وہاں امن ہے، دشمن کی کمر نہیں


\"husnain

چلو بھئی یہاں کھڑے کھڑے وقت ضائع ہو رہا ہے جو پہلے ہی بہت کم ہے، یہ جگہ پوری دیکھنے کے لیے ہمارے پاس وقت ہی نہیں ہے، بس جلدی جلدی ادھر سے نکلو اور جہاں جہاں سوچا تھا وہاں چلو۔

ہم لوگ مشرق بعید کے ایک شہر میں سڑک کنارے کھڑے تھے اور یہ مکالمہ جاری تھا۔ ابھی وہاں پہنچے ہوئے دو گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے کہ ہم لوگ ہوٹل سے باہر تھے۔ دفتری مصروفیات اس قدر زیادہ تھیں کہ گھومنے کا وقت نکالنا ناممکن تھا، بس ایسے ہی بھاگا دوڑی میں گھومنا تھا، جس قدر بھی ممکن ہوتا۔ اس کا واحد حل یہی تھا کہ وہاں پہنچنے کے بعد سامان رکھا جائے اور بگٹٹ ہو جائیں۔ ہوٹل پہنچے تو معلوم ہوا کہ سگریٹ نوشی کے لیے مخصوص کمرے بہت کم ہیں، ایک کمرہ اس وقت موجود تھا جو ریسیپشن والی خاتون کی کمال مہربانی سے فقیر کو عطا ہو گیا۔ باقی دونوں کے کمرے ملنے میں ابھی تین چار گھنٹے باقی تھے۔ ایسی صورت حال میں افضل یہی معلوم ہوا کہ دنیا دیکھ لی جائے اور دنیا دیکھی گئی۔

جو کمرہ ملا اس میں تینوں نے سامان دھرا اور شہر کا رخ کیا گیا۔ چوں کہ ہوٹل شہر کے بیچوں بیچ اور بہت اچھے کاروباری علاقے میں تھا اس لیے ایک دو کلومیٹر کے دائرے میں کافی اچھی جگہیں تھیں جہاں پیدل ہی گھوما جا سکتا تھا۔ ایک الجھن بہت زیادہ تھی، نہ آپ ہر جگہ سگریٹ پی سکتے ہیں نہ کوئی چیونگم کھانی ہے، گویا لاحول ولا قوة، شہری آزادیوں کے ساتھ اتنا بڑا مذاق! لیکن ایسا ہی تھا۔ جیسا دیس تھا ویسا بھیس بھرے فقیر چلتا گیا۔ انڈین، جاپانی، کورین، چینی، انگریز، امریکی، ہر رنگ و نسل کے لوگ تیز تیز قدم اٹھاتے چلے جا رہے ہیں، عمارتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، دیکھنے کو آسمان میسر نہیں ہے، بس اتنا آسمان ہے جہاں سڑک ہے، سڑک کے کنارے دیکھیں گے تو ان کا آسمان چھین لیا گیا ہے۔ چلے جا رہے ہیں، سبزہ بے شمار ہے، موسم عین ویسا ہے جیسا لاہور کا چھوڑ کر چلے تھے، شدید امس ہے، گھٹن ہے، لیکن شہر دیکھنے کا جنون ہے جو باوجود سولہ گھنٹے سے نیند نہ ہونے کے چلائے جا رہا ہے۔

باقی دو جو ہیں وہ بھی اسی حال میں ہیں، جھومتے گھومتے ایک ترکی ریستوران پر پہنچے، کچھ کھانا وانا کھایا اور وہیں سگریٹ پینے کی جگہ دیکھ کر دھونی رما دی۔ اب سر پر سورج چمک رہا ہے لیکن یار لوگ دھوپ میں بیٹھے سگریٹ سوت رہے ہیں، کیوں، کیوں کہ ایش ٹرے وہیں پر تھے، اور سگریٹ پینے کے لیے بس ایش ٹرے پر بیٹھنا نہیں ہے، رہنا اسی کے دائرے میں ہے، بے طرح وطن کی یاد آئی۔ کیا کالا ہے، کیا گورا ہے، کیا پیلا ہے، کیا چپٹا ہے، کیا دیسی ہے، کیا ولائتی ہے سب کے سب سامنے سے گزرے جا رہے ہیں، مصروف ترین دن ہے لیکن سیاحوں کے غول کے غول منڈلا رہے ہیں۔ جو رش مری میں چودہ اگست کو ہوتا ہے وہ یہاں ایک عام سے دن میں بھی ہے، لیکن مجال ہے کہ کہیں ٹریفک رکا ہو، سب کچھ بحال ہے۔

\"Singapore-2\"

