نیم سیاسی کارکن، خطرہ دہاں
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے یہاں نئے نئے ”سیاسی شدہ“ کارکن سمجھتے ہیں کہ سیاست کی مبادیات پر ان کا مطلق اجارہ تسلیم کر لیا جانا چاہیے۔ یہ تاثر ہمارے یہاں ایوب خان سے لے کر مشرف تک کے ادوار میں، اور ان کے باقیات نے تسلسل سے پھیلایا کہ اس ملک میں بدترین طبقہ سیاست دانوں کا ہے۔ یہ نہیں سمجھتے کہ جمہور کی رائے سے منتخب ہونے والے کی اہمیت کیا ہے۔ ان کی سیاسی بلوغت کی لغت یوں مرتب ہے کہ کوئی چور ہے، کوئی ٹین پرنسٹ ہے، کوئی غدار ہے، کوئی ڈیزل ہے، کوئی پٹواری ہے، کوئی میٹر ریڈر ہے۔ اس بلوغت و بلاغت پر افسوس کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے۔
مولانا فضل الرحمان سے اختلاف ہر کسی کا حق ہے۔ کسی دوسرے سیاسی لیڈر یا جماعت سے اختلاف ہر کارکن کا حق ہے لیکن سیاست کی مبادیات اور جمہور کی رائے کی تذلیل کرنے والے کو سیاسی مدبر تو چھوڑیں کارکن بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بدقسمتی ہے ہماری کہ لوگ مولانا کے مثبت کردار کو سمجھ نہیں سکے یا سمجھنا نہیں چاہتے۔ مولانا سے ہزار اختلاف سہی۔ لیکن غور کر لینا چاہیے کہ جس آدمی کی سیاسی قوت چاروں صوبوں میں موجود ہو۔ اس کے ایک اشارے پر لاکھوں مدارس کے طلباء ہر قسم کے دھرنے کے لئے تیار ہوں اور اس نے ان کارکنوں کا غلط استعمال نہ کیا ہو، پارلیمنٹ کا گھیراو نہ کیا ہو، اپنے کارکنوں کو تشدد پر نہ اکسایا ہو، بلکہ بدستور آئینی اور جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتا ہو۔ اس کو کم از کم جائز کریڈٹ تو دینا چاہیے۔
ورنہ تو معاملہ یہ ہے کہ جس آدمی کو پانچ ہزار نفری دستیاب ہو وہ جمعہ کے جمعہ پارلیمنٹ کے سامنے کھڑے ہو کر عوام کے منتخب نمائندوں کو یزیدی قوتیں پکارتا ہے یا جنازوں اور برسیوں سے اکٹھے کیے گئے ہزاری دو ہزاری جلوس کے بل بوتے پر دن رات ڈی چوک میں گالم گفتار کرتے ہیں۔
مثل مشہور ہے، نیم حکیم خطرہ جاں، نیم ملا خطرہ ایماں۔ اس میں اضافہ کر لیا جانا چاہیے۔ نیم سیاسی کارکن، خطرہ دہاں۔
- تالہ ۔ ۔ ۔ بندی - 07/07/2023
- کہانی، ناٹک اور تسلط کا جبر - 20/02/2023
- معطل آدمی کے خواب - 19/04/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).