر اتفاق رائے ہے جو ڈاکٹر فاروق ستار بیان کر رہے ہیں۔ پلک جھپکتے ایسی کون سی عجیب غریب صورتحال پیدا ہوئی کہ متحدہ کے پاکستانی لیڈروں کو الطاف حسین کے گھناؤنے جرائم دکھائی دینے لگے۔ حالانکہ اے آر وائی پر حملہ اور پاکستان دشمن بیان کی تشہیر ہونے سے پہلے فاروق ستار سمیت ساری قیادت اس ہڑتالی کیمپ میں موجود تھی جو پریس کلب کراچی کے باہر لگایا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اور جس سے الطاف حسین نے خطاب کیا تھا۔ جب انہوں نے پاکستان کو ناسور قرار دیا اور پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگوایا تو یہ سارے لیڈر وہاں موجود تھے۔ کسی ایک نے بھی اپنے قائد کی بات کاٹنے اور یہ واضح کرنے کا حوصلہ نہیں کیا کہ یہ اجتماع بانیان پاکستان کی اولادوں پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں لیکن پاکستان کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتے۔ ڈاکٹر فاروق ستار اب اپنے اقدامات کا حوالہ دے کر اس کوتاہی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ 22 اگست اور اس سے بھی بہت پہلے الطاف حسین کے زہریلے خیالات سے اچھی طرح آگاہ تھے اور نہ صرف انہیں قبول کرتے تھے بلکہ ان کی وضاحت کرنے کےلئے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگاتے تھے۔ ایسے میں کبھی غصہ ، کبھی اردودانی کے زعم اور کبھی مخاطب کی جہالت کو دلیل بنا کر اپنے قائد کو سرخرو کرنے کی کوشش کی جاتی۔

صرف ایم کیو ایم کے لیڈر ہی الطاف حسین کے اصل چہرے کی پردہ پوشی کرنے کی کوشش نہیں کرتے تھے بلکہ سیاسی جماعتیں بھی حسب ضرورت انہیں قبول کرنے یا مسترد کرنے کی حکمت عملی پر گامزن رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کو الطاف حسین کے ساتھ سیاسی مفاہمت کے نتیجے میں مرکز اور سندھ حکومت میں شریک اقتدار رکھا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے دعوے کرنے کے باوجود کبھی الطاف حسین کو بطور سیاسی رہنما مکمل طور سے مسترد نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ 22 اگست کو ختم ہونے والے بھوک ہڑتالی کیمپ میں وزیر اطلاعات پرویز رشید بنفس نفیس تشریف لائے اور سیاسی مطالبے ماننے کا یقین دلایا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ایک زمانے میں یہ دعویٰ کرتے ہوئے لندن گئے تھے کہ وہ الطاف حسین کے خلاف برطانوی نظام میں قانونی کارروائی کریں گے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد ہی انہیں کراچی میں اپنی پارٹی کا جلسہ کرنے کےلئے الطاف حسین کی آشیر باد حاصل کرنا پڑی۔

ایسے میں جو اندیشے ڈاکٹر فاروق ستار کو لاحق ہیں، ان سے ملک کی ساری سیاسی قیادت بھی دوچار ہے۔ بس ان کے پاس اس بات کا کوئی توڑ نہیں ہے کہ کراچی اور حیدر آباد کے ووٹروں کی اکثریت الطاف حسین کو ووٹ دیتی ہے۔ اس ووٹ بینک کی طاقت پر الطاف حسین اینٹھتے بھی رہے ہیں اور صرف افراد اور اداروں کو ہی نہیں ریاست کے خلاف دشنام طرازی بھی کرتے رہے ہیں۔ ملک کا شاید ہی کوئی باشندہ ایسا ہو گا جو یہ کہہ سکے کہ الطاف حسین نے 22 اگست کو جو کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اچانک رونما ہوا اور اس سے پہلے انہوں نے پاکستان کے خلاف کبھی بات نہیں کی تھی۔ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر اور ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عبدالقادر نے آج قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے بالکل درست کہا ہے کہ ’’الطاف حسین نے ماضی میں متعدد بار پاکستان مخالف تقاریر کی ہیں۔ انہوں نے مزار قائد پر قومی پرچم جلایا تھا۔ بھارت جا کر برصغیر کی تقسیم کو تاریخ کی سب سے بڑی غلطی قرار دیا تھا‘‘۔ گویا الطاف حسین ہمیشہ سے ہی ایسے ہیں۔ البتہ اب پاکستان کے لیڈر ایک سانحہ پر قومی جذبات ابھرنے اور فوج کی طرف سے سخت رویہ اختیار کئے جانے کے بعد اپنا طریقہ تبدیل کر رہے ہیں۔ اس صورت حال کو یوں بیان کرنا چاہئے کہ الطاف حسین نہیِں، پاکستانی لیڈر بدل گئے ہیں۔ ماضی میں داغدار کردار کے حامل جس لیڈر کے ساتھ مفاہمت کرنے اور بغلگیر ہونے کےلئے کوششیں کی جاتی تھیں، اب اسے غدار قرار دینے کی قراردادیں منظور ہو رہی ہیں۔ لیکن کیا صورت حال واقعی تبدیل ہو چکی ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار اور پاکستان کی دیگر پارٹیوں کے لیڈروں سمیت ادارے بھی بخوبی جانتے ہیں کہ اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔

ایم کیو ایم کے باغیوں کی پاک سرزمین پارٹی بھی اپنا زور لگا رہی ہے۔ اب ایم کیو ایم پاکستان بھی میدان میں آئی ہے۔ کراچی کا میدان خالی دیکھ کر دوسری سیاسی پارٹیاں بھی طبع آزمائی کریں گی۔ لیکن فیصلہ تو 2018 کے انتخابی معرکہ میں ہی ہو گا۔ اگر کراچی کے لوگوں نے اسی جوش و جذبہ سے الطاف حسین کے نام پر ووٹ دیئے یا انتخابات کا بائیکاٹ کیا جس کا مظاہرہ وہ گزشتہ تین دہائیوں سے کرتے آئے ہیں تو کیا الطاف حسین کی تائید کرنے والے 25 لاکھ ووٹروں پر غداری کا مقدمہ قائم ہوگا یا اس ‘ملک دشمن لیڈر‘ کا پھر سے قومی سیاست میں خیر مقدم کیا جائے گا۔ یہ سوال ڈاکٹر فاروق ستار کے علاوہ سب سیاسی پارٹیوں اور اس ملک کے بادشاہ گروں کے لئے بھی اہم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments