بارش عذاب کیسے بنتی ہے؟


\"roshan\"یاد رہے ہم اکیسویں صدی کے16 ویں سال میں زندگی گذار رہے ہیں۔ آج انسان کو چاند تسخیر کیے ہوئے تقریباً پانچ دہائیاں بیت چکیں ہیں، فاصلے میلوں میں نہیں بلکہ منٹوں میں ناپے جا رہے ہیں، سیٹلائٹ کمیونیکیشن کچھ پرانی بات لگنے لگی ہے، تیزرفتار ترقی کسی بھی جدید چیز کو کسی بھی وقت ناقابل استعمال اشیا کی فہرست میں شامل کرسکتی ہے، دنیا کے کچھ ملک سائنسی علوم چوری کر کے ایٹم بم تک بنانے میں کامیاب ہوچکے ہیں اور سول انجینئرنگ کا شعبہ یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ ترقی کی منازل طے کرتی ہوئی اس کی جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا کر بارشوں اور سیلابوں کے نقصانات سے تحفظ کے لیے بخوبی پلاننگ، ڈیزائیننگ اور ضروری ڈھانچہ تعمیر کیا جاسکتا ہے۔ ایسے دور میں اگر معمول کی بارشیں ملک کے ترقی یافتہ ترین شہروں میں سیلاب کی سی صورتحال پیدا کر دیں تو پھر ذہنوں میں یہ سوال ضرور ابھرنا چاہیے کہ تمام تر وسائل کی دستیابی، تکنیکی مہارت کے دعووں اور زر کثیر کے اصراف کے باوجود آخر کیوں ہمیں بارش جیسی آفت سے مناسب تحفظ حاصل نہیں ہے اور ایسا کس کس کے غیر ذمہ دارانہ رویوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔؟

ہمارا خطہ، یہاں کے لوگ اور بارش ایک دوسرے سے اجنبی نہیں بلکہ کئی زمانوں سے مانوس چلے آرہے ہیں۔ یہاں برسات کے لیے رغبت کا یہ عالم رہا ہے کہ اگربارش بروقت نہ برسے تو لوگ ” اﷲ میگھ دے پانی دے گڑ دھانی دے“ جیسے گیت گاتے اور دعائیں مانگا کرتے تھے۔ آج تبدیل شدہ صورتحال یہ ہے کہ لوگ باران رحمت کو زحمت تصور کرنے لگے ہیں کیونکہ بارش کم ہو یا زیادہ خاص طور پر شہری علاقوں میں لوگوں کے معمولات زندگی بری طرح متاثر کرتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں کہیں بھی نکاسی آب کا نظام درست اور مناسب طور پر کام کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔ یہ صورتحال کسی ایک شہر یا صوبے کی نہیں بلکہ پورا ملک اس طرح کی بد انتظامی کی لپیٹ میں ہے۔ چھوٹے شہروں اور پسماندہ علاقوں کا ذکر ہی کیا، حالیہ مون سون کے دوران جب بھی کوئٹہ، پشاور، کراچی اور لاہور جیسے میٹروپولٹن شہروں میں بادل برسے، وہاں شاہراہیں نہروں کا منظر پیش کرتے، چوک تالاب بنے، گٹر ابلتے، شہری گرتے، پھسلتے، ڈوبتے جبکہ موٹر سائیکلیں، کاریں اور دوسری گاڑیاں بارش کے پانی میں مفلوج اور پھنسی ہوئی نظر آئیں۔ میڈیا نے بلا جھجھک اس صورتحال کا ذمہ دار سیاستدان حکمرانوں کو ٹھہرایا۔ الیکٹرانک میڈیا کی زبان بولتے ہوئے عام لوگوں نے بھی اپنی تنقید کا رخ سیاستدانوں کی طرف ہی رکھا۔ انہوں نے، ناقص حکمرانی کے طعنوں کی زد میں آئے قائم علی شاہ، تبدیلی کے دعوے دار پرویژ خٹک، وزارت اعلیٰ پانے کے لیے بے چین رہنے والے ثنااﷲ زہری اور اپنے تئیں بہترین حکمرانی کے دعویدار بنے ہوئے شہباز شریف کو بلا امتیاز ہدف تنقید بنایا۔ عام لوگ اگر نکاسی آب کے مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے مصائب اور نقصانات کا سامنا کرتے ہیں تو بلاشبہ حکمرانوں کو کسی طرح بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا مگر میڈیا پرسنز کی تحریک پر ہر سال مون سون کے دوران مشکلات کا شکار ہو کر ایک ہی طرح کا تنقیدی گیت دہراتے ہوئے ہمیں یہ ضرورسوچنا چاہیے کہ حکمران سیاستدانوں کے علاوہ کیا کوئی دوسرا بھی اس بدانتظامی کا ذمہ ہو سکتا ہے؟ اگر کوئی دوسرا اس کے لیےکسی طرح سے بھی ذمہ دار ہے تو پھر آخر کیوں میڈیا پر اس کا ذکر بھی سیاستدانوں کی طرح نہیں کیا جاتا؟

 جس طرح پورے پاکستان میں مون سون ہواوﺅں کے ساتھ بارشوں کی آمد کوئی نئی بات نہیں ہے اسی طرح ان بارشوں کے دوران نکاسی آب کا نظام درہم برہم ہونا بھی اب کوئی انوکھا واقعہ نہیں رہا۔ ہر سال موسم برسات سے قبل یہ خبریں سامنے آتی ہیں کہ واسا جیسے فراہمی و نکاسی آب کے ذمہ دار اداروں نے ایسا مون سون ایکشن پلان تیار کر لیا ہے جس سے نہ صرف بروقت بارش کے پانی کا نکاس ممکن ہو سکے گا بلکہ شہریوں کو گذشتہ برسوں کے برعکس مشکلات کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد ہوتا وہی کچھ ہے جو رواں مون سون کے دوران دیکھا جا چکا ہے۔ مختصر یہی کہ ہر سال کی طرح اس برس بھی پورے ملک میں واسا جیسے اداروں کا مون سون ایکشن پلان بری طرح ناکام رہا۔ یہاں یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ مون سون ایکشن پلان تیار کس طرح ہوتا ہے۔ ہر نئے برس کے آغاز پر گذشتہ برس کے مون سون ایکشن پلان کی ناکامیوں، کوتاہیوں اور خامیوں کو مد نظر رکھنے کے اقرار اور بہتری کے دعووں کے ساتھ فراہمی و نکاسی آب سے متعلق ادارے ایک نیا منصوبہ تشکیل دیتے ہیں جو آخر کار ناکامی پر منتج ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ کوئی عام سیاستدان جس قدر بھی زمانہ شناس ہو وہ فراہمی و نکاسی آب جیسے کام کے تکنیکی امور کا ماہر نہیں ہو سکتا۔ اصل میں سیاستدانوں کا کام فراہمی و نکاسی آب کے ضمن میں پیدا ہونے والے مسائل کا حل پیش کرنا نہیں بلکہ ان کی نشاندہی کرنا ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے منصوبہ سازی خالصتا سول انجینئرنگ سے متعلق کام ہے اور کوئی کوالیفائیڈ سول انجینئر ہی یہ کام کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں حکمران سیاستدانوں کا زیادہ سے زیادہ کردار یہ ہے کہ وہ سول انجینئروں کی بالا دستی میں کام کرنے والے واسا جیسے اداروں کے تیار کردہ مون سون ایکشن منصوبوں کے لیے مناسب اور بروقت فنڈز فراہم کریں۔ اس طرح کی فنڈز کی فراہمی صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ صوبائی حکومت جس بھی صوبے یا وزیر اعلیٰ کی ہو اس نے، مون سون کے دوران نکاسی آب کے سلسلے میں تیار کردہ منصوبوں کے لیے طلب کردہ فنڈ ہمیشہ بغیر کسی حیل وحجت کے فراہم کیے۔ حکومتوں کی طرف سے محکموں کو فنڈز کی کماحقہ فراہمی کے باوجود اگر یہاں تجربہ کاری کے دعویدار سول انجینئروں کے تیار کردہ مون سون ایکشن پلان مسلسل ناکام ہو رہے ہیں تو کیا یہ رویہ درست ہے کہ اس کے لیے تنقید کا نشانہ صرف حکمران سیاستدانوں کو ہی بنایا جائے اور گہرائی میں جا کر یہ نہ دیکھا جائے کہ اصل غلطی کہاں موجود ہے؟

فراہمی و نکاسی آب کے موجودہ نظام کی بنیاد یہاں انگریز دور میں رکھی گئی تھی۔ انگریز دور سے ہی اس ضمن میں ہونے والے تعمیراتی کاموں کے فنڈز سے کمیشن کی وصولی کا نظام یہاں رائج ہے۔ انگریز دور میں کمیشن کو اپنا حق نہیں بلکہ رعایت سمجھ کر وصول کیا جاتا تھا اس لیے اس دور میں کام کے معیار پر سمجھوتہ نہیں کیا جاتا تھا جب کہ آج کے انجینئر کمیشن کو اپنا حق سمجھ کر وصول کرتے ہوئے کام کے معیار کو ہرگز ترجیح نہیں دیتے۔ اس وجہ سے ہی یہاں مون سون ایکشن پلان جیسے منصوبوں پر عملدرآمد کے دوران مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو پاتے۔ کمیشن مافیا کی وجہ سے نہ تو یہاں فراہمی و نکاسی آب کے نظام کی تعمیربین الاقوامی معیار کے مطابق ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی مرمت اور دیکھ بھال مناسب طریقے سے کی جاتی ہے۔ویسے بھی کمیشن مافیا کی فہرست میں کچھ ایسے مزید حصہ داروں کا اضافہ ہو چکا ہے جن کے کردار کی وجہ سے ہر مون سون ایکشن پلان کی ناکامی کا ذمہ دار حکمران سیاستدانوں کے علاوہ کسی دوسرے کو نہیں ٹھہرایا جاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments