دہشت گردوں کے نامعلوم حیوانی مقاصد


\"davi\"پاکستان ایک لمبے عرصے سے ایک ہولناک اور انسانیت سوز دہشت گردی سے گزر رہا ہے جس میں پورے پاکستان میں چُن چُن کر لوگوں کو شہید کیا گیا ہے۔ یہ سانحات بلوچستان میں بھی ہوئے۔ سندھ اور کراچی میں بھی ہوئے۔ پنجاب اور لاہور میں بھی ہوئے اور خیبر پختونخوا اور فاٹا میں بھی تواتر سے ہو رہے ہیں۔ یہ حملے فوجیوں پر ہوئے۔ پولیس پر ہوئے۔ غیر مسلحہ عام عوام پر بھی ہوئے۔ مسجدوں، ہجروں، جنازوں، امام بارگاہوں، سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، بازاروں، پولیس سٹیشنوں، فوجی چھاونیوں، تربیت گاہوں، کورٹ کچہری اور تقریباً ہر ادارے اور ہر پاکستانی پر ہوئے۔ اس کی زد میں معصوم بچے بھی آئے۔ خواتین، نوجوان، بوڑھے سب کے سب اس کا نشانہ بنے۔ پشتون، بلوچ، سندھی، پنجابی، ہزارہ کمیونٹی اور دوسرے تمام قومیتیں بھی اس ظالمانہ فعل سے بچ نہ سکے۔ اگر ٹریک ریکارڈ دیکھا جائے تو یہ دہشت گردی پورے پاکستان کے خلاف ہے۔ ہر مکتبہ فکر اور ہر قومیت کو نشانہ بنایا گیا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوں یا عام شہری سب اس عذاب سے گزر رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم اس دشمن کو معلوم نہ کر پائے۔

1۔کہ ہمارا دشمن کون ہے؟ کون ہمیں مروا رہاہے؟

 2۔اِس دشمن کے مقاصد کیا ہیں؟ کیوں ہمیں مارتے ہیں؟

3۔اس دشمن کا نظریہ، سوچ، اور مذہب کون سا ہے؟ یعنی کون سے نظریے کے تحت اس طرح کا غیر انسانی اور ظالمانہ سلوک ہم سے کر رہے ہیں؟

4۔ یہ لوگ آتے کہاں سے ہیں؟ کیا ان کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ ہیں اور کیا یہ پاکستانی شہری ہیں؟

5۔ اگر یہ پاکستانی نہیں تو کون ہیں۔ پاکستان میں داخل کیوں ہوتے ہیں؟ کس طرح داخل ہوتے ہیں؟ کس بنیاد پر پاکستان میں رہائش پذیر ہیں؟ سفری دستاویزات کون فراہم کرتے ہیں؟ یا جعلی شناختی کارڈ ان کے لیے کون بنواتا ہے؟

6۔ ان کو مالی امداد کہاں سے ملتی ہے؟ کون لوگ ہیں جو اُن کی مالی معاونت کرتے ہیں۔ یا اُن کا ذرائع آمدن( income source) کیا ہے؟

7۔ ان لوگوں کی تربیت اور پرورش کہاں ہوتی ہے؟ کہاں پر اِن کی برین واشنگ ہوتی ہے۔ کہاں اِن کو اتنا سفاک بنایا جاتا ہے کہ وہ جو بھی غیر انسانی عمل کرے اُن کے لیے یہ جائز ٹھہرتا ہے؟

8۔ اس عمل اور دہشت گردی کو نظریاتی بنیادیں کون فراہم کر رہا ہے؟ اور کس سوچ اور کن مقاصد کے تحت یہ نظریاتی بنیادیں فراہم کی جارہی ہیں؟

9۔ اندرونی اور بیرونی طور پر کون ان کے سہولت کار اور مدد گار ہیں؟

پہلے تو ہمیں ان سوالات کا جواب تلاش کرنا ہے۔ اور جوابات بھی ایسے جو حقیقت پر مبنی ہو۔ عموماً درجہ ذیل تصورات ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں۔

1۔ یہ کہ انڈیا پاکستان کا اصلی اور ازلی دشمن ہے۔ اُس نے شروع دن سے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سوگند کھا چکا ہے۔ اس لیے پاکستان کے اندر وہ اپنے ایجنٹ اور ہم خیال لوگوں کی مدد سے اور فنڈز کی فراہمی کے ذریعے دہشت گردی میں ملوث رہا ہے۔ کلبھوشن را کے ایجنٹ نے بہت کچھ بتا دیا ہے کہ کس طرح وہ ایران کے چاہ بہار میں بیٹھ کر بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کرتے رہیں ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ایک مشہور اُصول ہے کہ دشمن کا دشمن بھی دوست ہوتا ہے۔ اس لیے پاکستان کے سارے دشمن بھی انڈیا کے دوست ہیں اور اس بنیاد پر وہ دہشت گردی کی مالی معاونت کر رہے ہیں۔ \” را \” میں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے باقاعدہ سیل موجود ہے۔ پاکستان کو غیر مستحکم اور کمزور کرنا انڈیا کا ایجنڈا ہے کیونکہ اس طرح کشمیر ہمارے لیے غیر اہم ہوجائے گا اور ہم اندرونی انتشار کی وجہ سے کشمیر کو توجہ نہ دے سکیں گے۔ کشمیر کے متعلق ہمارا ریاستی اور عوامی موقف یہ ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور کشمیر بنے گا پاکستان۔ اس لیے انڈیا پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے افغانستان اور ایران کی سرزمین بھی استعمال کر رہا ہے۔

2۔ دوسرا تصور یہ ہے کہ روس کے افغانستان پر حملے کے بعد پاکستان نے سعودی عرب اور امریکہ کی مدد سے افغانیوں کی مدد کی تاکہ روس کو نکال باہر کرسکیں۔ بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ اس جنگ میں پاکستان کو حصہ نہیں لینا چاہیے تھا کیونکہ یہ افغانستان کا اندرونی معاملہ تھا۔ لیکن زیادہ تر دانشور یہ کہتے ہیں کہ روس کا مقصد صرف افغانستان پر قبضہ نہیں تھا بلکہ اس کے بعد پاکستان کی باری تھی اور وہ گرم پانی تک پہنچنا چاہتے تھے جس کے بعد مڈل ایسٹ کی باری تھی جہاں پر تیل کے ذخائر تک پہنچنا تھا۔ امریکہ تو روس کی طاقت اور کیمیونزم کا پھیلاؤ روکنا چاہ رہا تھا اور ویت نام کی جنگ کا بدلہ بھی لینا چاہتا تھا۔ لیکن یہ ہماری بقا کی جنگ تھی۔ ایک طاقت ور سپرپاور کا پڑوس میں آنے سے پاکستان پر کیا اثرات ہوتے اور کمیونزم اور لادینیت کا پرچار کیسے ہوتا وہ جاننا مشکل نہیں۔ دوسری طرف افغانستان پر ایک حملہ آور قوت کا حملہ اکثریت افغانیوں کی مرضی اور خواہش کے خلاف تھا۔ چند کمیونیسٹ پرستوں نے تو خوش آمدید کہا تھا لیکن پشتون قوم ایک حریت پسند قوم ہے وہ بیرونی حملہ آور کو برداشت نہیں کرسکتے اور پھر ایسا حملہ آور جس کا رسم و رواج اور مذہب اُن سے بلکل مختلف تھا۔ تو اس لیے روس کے خلاف افغانستان کی مدد کرنا افغانستان کے عوام کے ساتھ ایک نیکی تھی۔ اور دوسری طرف یہ پاکستان کے بقا کے لیے بھی ضروری تھا۔ اس مقصد کے لیے افغانیوں اور دوسرے اسلامسٹ اور جہادی قوتوں کو اکٹھا کر کے تربیت اور امداد فراہم کی گئی۔ اور روس کو شکست ہوگئی۔ لیکن روس کے انخلاء کے بعد افغانستان کی تعمیر نو میں عالمی دنیا بشمول امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دلچسپی چھوڑ دی جس سے خانہ جنگی پیدا ہوئی۔ یہ وہی لوگ تھے جن کی تربیت کی گئی تھی اور جن کو مین سٹریم یعنی قومی دھارے میں لانے کے لیے کچھ کام نہیں کیا گیا۔ اور پھر یہ لوگ بے قابو اور باغی ہوگئی۔ اور اپنے معاش کے لیے بھی بندوق اُٹھانے، اور پوست کا کاروبار شروع کرنے پر مجبور ہوئے۔ 1991 کے بعد ان عناصر نے پہلے افغانستان کے اندر تحریک شروع کی اور پھر آخرکار 1996 میں افغانستان پر قابض ہوگئے اور کسی حد تک وہاں امن بھی قائم ہوگیا تھا۔ بہرحال اکثر لوگ ریاستِ پاکستان کو اس لیے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ ریاستی اداروں نے ان لوگوں کو بنانے میں اہم کردار ادا کیا جو افغانستان میں روس کے خلاف لڑے۔ اور کشمیر میں کشمیریوں کی مدد کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ اگرچہ یہ پالیسی پاکستان کے بقا کے لیے تھی لیکن اس پالیسی کا ایک ردعمل یہ آیا کہ کچھ گروپ باغی اور بے قابو ہوگئے اور کچھ دشمن کے ہاتھوں لگ گئے۔ یعنی دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ اس لیے انڈین، ایرانی اور اسرائیلی عناصر بھی اُن باغی اور بے قابو گروپوں کی مدد اور سرپرستی کے لیے پہنچ گئے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ کا کردار بھی مشکوک اور خود غرضانہ ہے۔ اپنے مفاد کے خاطر ہر حد تک جاتے ہیں۔ لیکن مفاد پورا ہونے کے بعد نئے دوستوں کی تلاش میں رہتا ہے۔

3۔ افغانستان کی سر زمین سے بھی پاکستان کے خلاف دہشت گردی ہوتی رہی ہے۔ افغانستان یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان نے افغانستان کے معاملات میں مداخلت کی ہے۔ اس لیے افغانستان کے اندر پاکستان کے لیے کافی نفرت موجود ہے۔ افغانستان کا موقف ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے افغانستان میں مداخلت کا سلسلہ شروع کیا۔ جبکہ پاکستان کا موقف ہے کہ پاکستان کے اندر مداخلت کی ابتداء سردار داؤد نے کی تھی۔ بہرحال افغانستان کے اندر پاکستان کے لیے بے انتہا نفرت موجود ہے جس میں انڈیا کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔ چونکہ انڈیا پاکستان کا دشمن ہے اور افغانستان پاکستان کا پڑوسی ملک اس لیے پڑوس میں پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرنا انڈیا کا ایجنڈا ہے۔ اور ایسا وہ کشمیر کے لیے کر رہے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگا کہ پرامن پاکستان اور پرامن افغانستان لازم و ملزوم ہیں۔ اس کے بغیر دونوں ملکوں میں امن لانا مشکل ہے۔

مختصراً یہ کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی میں اندونی و بیرونی دونوں عناصر شامل ہیں۔ وہ عناصر بھی جو کبھی ہمارے تھے اور اب دشمن کے اشاروں پر کھیل رہے ہیں۔

4۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ریاست کی طرف سے جبر اور بنیادی حقوق کے نہ ملنے کی صورت میں اس قسم کے ریاست مخالف عناصر کی نشونما ہوتی ہے۔ یا ریاست کی طرف سے بے گناہ لوگوں کے ساتھ بُرا کرنے کی صورت میں بھی انتقامی اور باغی جذبات اُبھرتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کب تک ہم لاشیں اُٹھائیں گے۔ یہ سلسلہ کب تک چلے گے۔ آخر اس کا کوئی اختتام بھی ہونا چاہیے۔ ہم ایک تہذیب یافتہ دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ اس دور میں اتنی بے دردی سے خون ریزی کرنا ہماری اجتماعی دانشمندی اور اجتماعی علم پر لعنت بھیجنے کے برابر ہے۔ اس لیے اب ہمیں اس کے حل کی طرف آنا چاہیے۔ جو نظریات اور عقائد ان قسم کے ظالمانہ حملوں اور بے گناہ لوگوں کو مارنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اُن کا راستہ روکنا ہوگا۔ ہمارے پاس ان نظریات کو توڑنے اور شکست دینے کے لیے ایک جوابی بیانیہ  counter Narrative ہونا چاہیے۔ ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ دہشت گردوں کا طریقہ غیر انسانی غیراسلامی اور غیراخلاقی ہے۔ ہمیں ایسی تربیت گاہوں کا بھی صفایا کرنا ہوگا جن میں انسانیت کو مارنے کا جواز فراہم کیا جاتا ہے۔ ہمیں افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کی تعمیر نو میں ہمیں کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ بیرونی دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے ایک واضح اور جامع پالیسی کی ضرورت ہے۔ خود کش بمبار کو روکنا آسان نہیں۔ اس کے لیے سیکورٹی کا سخت ہونا کافی نہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے خون کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں لیکن پھر بھی دہشت گردی میں کمی نہیں آرہی۔ اس لیے دہشت گرد دہشت گرد کیوں بنتے ہیں۔ کون بناتا ہے کہاں تربیت ہوتی ہے۔ یہ سب معلوم کرنا ضروری ہے۔ اور جڑ سے دہشت گردی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ عارضی بنیادوں پر سیکورٹی کے انتظامات عوام کا تخفظ نہیں کرسکتے۔ اگر پیسہ کہیں باہر سے آ رہا ہے تو وہ پیسہ بند کریں۔ اور جو دہشت گرد یہاں کے ہیں اں کی نرسری اور تربیت گاہوں کی نشاندہی کرکے دہشت گردی میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو اپنے خفظ وآمان میں رکھے۔امین

ریاض داوی ایڈوکیٹ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments