عمران خان سوشل میڈیا کے وزیراعظم تو نہیں؟


\"naeemسوشل میڈیا آزادی اطہار کا سستا اور عمدہ ذریعہ ہے۔ ہر شخص کے پاس اتنی رسائی نہیں کہ وہ اپنی رائے کو پرنٹ اور الیکٹرانک کے توسط سے دوسروں تک پہنچا سکے۔ سوشل میڈیا نے جہاں سوچوں کو نئی وسعتیں دیں وہیں لوگوں کو خود پسندی اور خود سری میں مبتلا کر رکھا ہے۔ سیاست کے حوالے سے ہی دیکھ لیں جو سیاست دان سوشل میڈیا پر زیادہ مقبول ہے وہ جنتا میں زیادہ پاپولر نہیں ہے۔ یہی وہ خود پسندی اور خودسری ہے جو سوشل میڈیا کی وجہ سے سیاست دانوں کو حقیقی معنوں میں آگے بڑھنے نہیں دے رہی حالانکہ وہ کام‘ اہلیت‘ قابلیت اور دیانت داری کے حوالے سے دوسرے سیاست دانوں کے مقابلے میں اچھی شہرت رکھتے ہیں کیونکہ سوشل میڈیا انہیں اس زعم میں مبتلا کر دیتا ہے کہ ان کا کو ئی ہم پلہ نہیں اور وہ عملی سیاست میں وہ کچھ بھی نہ کریں‘ نمبرون ہی رہیں گے جبکہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہوتے ہیں۔

سوشل میڈیا کی زعم میں مبتلا کرنے کے حوالے سے سب سے بہترین مثال پاکستانی سیاست دانوں سے بھلا اور کیا ہو سکتی ہے ۔ عمران خان کو ہی لیجئے‘ ہماری سیاست کا ایک معتبر نام۔ ان کے سوشل میڈیا پرلاکھوں فالورز ہیں۔ عوام ان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں بلکہ دیوانہ وارعشق بھی کرتے ہیں۔عوام کی خان صاحب سے محبت کرنے کی بے شمار وجوہ ہیں۔ سب سے بڑی اور اہم وجہ 1992ء کا ورلڈ کپ ہے جس میں انہوں نے39 سال کی عمر میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے‘ ہمیں خوشی کا وہ نایاب لمحہ فراہم کیا جس کا تذکرہ کر کے آج بھی ہم خوش ہو لیتے ہیں۔ اپنے دس سالہ کپتانی کے دور میں پاکستان کے لئے بے شمار فتوحات سمیٹیں۔ کینسر جیسے موذی مرض کے علاج کے لئے تن تنہا پاکستان میں شوکت خانم کے نام سے ایک ہسپتال تعمیر کیا جس پر پوری قوم فخر کرتی ہے۔ پنجاب کے دور افتادہ اور پسماندہ علاقے میانوالی میں بچوں کی تعلیم کےلئے جدید سہولتوں سے آراستہ یونیورسٹی بنائی۔ ڈرون حملوں کے خلاف عوام میں شعور بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ ‘ بھرپور احتجاج بھی کیا اور ایسے بے شمار کارنامے۔

خان صاحب نے جب سیاسی جدو جہد شروع کی تو اس و قت عوام کو صرف دو جماعتیں ہی دستیاب ہوتی تھیں جنہیں وہ ووٹ کے ذریعے اقتدار کے ایوان تک پہنچاتے ۔ ان دونوں جماعتوں میں کبھی مسلم لیگ برسر اقتدار ہوتی تو کبھی پیپلز پارٹی۔ تحریک انصاف پاکستانی سیاست میں ایک حوصلہ افزا اضافہ ثابت ہوا۔ خان صاحب کی پارٹی کو فروغ اس وقت ملا جب انہوں نے غالباً 2009ء میں مینار پاکستان پر بجلی کے ستائے ہوئے عوام کے حق کے لئے صدائے احتجاج بلند کی تھی۔ اس صدا پر عوام کا جم غفیر امڈ آیا۔ اس کے بعد خان صاحب کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور عوام بھی ان کے نعرے”تبدیلی“ کے پیچھے لگ گئے۔

مئی2013ءکے عام انتخابات میں عوام کی کثیر تعداد نے خان صاحب کی”تبدیلی“ کی لہر کو خوب ووٹ ڈالے اور تحریک انصاف دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ وزیراعظم کا منصب بھلے انہیں نہیں ملا لیکن ایک صوبے کی وزارت اعلیٰ ان کے حصے میں آگئی۔ خان صاحب نتائج تقریباً نتائج تسلیم کر چکے تھے اور اپنا اگلے کا لائحہ عمل ترتیب دے رہے تھے کہ ان کے ”فنانسروں“ نے انہیں اکسانا شروع کر دیا کہ اگر انتخابات غیر جانبدار اورمنصفانہ ہوتے تو آپ کے سوا وزارت عظمیٰ کا کون حق دار تھا؟ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سوشل میڈیا کا سہارا لیا گیا۔ جس میں ظاہر ہے وہ کامیاب بھی ہو گئے۔اسی رو میں خان صاحب بہہ گئے اور یہی سے ”تبدیلی“ خود تبدیل ہو گئی اور کسی اور ٹریک کی طرف چل نکلی۔اسلام آباد میں دھرنا دیا گیا جو تھوڑے دنوں کے بعد ”دھرنی“ میں بدل گیا ۔آج آپ جس سے بھی پوچھیں گے وہ بتائے گا کہ دھرنا وقت اور پیسے کے ضیاع اور جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے لئے دیا گیا تھا اوریہ سب کچھ ان فنانسروں کا کیا دھرا تھا۔ ویسے خیبر پختونخوا سے بھی کوئی اچھی خبریں نہیں مل رہیں۔ وہاں اپنی گرفت مضبوط کریں۔ کہیں یہ نہ ہو اگلے عام انتخابات میں تبدیلی میں وہ صوبہ بھی بہہ جائے۔ ویسے تو اس صوبے کی تاریخ یہی بتلاتی ہے۔

خان صاحب اب بھی وقت ہے کمربستہ ہو کر عوامی مسائل پر توجہ دیں۔ اگر احتجاج کرنا ہی مقصود ہے تو اندھیروں کے خلاف کریں۔ اندھیروں کا بسیراابھی پاکستان سے ختم نہیں ہوا۔ملک تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے لیکن بجلی کے ہوشربا بل ہیں کہ رکنے کا نام نہیں لیتے۔ اگر دھرنا دینا ہی مقصود ہے تو ہسپتالوں کی حالت زار پر دیں جہاں ایک بیڈ پر تین تین مریضوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح لٹایا جاتا ہے اور دوائیاں بھی دو چار نمبر نہیں بلکہ آٹھ دس نمبر دی جاتی ہیں۔ اگر مارچ کرنا ہی مقصود ہے تو سرکاری سکولوں کی ناگفتہ بہ حالت پر دیں جہاں نہ چار دیواری ہے‘ نہ پنکھے‘ نہ ٹوائلٹ اور نہ ہی بینچ۔ کئی سکول تو ایسے بھی دریافت ہوئے ہیں جہاں بچوں کے تعلیم حاصل کرنے کے بجائے جانور بندھے حصول علم کے لئے کوشاں دکھائی دئیے ہیں۔ احتجاج کرنا ہی مقصود ہے تو ایم کیو ایم کے قائد کی پاکستان مخالفانہ سرگرمیوں پر دیں۔ ویسے کراچی میں آپ کی پارٹی نے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں اس جماعت سے گٹھ جوڑ کیا ہوا تھا۔ کیا یہ مفادات کی جنگ نہیں۔ دھرنا دینا ہی مقصود ہے تو پاکستان کے طول و عرض سے معصوم بچوں کو ڈنکے کی چوٹ پر اغوا کیا جا رہا ہے‘ اس پر دیں۔ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران اتنے بچے اغوا نہیں ہوئے جتنے رواں برس ہو چکے۔ مارچ کرنا ہی مقصود ہے تو حالیہ بارشوں سے ڈوبے لاہور کو بچانے کے لئے دیں۔ بارشوں نے جس طرح لاہور کو ڈبو کے رکھ دیا ہے‘ اس سے پہلے کبھی ایسی ابتر صورت حال پیدا نہ ہوئی تھی۔ خان صاحب یہ وہ مسائل ہیں جن کا سامنا عوام کو ہر وقت کرنا پڑتا ہے لیکن آپ کی طرف سے ان مسائل سے چشم پوشی بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہے۔خان صاحب ‘ اب بھی وقت ہے سوشل میڈیا کے زعم سے نکل کر عوامی مسائل کے حل کے لئے کمربستہ ہوں۔ جس طرح عوام اسلام آباد کے دھرنے سے جلد ہی اکتا گئے تھے‘ اسی طرح پاناما لیکس بھی ان کے لئے مردہ گھوڑے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ سوشل میڈیا پر زیادہ فالورز ہونے سے ملک کی باگ ڈور آپ کوسونپی نہیں جا سکتی‘اس لئے آپ کو 1992ء والی قائدانہ صلاحیتیں بروئے کار لانا پڑیں گی۔ ویسے امیتابھ بچن‘ سلمان خان اور دیپکا پیڈکون کے فالورز کی تعداد کروڑوں میں ہے۔اس بنیاد پر تو انہیں بھی وزیراعظم ہونا چاہئے۔ خان صاحب اب بھی وقت ہے۔ اپنے فنانسروں کے لئے نہیں بلکہ عوام کے لئے نکلیں۔ عوام آپ کی اصل طاقت ہونی چاہئے اور یہی عوام اس ملک کی باگ ڈور آپ کے ہاتھوں میں دے سکتے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments