گھنی مونچھیں، پراسرار مسکراہٹ اور کراچی کے قبرستان میں ایک قبر


ابو نے چیف سیکریٹری، ہوم سیکریٹری، آئی جی پولیس اور اسلام آباد تک اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرلیا مگر ہر جگہ سے شروع میں پذیرائی کے بعد یہی جواب ملا تھا کہ وہ لوگ اس سلسلے میں کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔ کوئی بھی جرم نہیں ہوا ہے اور اگر ہوا بھی ہے تو نہ اس کے شواہد ہیں نہ ہی ثبوت۔

شاہ صاحب کا بڑا سیاسی خاندان تھا۔ ہر سیاسی جماعت کے بڑے لیڈروں تک ان کی پہنچ تھی۔ سیکریٹری اور کمشنر جیسے لوگوں سے یارانہ تھا، ہزاروں ایکڑ زمینوں کے مالک تھے، بڑے وڈیرے جن کے ہاری ان پر جان دیتے تھے۔ ان کی شادی کے سلسلے میں حکومت کیا کرسکتی ہے۔ حکومت کے تو یہ کام ہی نہیں ہوتے۔

میں نے پہلی دفعہ اپنے باپ کے چہرے پر مایوسی دیکھی۔ شدید مایوسی اورشدید ڈپریشن۔ دولت اثرورسوخ جان پہچان سب کچھ بے کار تھا۔ زندگی میں پہلی دفعہ مجھے اپنے لڑکی ہونے پر غصہ آیا۔ میں نے سوچا کہ میں خودکشی کرلوں۔ میں نے گھرسے باہر آنا جانا بند کردیا۔ گھر پہ پرائیویٹ گارڈ کا اضافہ کردیا گیا تھا۔

ایک دن ابو اور بھیا ہی شاہ صاحب کے گھر جا پہنچے تھے۔ یہ مجھے بعد میں پتا لگا۔ بھیا نے ہی بتایا تھا۔ شاہ صاحب نے ابو اور بھیا کو بہت عزت دی۔ بہت ہی اخلاق سے بات کی۔ ابو نے سمجھایا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ میں اپنے جانتے ہوئے اپنی بیٹی کی شادی ایسے آدمی سے کروں جو شادی شدہ ہے، عمر میں ڈبل ہے اورجس سے میری بیٹی شادی بھی نہیں کرنا چاہتی ہے۔ شاہ صاحب نے پورے عزت و احترام سے کہا کہ عمر کا مسئلہ شاہ صاحب کا مسئلہ نہیں ہے۔

انہوں نے ابو کو سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ مذہب میں عمر کا فرق کوئی فرق نہیں ہے اورمردوں کو تو چار شادی کی اجازت بھی ہے اوراب تو میں ان کی عزت ہوگئی ہوں اور اب یہ شادی تو ہوگی اور آپ کی بیٹی اورآپ لوگوں کی مرضی سے ہی ہوگی۔ میں اس معاملے میں جبر کا قائل نہیں ہوں اورجب بھی یہ شادی کروں گا آپ کی بیٹی کی مرضی سے ہی کروں گا۔ وہ لوگ بہت مایوس واپس آئے۔ شاہ صاحب دونوں کو گاڑی تک چھوڑنے آئے بڑی عزت کے ساتھ۔ بھیا نے کہا تھا کہ انہیں ایسا لگا جیسے سفید شلوار قمیض کے اندر بظاہر تو بہت ہی مہربان انسان تھا لیکن اندر بہت اندر ایک حیوان، بپھرا ہوا ضدی اور بے چین آدمی ہے، انسان کی شکل میں بھیڑیا۔

ہم لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔ میں گھر میں نظربند تھی۔ ایک رشتہ اور تھا جسے ہاں کیا گیا توان لوگوں نے بھی تین دن کے بعد رشتہ واپس لے لیا۔ مجھ سے ماں کی پریشانی نہیں دیکھی جاتی تھی، باپ کا چہرہ جیسے ہزاروں سال کا ہوگیا تھا۔

مہینہ گزرگیا اور کسی طرح سے کوئی صورت نہیں بنتی تھی کہ میں پاکستان چھوڑسکوں یا اپنی تعلیم شروع کرسکوں یا کسی ایسی جگہ رشتہ ہوجائے جو مجھے بیاہ کر اپنے گھر لے جانے کی ہمت بھی رکھتے ہوں۔

پھر یکایک بہت ساری باتیں ہوگئی تھیں، میں اپنے نے پاسپورٹ پر برٹش ایمبیسی ویزا لینے گئی۔ بہت دنوں کے بعد صبح سویرے نکلی تھی۔ بھیا اور گارڈ بھی ساتھ تھے۔ مگر کلفٹن پہنچے سے بہت پہلے گارڈ اور ہماری گاڑی کو پولیس نے روک لیا۔ ابھی پولیس والوں سے بات ہی ہورہی تھی کہ دو اور کاریں آن پہنچی تھیں اور یکایک مجھے یہ پتا لگا کہ مجھے اٹھا کر دوسری کار میں ڈال دیا گیا ہے، نہ میں چیخ سکی نہ رو سکی۔ بے حواس ہوکر جو بھی کہا، اس کا نہ کوئی سر تھا نہ پیر۔ میرے حواس ایک بڑے سے گھر پہنچ کر بحال ہوئے۔

وہ گھر بھی شاہ صاحب کا ہی گھر تھا۔ میرا خیال تھا کہ پولیس آئے گی۔ کہیں سے کوئی مدد پہنچے گی۔ بیسویں صدی میں یہ کیسے ہو سکتا ہے کیسے کوئی اس طرح سے کسی کو اغوا کرسکتا ہے۔ آج کے زمانے میں جب عورت کی آزادی کا ڈنکا پیٹا جارہا ہے۔ جب عورت وزیراعظم بھی ہے، صدر بھی ہے، پائلٹ بھی ہے، خلا باز بھی ہے، جج بھی ہے، سائنس داں بھی ہے مگر کوئی مدد نہیں آئی۔ شام کو شاہ صاحب ملنے آئے تھے۔

میں اور وہ اس کمرے میں اکیلے تھے۔ وہی کلف زدہ سفید شلوار قمیض، سرخ و سفید چہرے پہ بھری موٹی کالی مونچھیں اور دھنسی ہوئی چھوٹی چھوٹی تیر جیسی آنکھیں۔ انہوں نے مجھ سے بڑے پیار سے بات کی۔

”شازیہ! میں آپ کی عزت بھی لے سکتا ہوں۔ آپ کے خوب صورت چہرے کو برباد کرسکتا ہوں تاکہ کبھی بھی کوئی بھی آپ سے شادی نہ کرے۔ آپ کی جان بھی لے سکتا ہوں۔ مگر میں یہ سب کچھ نہیں کروں گا کیوں کہ میں آپ سے شدید محبت کرتا ہوں۔ آپ کو صرف بیوی بنا کر ہی یہاں رکھوں گا، نکاح کروں گا آپ سے۔ عزت سے لے کر آؤں گا آپ کو اور اگر میری بات نہیں مانیں گی تو کوئی بھی آپ سے شادی نہیں کرسکے گا۔ آپ کبھی یہ ملک چھوڑ کر نہیں جا سکیں گی۔

میں نے اپنی زندگی میں کوئی ایسی خواہش کی ہی نہیں ہے جو پوری نہ ہوئی ہو۔ جومیں نے چاہا اسے حاصل کیا ہے، جو میں چاہوں گا اسے حاصل کرلوں گا۔ آپ کے ابو نے ورلڈ بینک میں کام کیا ہوگا اور لندن امریکا میں ان کے دوست بھی ہوں گے مگر پاکستان میں وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ یہ پولیس، یہ وکیل، یہ جج، یہ قانون سب میں خرید لوں گا چاہے کوئی بھی قیمت ہو۔ کوئی بھی میری راہ میں نہیں آسکتا، جو آئے گا اس کا علاج میرے پاس ہے۔ ”شاہ صاحب کے چہرے پر وہ پراسرار مسکراہٹ بہت گھمبیر تھی۔

میں بے تحاشا رو پڑی۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں، کیا کہوں۔ کس مصیبت میں گرفتار ہوگئی؟ مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ پنجرے میں بند پرندے کس طرح بے چین ہوکر تڑپتے ہیں، کیسے دل کرتا ہوگا ان کا۔

انہوں نے پھر کہا، ”جب میں نے آپ کو خیابانِ محافظ کے اس حادثے کے وقت دیکھا تھا تو اسی وقت فیصلہ کرلیا تھاکہ آپ صرف میری ہیں اور میں آپ کو بتا دوں کہ یہ فیصلہ بدلنے والا نہیں ہے۔ آپ کو آپ کے گھر والوں کو وہی عزت ملے گی جو ملنا چاہیے۔ میں نے ہر طریقے سے آپ کے ابو کو سمجھایا ہے مگر ان کی سمجھ میں نہیں آیا ہے۔ آپ پڑھی لکھی ہیں، سمجھ دار ہیں، خود بھی سمجھیں اور انہیں بھی سمجھائیں۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اب آپ کی حیثیت سب سے بلند ہوگی، آپ کے بچوں کو زیادہ حصہ ملے گا اور آپ کو کوئی بھی میری بیوی بننے سے روک نہیں سکے گا۔ “

مجھے لگا کہ شاہ صاحب کے چہرے پر بلا کا اطمینان ہے، آنکھوں میں عجیب سی آگ ہے، ساتھ ہی حاکم کا سا غرور بھی۔ مجھے صرف یہی سمجھ میں آیا کہ میں کسی دلدل میں ڈوبتی چلی جاری ہوں۔ آہستہ آہستہ، دھیرے دھیرے۔

”کل آپ دلہن بنیں گی، میرا اور آپ کا نکاح ہوجائے گا۔ میں نے یہ مکان آپ کے لیے خریدا ہے۔ اسے آپ کے نام کردوں گا۔ آپ کا دین مہر بھی آپ کو ادا کردوں گا۔ زیورات سے سجا دوں گا آپ کو۔ مگر ہاتھ نہیں لگاؤں گا آپ کو۔ نکاح کے بعد آپ کو گھر پہنچا دیا جائے گا۔ پھر آپ کے گھر والوں کی ہی مرضی سے رخصتی ہوگی، آپ کی مرضی سے رخصتی ہوگی۔ آپ نے ہی یہ کام کرانا ہے۔ اسی میں آپ کی بھی عزت ہے آپ کے خاندان کی بھی عزت ہے۔ آپ اچھی طرح سے یہ بات سمجھ لیں کہ پولیس، ملٹری اور عدالتیں کچھ بھی نہیں کرسکتی ہیں میرا۔ میرے ہاتھ بہت لمبے ہیں اور میری جیب بہت بھاری۔ ان سب سے بھی زیادہ میرا پیار مضبوط ہے جو صرف آپ کے لیے ہے۔ ایک آخری بات یہ کہ میں بہت ضدی آدمی ہوں۔ ایسا کبھی بھی نہیں ہوا ہے کہ میں نے اپنی ضدی پوری نہ کی ہو اور آپ کا معابلہ تو بہت ہی خاص معاملہ ہے۔ آپ کو اب تک اندازہ تو ہوگیا ہوگا۔ “

یہ کہہ کر شاہ صاحب چلے گئے۔ میں رات بھر روتی رہی، جاگتی رہی۔ دوسرے دن شام کو ایک بند گاڑی میں نکاح نامے کی کاپی، پھل، مٹھائیوں کے ساتھ شاہ صاحب نے مجھے میرے گھرپہنچادیا۔ اس پیغام کے ساتھ کہ جب بھی ہم لوگ چاہیں گے وہ مجھے رخصت کرا کر لے جائیں گے۔ انہیں کوئی جلدی نہیں ہے، جتنے دن چاہیں شازیہ کو رکھیں۔ نان نفقہ کی ذمہ داری ان کی ہے۔ میری دیکھ بھال بھی ان کے ذمے۔ آگے سب کچھ وہ ہم سب کی مرضی سے کرنا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4