ساتھ والے ہال سے موسیقی کی آواز آ رہی ہے، وہاں کسی موبائل کمپنی نے اپنی اشتہاری مہم چلائی ہوئی ہے، لوگ جاتے ہیں، گانا وغیرہ گاتے ہیں، جیت گئے تو موبائل مل گیا، نہیں جیتے تو باہر آ گئے۔ ادھر دور ایک سانولی سی خاتون انگریزی حرف \”ایس\” کی صورت بنائے کھڑی ہیں، پریشان ہیں، کسی کا انتظار ہے شاید۔ ادھر ایک کورین جوڑا بیٹھا سگریٹ پی رہا ہے۔ وہاں امریکی فلافل کھا رہے ہیں اور کبوتروں کو بھی کھلا رہے ہیں۔ لیکن کبوتر وہاں کے کچھ ٹھیک نسب کے نہیں ہیں۔ بھئی جو کبوتر گوشت، روٹی، سبزی کچھ بھی کھا جائے اس کے کبوتر پنے میں فی ہے یا نہیں؟ بقول آغا ہمارے یہاں کے کبوتر تو دانے کے علاوہ کسی چیز پر منہ نہیں مارتے، یہ منحوس ہر گند بلا کھائے جا رہے ہیں، دیکھیے یہی پھٹکار ان کی شکلوں پر ہے۔ پھر ہم تینوں اس بات پر متفق ہوئے کہ اس شہر کا کبوتر کم از کم سیّد ہرگز نہیں ہے، تو ان غیر سید کبوتروں پر آخری نظر ڈال کر ہم لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔

اب ہم سڑک کے ساتھ ساتھ چلتے جا رہے ہیں، الٹے ہاتھ پر مسلسل سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں، ایسا سمجھ لیجیے کوئی دو سو فٹ لمبی سڑک کے ساتھ ساتھ فٹ پاتھ کے بعد دس پندرہ فٹ جگہ چھوڑ کر مختلف پلازوں کی سیڑھیاں ہیں جو بالکل برابر ہیں۔ ان سیڑھیوں پر خواتین زیادہ اور مرد کم تشریف رکھے ہیں۔ خواتین گرمی کے ہاتھوں مجبور ہیں اور پیلی ٹانگوں کی ایک بہار چھائی ہوئی ہے لیکن ہم تینوں کے علاوہ کوئی انہیں آنکھ بھر کے بھی نہیں دیکھتا ہے۔ ہمیں بھی عادت ہوتی جا رہی ہے، لوگ گا رہے ہیں، سٹریٹ سنگر اپنے موسیقی کا سامان لیے کھڑے ہیں اور فوک گانے بجا رہے ہیں۔ کچھ لڑکیاں گود میں کھانا رکھے کھا رہی ہیں، کوئی جوڑا آپس میں مشغول ہے، اسے دنیا و مافیہا کی کوئی خبر نہیں۔ چند فلپائنی خواتین آدھا دائرہ سا بنا کر بیٹھی ہیں، ان کی اپنی گپ شپ چل رہی ہے، بھیڑ یہاں اتنی زیادہ ہے کہ بمشکل چلنے کی جگہ باقی ہے، جسے بیٹھنے کو مل گیا وہ خوش قسمت ہے۔ پھر ہمیں جگہ ملتی ہے اور ہم بھی بیٹھ جاتے ہیں۔ کچھ دیر بعد شہباز کہتے ہیں؛

چلو بھئی یہاں کھڑے کھڑے وقت ضائع ہو رہا ہے جو پہلے ہی بہت کم ہے، یہ جگہ پوری دیکھنے کے لیے ہمارے پاس وقت ہی نہیں ہے، بس جلدی جلدی ادھر سے نکلو اور جہاں جہاں سوچا تھا وہاں چلو۔

\"singapore-1\"

آغا ابھی سوچ میں ہیں اور فقیر بول اٹھتا ہے، یار، ذرا غور کرو، ہمارے چاروں طرف کیسے خوب صورت لوگ ہیں، ہنس رہے ہیں، بول رہے ہیں، مرضی کے کپڑے پہنے ہیں، گاتے ہیں، کھانے کھاتے ہیں، آزاد ہیں، کوئی انہیں گھورتا بھی نہیں ہے، کسی کو یہ پرواہ نہیں کہ کس نے پہنا کیا ہے، کسی کو کسی کے مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں، کوئی مائیکرو فون پر اعلان نہیں کرتا کہ فلاں چیز حرام ہے، کوئی کسی سے لڑ نہیں رہا، کسی کو خوف نہیں ہے کہ ابھی یہاں آ کر کسی نے پھٹ جانا ہے، گولی کھا کر انسان کیسے گرتے ہیں، نہ انہیں معلوم ہے، نہ انہیں ایسی انجانی گولیوں کا خوف ہے، نہ یہ اس چیز کی فکر میں ہیں کہ موبائل کوئی چھین لے گا، تو ایسے بے فکرے خوب صورت لوگوں کو دیکھنا ہی کیا ہماری خوش نصیبی نہیں ہے؟ عزیزو، ہم کہیں اور نہیں جاتے، صلاح مانو تو یہیں بیٹھتے ہیں اور ان کی خوش قسمتی پر لمحے بھر کو نازاں ہوتے ہیں۔ اگر صرف کھلے عام سگریٹ نہ پی سکنے کی قیمت پر ہمیں یہ سب کچھ مل سکتا ہے تو سمیٹ لو، خدا پھر کبھی یہ چہرے، یہ بے فکریاں اور یہ دن دکھائے نہ دکھائے۔

تو بس تینوں فقیر ایک دوسرے کے دل کی بات جان کر وہیں کہیں جڑ گئے۔ وہ سگریٹ نہیں پیتے تھے مگر وہ حیران ہو کر دنیا دیکھے جاتے تھے۔ کیسے نیارے روپ، دنیا ایسی بھی ہوتی ہے، بغیر دشمن کے دنیا، جہاں دشمن کی کمر نہ سلامت ہے نہ ٹوٹی ہے کیوں کہ دشمن وہاں موجود ہی نہیں ہے! کمال رنگ ہیں مولا تیری دنیا کے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments