وکٹوریا اور عبدالکریم: ملکۂ برطانیہ اور ان کے ہندوستانی ملازم کی دوستی کی لازوال داستان


مسلمانوں کی خیرخواہ ملکہ

مورخین متفق ہیں کہ اپنے زمانے کی روایت کے برخلاف ملکہ وکٹوریہ ذات پات، اونچ نیچ اور رنگ ونسل میں امتیاز نہیں رکھتی تھیں۔ مشہور ہے کہ محل میں حکم تھا کہ ہندوستانیوں کو ‘کالے آدمی’ نہ کہا جائے۔ چنانچہ ایک بار جب برطانوی وزیرِ اعظم نے بھری محفل میں یہ لفظ استعمال کیا تو انھیں معافی مانگنی پڑی۔

کتاب ’وکٹوریا اینڈ عبدل‘ کی انڈین نژاد برطانوی مصنفہ شرابانی باسو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’منشی عبدالکریم نے ملکہ کو یقین دلایا تھا کہ مسلمان ان کے وفادار ہیں۔‘

یاد رہے کہ سنہ 1857 کی جنگِ آزادی کو گذرے ابھی 30 برس بھی نہیں ہوئے تھے اور انگریز حکام مسلمانوں کو اس بغاوت کا ذمہ دار ٹھراتے تھے۔ مسلمانوں کے خلاف اس تعصب کے باوجود ملکہ وکٹوریا نے ہندوستانی سیاست میں دلچسپی لینا شروع کردی۔

انھوں نے وائسرائے کو خط لکھے اور پوچھا کہ آگرہ میں ہندو مسلم فسادات کیوں ہو رہے ہیں اور ان کو روکنے کے لیے کیا کیا جا رہا ہے۔ شرابانی باسو نے مزید بتایا کہ ملکہ وکٹوریا نے احکامات دیے کہ محرم میں فسادات روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ اس کے علاوہ وہ صوبائی اسمبلیوں میں مسلمانوں کی نمائندگی بھی چاہتی تھیں۔

محلاتی سازشیں

جیسے جیسے منشی عبدالکریم ملکہ وکٹوریہ کے قریب ہوتے گئے آس پاس کے تمام لوگ، محل کا عملہ اور شاہی خاندان ان کا مخالف ہو گیا۔ محل کے ہندوستانی ملازموں نے منشی کی چغلیاں کرنا شروع کر دیں کیونکہ وہ بھی ان کی ترقی سے حسد کرنے لگے تھے۔

محل کا تمام انگریز عملہ بھی باغی ہو گیا اور اجتماعی استعفے کی دھمکی دے ڈالی۔ سرکاری اور غیرسرکاری تقریبات میں انگریز حکام جان بوجھ کر منشی کی کرسی ملازمین کے ساتھ لگواتے جب وہ اس پر احتجاج کرتے تو ملکہ منشی کا ساتھ دیتیں اور کہتیں کہ ان کا رتبہ ملازمین سے بلند ہے۔

مصنف رضا علی عابدی نے بی بی سی کو بتایا کہ ملکہ کے بیٹے شہزادہ ایڈورڈ، جو وکٹوریہ کے بعد بادشاہ بنے، منشی کی مخالفت میں سب سے آگے تھے۔ وہ منشی سے اس حد تک نفرت کرتے تھے کہ ایک بار انھوں نے منشی کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر چائے پینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ شہزادہ ایڈّورڈ نے ملکہ کے ذاتی معالج سر جیمز ریڈ کے ساتھ مل کر دھمکی دی کہ اگر ملکہ نے منشی عبدالکریم کے لیے اپنی حمایت ختم نہیں کہ تو انھیں دماغی مریضہ قرار دے کر تخت سے سبکدوش کر دیا جائے گا۔

مصنفہ شرابانی باسو رضا علی عابدی سے اتفاق کرتی ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انگریز حکام منشی عبدالکریم کی وفاداری پر شک کرتے تھے۔ انھوں نے منشی پر امیرِ افغانستان کے لیے مخبری کا بھی الزام لگایا اور جب وہ چھٹیوں پر ہندوستان گئے تو ان کی جاسوسی کی گئی۔

منشی عبدالکریم کے خاندانی واقف کار سید اقبال حسین کہتے ہیں کہ ملکہ ہر مشکل میں ثابت قدم رہیں اور منشی کو مکمل تحفظ دیا۔ وہ آخر وقت تک منشی عبدالکریم کے ساتھ کھڑی رہیں۔

سر کا خطاب جو ملتے ملتے رہ گیا

منشی عبدالکریم کا ملکہ وکٹوریا پر اثرو رسوخ بڑھا تو وہ بھی ملکہ سے اپنی من مانی باتیں منوانے لگے۔ ملکہ بھی کم ہی ان کی کوئی فرمائش رد کرتیں۔ ایک بار انھوں نے ملکہ سے کہا کہ انھیں ‘نواب’ کا خطاب دیا جائے لیکن ملکہ ٹال گئیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایک زمانے میں وہ منشی کو ‘سر’ کا خطاب دینے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہی تھیں لیکن مخالفت کے خوف سے ارادہ تبدیل کر دیا۔ اس کے بجائے انھوں نے منشی عبدالکریم کو ‘کمپینین آف دی آرڈر آف دی انڈین امپائر’ (سی آئی ای) اور ’کمانڈر آف دی رائل وکٹورین آرڈر‘ (سی وی او) کے اعزازات عطا کیے۔

سنہ 1890 سے ملکہ وکٹوریا نے منشی عبدالکریم کے لیے ہندوستان میں جاگیر الاٹ کرانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ ملکہ کی خواہش تھی کہ ان کی موت کے بعد عبدالکریم کے لیے مستقل آمدنی کا ایک ذریعہ ہونا چاہیے۔ مسلسل کوششوں کے بعد وائسرائےِ ہند لارڈ لینس ڈاؤن نے آگرہ کے پاس زمین تلاش کر کے منشی عبدالکریم کے نام کر دی۔

منشی کے پڑپوتے مظہر سعید بیگ یاداشت پر زور دے کر بتاتے ہیں: ’ہماری نانی کہا کرتی تھیں کہ ان کی آگرہ سے 50 کلو میٹر دور متھرا میں زمینیں تھیں۔ ممکن ہے کہ یہ وہی جاگیر ہو جو ملکہ وکٹوریا نے منشی عبدالکریم کے لیے الاٹ کرائی تھی۔‘

مظہر سعید بیگ کی بہن پروین بدر خان بتاتی ہیں ’میں نے یہ بھی سنا تھا کہ ملکہ وکٹوریا نے ایک خط دیا تھا کہ یہ تمھاری سات پشتوں کے لیے ہے۔ تمھارے خاندان میں سے کسی کو کبھی بھی کوئی ضرورت ہو تو وہ یہ خط لے کر حاکمِ وقت کے پاس شاہی دربار پہنچے۔‘

منشی کا زوال

22 جنوری سنہ 1901 کو ملکہ وکٹوریا کا 81 برس کی عمر میں انتقال ہوا تو ساتھ ہی شاہی محل میں منشی عبدالکریم کا اقتدار بھی ختم ہوا۔ نئے بادشاہ ایڈورڈ ہفتم کے حکم پر ونڈسر میں ان کے فروگمور کاٹج پر الاؤ روشن کیا گیا اور اس میں منشی کے کاغذات، ملکہ کے خطوط اور نایاب تصاویر جلا دی گئیں۔

شاہ ایڈورڈ نے یہ احسان ضرور کیا کہ منشی کو اپنی مرحوم ماں کا آخری دیدار کرنے کی اجازت دے دی۔ منشی عبدالکریم کے خاندان کے پرانے واقف کار سیّد اقبال حسین بتاتے ہیں کہ ملکہ کا تابوت بند ہونے سے پہلے منشی وہ آخری شخص تھے جنھوں نے وکٹوریا کا چہرہ دیکھا۔

ملکہ کی تدفین کے فوراً بعد ایڈورڈ ہفتم نے منشی عبدالکریم، ان کے خاندان کے افراد اور محل کے تمام ہندوستانی ملازموں، جن میں اکثریت آگرہ کے مسلمانوں کی تھی، کو ہندوستان واپس بھیج دیا۔ منشی کے پڑنواسے قمر سعید بیگ یاد کرتے ہیں: ‘ہمارے بڑے بتاتے تھے کہ انگریز حکام نے منشی عبدالکریم کے ساتھ بہت برا سلوک کیا۔ یکایک انھیں ہندوستان واپس بھیج دیا گیا اور وطن واپسی پر بھی ان پر سختیاں کی گئیں۔’

ہندوستان واپسی

منشی عبدالکریم نے بقیہ زندگی اپنے آبائی شہر آگرہ میں خاموشی سے گذاری۔ انھوں نے اپنے انگلستان کے گھر کی طرز پر شاندار بنگلہ بنوایا اور اس کا نام ‘کریم لاج’ رکھا۔ قمر سعید بیگ اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں: ‘کریم لاج مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک بہت بڑا ڈرائنگ روم تھا جہاں ملکہ کی طرف سے دیے گئے تحفے تحائف رکھے ہوتے تھے۔‘

اپنے بچپن میں ہم وہاں جا کر یہ سب چیزیں دیکھا کرتے تھے۔ ‘پروین بدر خان بھی اپنی یادوں کو دہراتی ہوئے بتاتی ہیں: ‘میں نے اپنی آنکھوں سے ایک چھڑی دیکھی تھی جس میں یاقوت جڑے تھے۔ ٹھوس سونے کے بنے ٹی سیٹ بھی تھے جبکہ ملکہ کے ہاتھ سے دستخط کردہ تصاویر بھی خاندانی نوادرات کا حصہ تھیں۔’

پردہ گرتا ہے

ملکہ وکٹوریا کے انتقال کے صرف آٹھ سال بعد سنہ 1909 میں منشی عبدالکریم بھی چل بسے۔ انھیں آگرہ کے پچ کویاں قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ایڈورڈّ ہفتم اب بھی تخت پر موجود تھے۔ حکم ہوا کہ منشی کے ورثا کے پاس ملکہ وکٹوریا سے متعلق جو دستاویزات رہ گئی ہیں وہ بھی ضائع کر دی جائیں۔

وائسرائے لارڈ منٹو نے درخواست کی کہ منشی کی بیوہ کو ملکہ کے چند ذاتی خطوط رکھنے کی اجازت دی جائے۔ یہ اجازت اس شرط پر ملی کہ عبدالکریم کی بیوی کی موت کے بعد یہ خطوط بھی تلف کر دیے جائیں۔ البتہ منشی کی بیوہ رشیدن بیگم کو آخر عمر تک حکومتِ برطانیہ کی طرف سے پینشن ملتی رہی۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp