فضائی حدود بندش اور گنگا اغوا کی سازش


بین الا قوامی سیاست ایک سیاسی بساط ہے اور فضائی حدود کی بندش کو ایک سفارتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ماضی میں بھی اس کا استعمال ہوتا رہا ہے۔ حالیہ بھارتی جا رحیت کے بعد پاکستان نے بھارت پر فضائی حدود کے استعمال پر پابندی عائدکی ظاہر ہے یہ پابندی منا سب حالت میں تو نہیں لگی، پاکستان کی فضائی حدود میں آکر بھارتی طیاروں نے کوئی خیر کا عمل تو نہیں کیا اور پاکستان کی قومی سلامتی کو براہ راست خطرہ بھی ہوا، گو کہ بھارت تین عدد درختوں کی تباہی کے علا وہ کچھ حاصل نہ کرسکا۔

رات کے اندھیرے میں پاکستان کی فضا ئی حدود میں داخل ہو نا اور میراج 2000 لڑاکا بمبار جن کو ایل او سی کے اس پار سے ایوکس ( پیشگی اطلا ع دینے والے اڑتے ہوئے رڈار پلیٹ فارم طیارے / Early Airborne warning & control system ) کی مدد بھی حاصل تھی، پھر یہ پر واز آزاکشمیر کے حدود تک نہیں رہ گئیں تھیں بلکہ یہ پرواز صوبہ خیبر پختونخوا میں بالاکوٹ کے علا قے تک پھیل گئی تھی اور جس کے جواب میں دوسرے دن پاکستان کی طرف سے نپی تلی جوابی کارروائی کی گئی اور بھارت کو سمجھانے کی کوشش کی گئی، شاید بھارتی حکومت کو کچھ سمجھ آگئی ورنہ شاید سلسلہ چلتا رہتا لیکن فضائی حدود تو اس واقعے کے بعد بند ہو چکی۔

ایسا ہی ایک واقعہ مشرقی پاکستان کے سانحہ سے پہلے بھارت نے کیا، بھارت نے ایسے ہی ایک ڈرامے کو بنیاد بنا کر ایسی فضائی بندش کی پابندی عائد کی تھی۔ قصہ کچھ یو ں ہے کہ بھارت کا ایک مسافر طیارہ فوکر ایف 27 سری نگر سے نئی دہلی جاتے ہو ئے اغوا ہوا، اس سے بھارت نے ایک تیر سے دو شکار کیے ایک تو آزادی کشمیر کی تحریک کو بین الاقوامی سطح پر بدنام کیا جائے اور دوسرا مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان کا فضائی رابطہ کاٹ دیا جائے۔

یہ ایک فالس فلیگ اٹیک False Flag Attack تھا۔ (فالس فلیگ اٹیک ایسی سازش کو کہا جا تا ہے کہ جب کوئی ملک یا گروہ خود پر ایک مصنوعی حملہ یا چھوٹا سا حملہ کر کے شور مچا کر دوسرے پر بڑے حملے کا جواز بنائے ) ، باردور بھری کشتی کا ڈرامہ، بھی اس سلسلے کی کڑی ہے، یہ کام صرف بھارت ہی نہیں امریکہ بھی کئی با ر کر چکا ہے، ویتنام پر حملے کا جواز ایسے ہی گھڑا گیا، ) امریکی گن بوٹ پر ویتنام کی جانب سے حملہ کیا گیا، جو کہ سرے سے ہوا ہی نہیں تھا اس کی اور بہت ساری مثالیں دی جاسکتی ہیں۔) ۔

قصہ 1971 ؁ء کا ہے، ملک پر دوسرا مارشل لاء لگا ہوا تھا یحییٰ خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرتھے، ملک میں پہلے جنرل الیکشن ہو چکے تھے، مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے شیخ مجیب الرحمان عددی اعتبار سے پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے نمایاں حیثیت حاصل کر چکے تھے، ان کو ہی پاکستان کا اگلا وزیر اعظم ہو نا تھا، لیکن ان کا مینڈیٹ تسلیم نہ کیا گیا، جس نے ملک کے دونوں بازؤں میں اعتبار میں بد گمانیوں کو فروغ دیا، مگر مشرقی پاکستان خانہ جنگی کی جانب چلا گیا۔

اس دوران کچھ انو کھے واقعات ہوئے جنھوں نے تاریخ کے رخ کا تعین کیا، یہ 30 جنوری 1971 ؁ کی ایک صبح تھی سری نگر ایئر پورٹ پر روز مرہ کی زندگی رواں دواں تھی، سری نگر سے جموں روانگی کے لیے گنگا ( فوکر ایف 27 ) اپنی معمول کی پرواز کے لیے تیارتھا، گو کہ منزل جیسے کہ بتایاجا چکا ہے کہ جموں تھی، لیکن پرواز سے کچھ دیر پہلے دو نوجوان کشمیری لڑکے ایک کھلونا پستول کی مدد سے طیارہ ہائی جیک کر چکے تھے، جہاز کی منزل اب جموں نہیں بلکہ مغربی پاکستان کا دارالحکومت لاہور تھا جہاز لاہور لینڈ کرگیا۔

یہ جہاز کیوں اغوا کیا گیا جہاز کے اغوا کاروں نے لاہور پہنچ کر خو د کو کشمیری حریت پسند ظاہر کیا، دنیا کے اخبارات، رسائل اور میڈیا پر اس واقعہ کو خوب پزیرائی ملی کہ کس طرح کم عمر لڑکو ں نے ایک طیارہ اغوا کرلیا، اس سارے کھیل کے پیچھے اصل مرکزی خیال کیا تھا کوئی نہیں جانتا تھا، لیکن جب اس وقت ایک بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایئر پورٹ پر ان ہائی جیکرز کا استقبال کیا، گویا یہ ہائی جیکرز ان کے اپنے بچے ہیں مزید یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ان اغوا کاروں کا استقبال کیوں کیا، کیا وہ یہ کام کرتے ہو ئے سیاسی غلطی کرگئے یا اس کے پیچھے کوئی ملی بھگت تھی اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اگلی صبح یکم فروری 1971 ؁ ء اس طیارے کو لاہور میں مسافروں سے سے خالی کردیا اورمسافروں کو بذریعہ روڈ امرتسر روانہ کردیاگیا۔ ویکی پیڈیا کے مطابق ( 1 ) پاکستانی حکام نے جہاز کو ایندھن فراہم کرنے سے انکار کردیا، جس پر اغوا کاروں نے طیاروں کو آگ لگا دی، اس پربھارت نے نپا تلاردعمل دیتے ہوئے اس نے اپنے طیارے کا معاوضہ اور مسافروں کی بحفاظت واپسی کا تقا ضہ کیا۔ اس سے قبل پاکستان کوئی ردعمل دیتا بھارت نے مغربی پاکستا ن سے مشرقی پاکستا ن کا فضائی راستہ بند کردیا اب کوئی پاکستانی طیارہ بھارت کی فضائی حدوداستعمال نہیں کرسکتا تھا۔

اس سارے کھیل میں پاکستان نے کیا پایا یہ تو کبھی سامنے نہیں آیا، لیکن بھارت کے اس اقدام کے بعد ہی کسی حد تک حکومت ِپاکستان کوسنگینی کا احساس ہوا، ان ہائی جیکرزکے ساتھ آگے کیا ہوا یہ اس کالم کا مو ضو ع نہیں پھر کبھی اس پر ضرورتفصیل سے بات ہوگی، مختصر یہ کہ ان تمام معاملات سے بھارت کو ہی فائدہ ہوا اور نتیجہ یہ نکلا کے مشرقی پاکستا ن کو جس وقت گزرنے کے ساتھ جتنی امداد کی ضرورت تھی اس پہنچنا اتنا ہی مشکل ہو تا چلا گیا رہی سہی کسر بھارت روس دوستی معاہدے نے پورے کردی۔ روس کے ساتھ دس سالہ دوستی کے معاہدہ نے بھارت کی اسلحے کی پریشانی بھی دور کر دی اب بھارت نام نہاد مکتی باہنی کو منظم کرسکتا تھا اس کو روس اور وارسا ممالک کا اسلحہ بغیرانتظارکے مہیا ہو رہا تھا۔

دوسری جانب پاکستان کا معاملہ کافی مختلف تھا مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان رسد اور سپاہ پہنچانے کا مشکل کام پی آئی کے طیاروں سے ہی ممکن تھا جو بھارت کے بجائے سر ی لنکا کے راستے ڈھاکہ جاتے تھے ظاہر ہے پی کے مسافر طیاروں سے بھاری اسلحہ لے جانا ممکن نا تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مسافر بردار طیاروں سے بھاری اسلحہ جیسے بھاری ٹینک، توپ خا نہ مشرقی پاکستان پہچانا ممکن نہ تھا، بحریہ کو اس کام لیے استعمال کیا جاسکتا تھا لیکن 1965 کی جنگ کے بعد پاک بحریہ اس حالت میں نہیں تھی کے وہ اس حوالے سے خاطر خواہ اقدام کر پاتی۔ بھارت گنگا سازش میں کمال مہا رت کے ساتھ کامیاب رہا اور آج بھی فالس فلیگ اٹیک کرکے اسی راستے پر عمل پیرا ہے جیسے کہ پارلیمنٹ حملہ، ممبئی حملہ ایسے ہی ایک طویل فہرست ہے جو تاریخ کے طا لبعلم کی حیثیت سے ہم کو ضرور پڑھنی چاہیے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2