اسفند یار ولی خان :ایک غدار کے مجسمے کی نقاب کشائی


اسفندیار ولی خان ایک دلچسپ کردار ہیں۔ جو انہیں جانتے ہیں انہیں شاید معلوم ہو کہ وہ انٹرویو دینے سے چڑنے کی حد تک گریز کرتے ہیں۔ \"wisi-baba\"پریس کانفرنس میں جب آتے ہیں تو تھوڑے فاصلے سے ہی آستین چڑھانا شروع کر دیتے ہیں۔ان کو جاننے والا صحافی ہی ان سے اپنی عزت کرا بیٹھتا ہے۔ وہ بیچارہ اپنی جان پہچان کے زعم میں کچھ پوچھ کر پھنس جاتا ہے۔ ہمارا پہلوان البتہ اسفندیار کا انٹرویو بہت آرام سے کروا دیتا ہے۔ وہ بس اتنا کہتا ہے کہ اسفند یار خان اس نے آپ سے دو باتیں کرنی ہیں۔

اے این پی کے لیڈر جب کسی اجلاس عام یا خاص کے لئے بیٹھتے ہیں۔ مسائل پر سنجیدہ بحث کرتے ہیں۔ مختلف زاویوں سے صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔ اسفندیار خان اس بحث سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ صاف دکھائی دیتا ہے کہ ان کے لئے اپنی ہنسی روکنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ سب جب اپنی بات مکمل کر لیتے ہیں۔ تب اسفندیار خان پارٹی فیصلوں کا اعلان کر دیتے ہیں۔

دو ہزار آٹھ میں جب اے این پی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آئی۔ ہر کسی کو یقین تھا کہ بشیر بلور وزیراعلی ہوں گے۔ چند ایک کو ہی معلوم تھا کہ حیدر ہوتی نے وزیر اعلی بننا ہے۔ مرکز میں مخدوم امین فہیم نے وزیر اعظم بننا تھا۔ مخدوم صاحب کی امید اور خواب خواجہ آصف نے مٹی کئے ایک بیان دے کر۔ بشیر بلور کی وزارت اعلی تب جاتی رہی۔ جب ہمارے شاہ جی نصرت جاوید نے آصف علی زرداری کا پیغام اسفندیار خان کو دیا کہ پی پی کے لئے بشیر بلور کی حمایت کرنا مشکل ہو گا۔ جیالے قمر عباس کے قتل ہونے کی وجہ سے بلور فیملی کے فرد کو ووٹ نہیں دیں گے۔

حیدر ہوتی وزیر اے این پی کے پہلے وزیر اعلی بنے۔ آج کل کرپشن کیسز کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کے دور میں ہی پولیس کو ناکارہ بلٹ پروف جیکٹیں فراہم کی گئیں۔ جب ہمارا صوبہ ایک بدترین دہشت گردی کی لہر کا سامنا کر رہا تھا، خیر۔ اے این پی نے اسی دور میں اپنے سینکڑوں ورکروں کی قربانی دی۔ یہ غیر مسلح سیاسی کارکن جو لیڈر بھی تھے پارٹی ورکر بھی دہشت گرد کارروائیوں میں مارے گئے۔ اس ملک کو بچانے کے لئے ان سب نے جان دی جس کے کچھ رہنے والے آج تک الزام لگاتے ہیں کہ سرخ پوشوں نے پاکستان بنانے کی کوئی خواہش کی تھی نہ جدوجہد۔

اے این پی کی سیاست پختون قوم پرستی کے گرد گھومتی ہے۔ پنجاب اور پنجابی اے این پی کے لیڈروں کی تنقید کا مستقل نشانہ رہتے ہیں۔ ایسا\"AsfandyarWaliKhan\" کرنا ان کی سیاسی ضرورت بھی ہے۔ ایسا کرنے کے لئے وہ اپنے پاس کچھ جواز بھی رکھتے ہیں۔ آپ سمجھ لیں کہ سیاست میں اے این پی کا ایک حریف پنجاب اور پنجابی ہے۔

کچھ دن پہلے اسفندیار ولی خان کا ایک بیان آیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ افغان تھے ہیں اور رہیں گے۔ یہ بیان تو کافی ہٹ ہوا لیکن ایک اور بیان اخبارات کے پچھلے صفحات میں سنگل کالم چھپا۔ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ اس بیان میں اسفندیار ولی خان نے کہا کہ طالبان نے ان سے رابطہ کیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ہم انہیں کے پی میں نہ چھیڑیں۔ بدلے میں طالبان اے این پی کی صوبائی حکومت کو تنگ نہیں کریں گے۔ اسفندیار خان نے کہا کہ میں نے ان سے وہی کہا جو ایک پختون کو کہنا چاہئے تھا کہ میری غیرت یہ گوارا نہیں کرتی۔ باقی تاریخ ہے۔

لوگ اکثر پنجاب کے وزیر اعلی کے بیان پر اعتراض کرتے ہیں۔ اسی مشہور بیان پر جس میں انہوں نے کہا تھا کہ طالبان پنجاب کو نشانہ نہ بنائیں۔ اعتراض کرنے والے شاید یہ چاہتے ہیں کہ وزیر اعلی پنجاب کہتے۔ اوئے طالبان آ کر ہمیں مارو۔ انہوں نے اپنے لوگ بچانے تھے جیسے سمجھ آئی ویسے بچانے کی کوشش کر لی۔ آصف علی زرداری نے بھی کے پی میں پی پی کے جیالوں کو بہت سمجھداری سے ٹارگٹ ہونے سے بچایا۔

ایک ہی مخلوط حکومت تھی جس میں ایک پارٹی اے این پی کا ہر بندہ نشانے پر تھا۔ اسی حکومت میں آدھے حصے کی مالک پی پی کے جیالے تقریبا آرام سے رہے۔ آصف زرداری نے یہ کیسے کیا یہ کہانی پھر کبھی۔ بات اسفندیار خان کے بیان کی ہو رہی جو سامنے آ کر بھی اوجھل رہا۔

اس بیان کے بعد حکیم اللہ محسود کو شاید سب سے زیادہ جاننے والے مہربان سے رابطہ کیا۔ ان سے صرف ایک سوال کیا کہ ٹی ٹی پی اے این پی کو کیوں لگاتار ٹارگٹ کر رہی تھی۔ مہربان نے کہا حکیم اللہ محسود کا کہنا تھا۔ ہم نے اسفندیار خان اور اے این پی کو آفر کی تھی کہ ہمیں کے پی میں نہ چیلنج کرو ہم تمھیں تمھاری پارٹی کو کچھ نہیں کہیں گے۔

اسفندیار یار خان کو غدار ہی رہنا چاہئے۔ اب جب وہ پریس کانفرنس میں آئیں تو صرف آستینیں نہ چڑھا کر آیا کریں۔ ہر بار ایک آدھ صحافی کی وہاں مرمت بھی کیا کریں۔

ہم بت پرست ہیں۔ ہم بھگوانوں کو پوجنے والی قوم ہیں۔ انسانی تاریخ کی سب سے معتبر روحانی کتاب مطالعہ پاکستان میں صاف لکھا ہوا ہے۔ محمد بن قاسم یہاں بت پرستی ختم کرنے آیا تھا۔ جب وہ گیا تو ہمارے بڑوں نے اس کے بت بنا کر سجا لئے تھے۔

اسفند یار ولی خان کا بھی ہم بت ہی بنائیں گے۔

 

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments